آج کل سیاست پر بحث ہو تو پہلا سوال یہی سامنے آتاہے کہ کیا اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم اپنی سیاست میں کامیاب ہو گا اور ایسی صورت میں عمران خان اور ان کی جماعت کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟ میرے نزدیک اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم نے اپنے مختصر سیاسی سفر میں جو غلطیاںکیں، کیا ان کی تلافی ہوپائے گی؟اگلے روز پی ڈی ایم کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے ایک صحافی دوست نے اپنے سوشل میڈیا بلاگ میں لکھا ،’’ پی ڈی ایم آہستہ آہستہ استعفوں کے ٹریپ سے باہر آ رہا ہے اور اب اپوزیشن ضمنی انتخابات کے بعد سینٹ الیکشن میں بھی حصہ لے گی۔‘‘ ان سے سوال یہ پوچھنا تھا کہ استعفوں کا ٹریپ کس نے بچھایا تھا؟ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے تین بنیادی غلطیاں کیں،جن کے نتائج انہیں بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ انہوںنے پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار اور اس کی قوت کا درست ادراک نہیں کیا۔ پاکستانی تاریخ میں کوئی بھی سیاسی تحریک اسٹیبلشمنٹ کے اعلانیہ یا خفی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہوئی۔ حکومتیں تب گریں یا کمزور ہوئیں جب سول حکومتیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اندرونی کشمکش میں مبتلا تھیں۔یوں اپوزیشن کے لئے سپیس پیدا ہوئی، جس کا فائدہ اٹھایا گیا۔کوئی سیاسی تحریک ایسی نہیں جس میں وزیراعظم اور اسٹیبلشمنٹ کو بیک وقت ہدف بنایا گیا ہو۔ ایسی نادانی ابھی تک کسی نے نہیں کی تھی۔ یہ ’’سعادت‘‘ پی ڈی ایم کو حاصل ہوئی۔ سول ملٹری اختلافات اگر ہوں بھی تو وہ دب جائیں گے جب مشترکہ دشمن ایک ہو۔ پی ڈی ایم نے وزیراعظم سے زیادہ اداروں کو ہدف بنایا۔یہ سب بیکار کی مشقت اور لاحاصل ایکسرسائز تھی۔ اس سے پی ڈی ایم کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ ممکن ہے کچھ لوگوں کی دلی بھڑاس نکل گئی ہو ۔ سیاست مگر بھڑاس نکالنے کا فورم نہیں ۔ یہ ناممکنات میں ممکنات تلاش کرنے اور نامعلوم سے معلوم اخذ کرنے کی بساط ہے۔ بھڑافس نکالنے والی تقریریں طلبہ لیڈروں کا وتیرہ ہے یا منبر پر بیٹھ کر جذباتی ہوجانے والے مولوی صاحبان کا شیوہ۔ پہلی غلطی سے جڑی ضمنی غلطی یہ ہے کہ دل خوش کن امیدوں اور توقعات کی بنا پر اسٹیبلشمنٹ میں اندرونی تقسیم کی خوش فہمی پال لی گئی۔ ایسا ابھی تک پاکستان میں نہیں ہوا،آئندہ کے امکانات بھی صفر ہیں۔ اداروںمیں چین آف کمانڈ پر سختی سے عمل ہوتا ہے اور قیادت کے زیرسایہ پورا نظم متحد رہتا ہے۔ سوا سال پہلے مولانا فضل الرحمن اپنے پرجوش آزادی مارچ کے جلو میں دھرنے کا عزم لئے اسلام آباد میں نمودار ہوئے۔ تب بھی یہی تقسیم والا خواب دیکھا گیا ۔ ہم جیسے لکھنے والوں نے تب یہی کہا تھا کہ مولانا کے حصے میں رسوائی آئے گی، ان سے اندازے کی غلطی ہوئی ہے۔ ویسا ہی ہوا۔ مولانا فضل الرحمن چند دن دھرنا دینے کے بعد ندامت کے ساتھ یوں اٹھے کہ ان کے ہاتھ خزاں کے بے پھول پودوں کی طرح خالی تھے۔پی ڈی ایم کے ساتھ بھی وہی ہوا۔پاکستانی سیاست میں کئی بار بلف کارڈ کھیلا جاتا رہا۔ کبھی دانستہ خوش گمانی پھیلائی، مصنوعی امید تراشی جاتی ہے ۔کہ غنیم اندازے کی غلطی کرے اور توانائی قبل از وقت ایڈونچر میں گنوا دے۔ دوسری بڑی غلطی عمران خان کی سیاسی حیثیت کا ادراک نہ کرنا ہے۔ اپوزیشن لیڈروں نے یہ رٹ لگائی ہے کہ عمران خان صفر ہیں اور وہ محض سلیکٹڈ ہیں، کٹھ پتلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے وغیرہ وغیرہ۔ اس کا پہلا حصہ تو صریحاً غلط ہے کہ عمران خان قومی سیاست کا بہت اہم حصہ ہے۔ عمران خان نے 2013کے الیکشن میں سترلاکھ ووٹ لئے تھے، جب اس کے پاس مناسب امیدوار تھے نہ الیکشن مشینری اور تب اسٹیبلشمنٹ کی انہیں ہرگز حمایت حاصل نہیں تھی۔ 2018ء کے الیکشن میں عمران خان کو پونے دو کروڑ کے لگ بھگ ووٹ ملے۔ اس میں کچھ حصہ اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر تحریک انصاف میں شامل ہونے والے الیکٹ ایبلز کا ہوگا، ن لیگ کے قائد نواز شریف کی اسیری کا بھی کچھ فائدہ ملا ہوگا۔ اسکے باوجود عمران خان ہر حال میںسوا کروڑ ووٹ لینے کی قوت رکھتے تھے، ممکن ہے اس سے بھی زیادہ۔ عمران خان کے پاس آج بھی سیاسی عصبیت موجود ہے۔ ایک بڑا حلقہ اس کی بیڈ گورننس، ناتجربہ کاری اور سیاسی غلطیوں کے باوجود ساتھ کھڑا ہے۔ ملا نصیر الدین کا مشہور لطیفہ ہے کہ ایک بار انہوں نے گلی کے بچوں کو گمراہ کرنے کے لئے جھوٹ موٹ کہہ دیا کہ فلاں گلی میں مٹھائی بٹ رہی ہے، بچے ادھر بھاگ کھڑے ہوئے۔ چند منٹ بعد ملا نصیر بھی اس سمت دوڑے ۔ کسی نے پوچھا کہاں جا رہے ہیں، وہ بولے ، کیا پتہ سچی مچی مٹھائی بٹ رہی ہو۔ اپوزیشن کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ عمران خان کو ڈس کریڈٹ کرنے کے لئے انہوں نے اس پر پھبتیاں کسیں، سلیکٹڈ، کٹھ پتلی، زیرو وغیرہ کہا۔ غلطی یہ ہے کہ ان تقریروں پر خود بھی یقین کر لیا۔ عمران خان کو انڈر اسٹیمیٹ کرنا سیاسی بے وقوفی ہے۔ عمران خان توقع کے مطابق پرفارم نہیں کر پایا، یہ ایک سامنے کی حقیقت ہے۔ عمران کی ناتجربہ کاری اور نالائق ٹیم نے اس کی بھد اڑوائی ہے، یہ حق سچ ہے۔ عمران خان زیرو ہوچکا، یہ البتہ سچ نہیں۔ ہمارے ہاں حکومتوں کی بری کارکردگی کے باوجود اس کے حامی اور ووٹر اتنا جلد مایوس نہیں ہوتے۔ عمران خان کی کامیابی یہ ہے کہ اس نے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو اپنے حامیوں کے سامنے کرپٹ اور سٹیٹس کو کی علمبردار جماعتیں ثابت کر دیا ہے۔ تحریک انصاف کے حامی عمران خان کی ناکامی کے بعد بھی ان دونوں جماعتوں کا رخ نہیں کر سکتے۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ چلیں عمران خان ڈیلیور نہیں کر سکا، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ پچھلی پارٹیاں دوبارہ حکومت میں آ جائیں۔ عمران خان کی یہ پوزیشن، اسکی سیاسی عصبیت اور پڑھے لکھے نوجوانوں میں گہرا اثر ونفوذ بھی اسٹیبلشمنٹ کو تحریک انصاف سے دور نہیں ہٹنے دے رہا۔ انہیں اندازہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے جیالے، مسلم لیگ کے متوالے، مولانا کے شیدائی اور بلوچ، پشتون قوم پرست حلقے ان کے مخالف ہیں، اگر انصافین بھی مخالف ہوگئے تو کوئی پاپولر دھڑا ان کا حامی نہ رہے گا۔عمران خان سے مکمل عوامی مایوسی میں ڈیڑھ دو سال مزید لگیں گے۔ اپنی ٹرم مکمل کرنے تک بھی اگر خان عوام کے لئے کچھ نہ کر پایا، تب اس کا وہ حال ہوسکتا ہے جو پنجاب میں پیپلزپارٹی کا ہوا۔ اپوزیشن اتحاد کی تیسری بڑی غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے قبل از وقت انتہائی جارحانہ انداز اپنایا۔ پچاس اوور کے میچ میں جو اندھا دھند بیٹنگ آخری دس اوور میں کی جاتی ہے ، وہ پہلے دس پندرہ اوور میں کر ڈالی جائے تو نتیجہ صاف ظاہر ہے۔ میاں نواز شریف نے اپنی تنقید کی انتہا جہاں پر کرنی تھی، وہاں سے آغاز کیا۔ نتیجہ یہ کہ اب کہنے کو کچھ نیا نہیں۔ مریم نواز شریف جاپانی سمورائی جنگجوئوں کے اس آخری گروہ کی طرح بے سمت لاٹھی گھما رہی ہیں، جو حالات نہ سمجھنے کے باعث اپنا وجود ہی کھو بیٹھے۔مولانا فضل الرحمن سیاسی انتقام اور اشتعال میں اپنا توازن گنوا بیٹھے ہیں۔ اپنے ناکام لانگ مارچ سے پہلے پارٹی میں اعتراض کرنے والوں کو وہ یہی جواب دیتے کہ میرے اوپر بھروسہ رکھیں ، مجھے زیادہ پتہ ہے۔ بعد میںمولانا کی مشہور زمانہ سیاسی’’ فراست‘‘ ایکسپوز ہوگئی ، اعتراض کرنے والے درست نکلے۔ مولاناکے پھر وہی تیور ہیں۔ان کی حکمت عملی خام ہے ۔ استعفو ں پر اصرار غیر ضروری تھا۔ یہ دعویٰ کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی؟ سمجھ لینا چاہیے تھا کہ پیپلزپارٹی آخر ایسا کیوں کرے گی؟ اپنے ہاتھ آگ میں جلانے کا کوئی معقول جواز ہونا چاہیے۔پھرسخت سردی میں اسلام آباد مارچ، دھرنے کی چتاونی بھی بے وقت ، غیر ضروری تھی۔ سیاست میں اپنی آپشنز محدود نہیں کی جاتیں، ٹائم فرئم نہیں دیا جاتاکہ گھڑی کی ٹک ٹک کسی کا انتظار نہیں کر سکتی۔ اپوزیشن کا تمام تر زور اس پر تھا کہ وہ دبائو ڈال کر سینٹ انتخابات سے پہلے عمران خان کی حکومت ختم کر ا لے گی۔اس کے تین طریقے تھے۔ عوامی دبائو۔ لاکھوں لوگ سڑکوں پر آ جائیں اور 1977ء کی طرح نظام مملکت مفلوج ہوجائے۔ ایسا اب ہونا ممکن نہیں۔ عوام کا سیاسی شعور بہت آگے چلا گیا، وہ کسی کے اقتدار کے لئے ڈنڈے کھانے، جیلیں جانے کو تیار نہیں۔پارٹی کے کمٹیڈ ورکر ایسا کرسکتے ہیں، مگر ان کا ایسا کرنا عوامی سیلاب نہیں لا سکتا۔ دوسرا طریقہ اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ ملا نا تھا۔ اداروں اور ان کی قیادت کو براہ راست ہدف بنا کر یہ آپشن بھی ختم کر لی گئی۔ تیسرا طریقہ ان ہائوس تبدیلی یعنی ہارس ٹریڈنگ وغیرہ کے ذریعے اکثریت اقلیت میں بدلنے کا ہے۔ پاکستان میں یہ آپشن کبھی ختم نہیں ہوتی۔ مسئلہ پھر وہی ہے کہ جب سول ملٹری ایک ہی پیج پر ہوں، تب ایسے سیاسی کھیل بھی نہیں کھیلے جا سکتے۔ سردست دوتین چیزیں واضح ہیں۔ سینٹ انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن منہ چھپا کر سہی، مگر اس میں بخوشی حصہ لے گی، ہر ضمنی انتخاب میں ان کا امیدوار سامنے آ ئے گا۔ استعفے سامنے نہیں آئیں گے۔ آخری آپشن البتہ موجود ہے، اس کے لئے کئی اگر مگر موجود ہیں۔ پھر یہ کہ خان صاحب خاموش تماشائی تو نہیں بنے رہیں گے، کچھ ہاتھ پیر مارنے کا وہ بھی حق رکھتے ہیں۔ عامر خاکوانی/زنگار