اس میں کوئی شک نہیں کہ شاعر ادیب کسی بھی معاشرے کا سب سے حسّاس طبقہ ہوتا ہے۔حکیم الامت نے اپنی مختصر سی نظم ’شاعر‘ میں معاشرے کے جسم میں شاعر کو آنکھ کا درجہ دیا ہے،کیونکہ پورے وجود میں کہیں بھی مسئلہ ہو آنکھ اس کے لیے اشک بار ہوتی ہے۔آج سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہر ملکی معاملے پر عوام کی براہِ راست نظر ہے۔ یہ ایسا طبقہ ہے جو صرف محسوس ہی نہیں کرتا بلکہ دو ٹوک انداز میں کہہ بھی دیتا ہے۔ ہم موجودہ ملکی حالات و واقعات پر مختلف لوگوں کی آراء پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ کچھ عرصے سے سیاسی پارٹیوں کی دانتا کِل کِل نے باہمی دوستیوں اور رشتے داریوں میں جو دراڑ ڈالی ہے،معروف شاعر اظہر عباس نے اس کی یوں تصویر کشی کی ہیـ: یہ سیاست ہمیں تو لے بیٹھی/ ہم کہ جو بیٹھتے تھے مل جل کر/ میر و غالب کی بات کرتے تھے/ رات ہنس کر گزار دیتے تھے/ اب یہ حالت ہے ایک دوسرے کا/ ہم گریباں پکڑ کے بیٹھے ہیں/ پی ٹی آئی ہو، پی پی ہو کہ نون/ ہم جلاتے ہیں ان کی خاطر خون/ یعنی یہ حال کر دیا گیا ہے/ دوست، دشمن بنا دیے گئے ہیں/ ذہن تقسیم کر دیے گئے ہیں/ اور ان کے لیے جنھیں ہم سے/ دُور کا بھی کوئی علاقہ نہیں/ یہ سیاست ہمیں تو لے بیٹھی! اس ہنگامی حکومت نے دو ماہ کے اقتدار میں عام آدمی کی زندگی میں جو ہنگامی حالات پیدا کر دیے ہیں، اس نے سفید پوش طبقے کو بھی لب کھولنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ لالہ بسمل جیسے ادب بیزار شخص کے سر پر بھی گزشتہ ہفتے یہ ہائیکو سوار تھی: آ کے پٹرول مجھ سے کہتا ہے یہ جو بجلی ابھی نہیں آئی اس کو پھر گیس ہو گئی ہوگی؟ ان چند ہفتوں میں پٹرول، گیس، بجلی، ڈالر، گراسری نے عوام کی جو حالت کر دی ہے، بات ’زیست مشکل ہے بہت، تُو اِسے اور بھی مشکل نہ بنا‘ جیسے شاعرانہ شکوے سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے تالیاں گالیوں میں تبدیل ہوئیں۔ وہ بھی اتنی شدید اور متواتر کہ متحرک پارٹی کی لسانی جنگجو کو کہنا پڑ گیا کہ یہ مہنگائی صرف نون لیگ نے نہیں کی بلکہ اس میں باقی اتحادیوں کی رضا بھی شامل ہے، جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ان گالیوں کی ایک معقول مقدار، اقتدار سے دونوں ہاتھوں سے فائدہ اٹھانے والے جناب آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن اور دیگر زعما کی جانب بھی منتقل ہونی چاہیے۔ آئی ایم ایف پہ تو لوگ اس قدر بھرے بیٹھے ہیں کہ ایک صاحب نے ایک کم لباس بچے کا کارٹون اپ لوڈ کیا ہے جو آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط سن کے فون پہ ایک محترمہ سے معصومانہ سوال پوچھ رہا ہے کہ ’باجی! آپ کے پاس آئی ایم ایف والوں کی کوئی ویڈیو نہیں ہے؟ ‘ ایک جذباتی نوجوان نے تو عمران پہ غداری کا الزام لگانے والوں کے لیے احتیاطاً محمود اچکزئی، فضل الرحمن، بلاول،مریم کی ایسی آڈیوز، ویڈیوز بھیجی ہیں، جن میں واشگاف الفاظ میں سندھو دیش بنانے، خیبر پختون خوا، افغانستان کو دینے اور پاک فوج کو آخری حد تک برا کہنے کے ریکارڈ موجود ہیں لیکن غداری کے فتوے کہیں دکھائی نہیں دیے… یہ بات تو تقریباً سب جانتے ہیں کہ پی ایم، سی ایم سمیت نئی حکومت کے ساٹھ فیصد ارکان نَیب اور عالم الغیب کو مطلوب ہیں۔ نعیم بخاری نے تو یہ بتایا کہ پنجاب میں نئے آنیوالے ایک بڑے عہدیدار پر چولستان میں 14400 کنال پر قبضے کا کیس چل رہا ہے، کلیجے ٹھنڈے کرنے والوں سے پوچھا ہے کہ ذرا تسلّی کر لیں کہ کوئی مجرم کسی عہدے سے رہ تو نہیں گیا۔ ایک دل جلے نے لکھا ہے کہ ’’طاقتور کے لیے عدالت کا اور محبت کا دروازہ کھلتا ہے مگر کمزور صرف دونوں کا چکر ہی کاٹ سکتا ہے۔‘‘ دوسرا اشک آور لکھتا ہے کہ ’’پاکستانیوں نے بھی کیا قسمت پائی ہے کہ قیمتیں عالمی منڈی کے مطابق، تنخواہیں سبزی منڈی کے مطابق اور سہولتیں مویشی منڈی کے مطابق‘‘ … ایک یوتھیے نے کسی حکومتی زعیم کے اس بیان کہ ’’عمران گرفتاری کے خوف سے پشاور میں چھپا ہوا ہے‘‘ کے جواب میں تُرت لکھا ہے کہ ’’ نواز شریف تو جیسے کمرشل مارکیٹ میں سرِ راہ بچھے بنچ پہ بیٹھا قلفی کھا رہا ہے‘‘ ایک منھ پھٹ نے پٹرول محض ساٹھ روپے مہنگا ہونے پر سیدھی سیدھی وارننگ دی ہے کہ ’’ پاکستانیو گھبرانا نہیں ! یہ دوسری ڈوز تھی، ابھی بجٹ کی بوسٹر ڈوز باقی ہے‘‘ … ایک من چلے نے اڑائی ہے کہ ملکہ برطانیہ اپنے ملک کی مہنگائی سے تنگ آ کر دو ہزار کی بھاری مدد لینے جلد پاکستان پدھار رہی ہیں … ایک مسخرے نے بلاول زرداری کی بابت اشتہار لگایا ہے کہ یہ ذرا ذرا سی مہنگائی پہ چیخ چیخ کے کانپیں ٹنگوانے والا یہ جوشیلا نوجوان وزارتِ خارجہ کا حلف اٹھانے کے بعد کہیں گم ہو گیاہے، اسے آخری بار ترکی میں شہباز شریف پیچھے ہاتھ باندھے دیکھا گیا ہے، جس کو ملے بلاول ہاؤس اطلاع کرے۔ ایک بزرگ نے گزشتہ دور میں ایک دو روپے مہنگائی پر آسمان کھڑا کر دینے والے صحافیوں کی خاموشی پر بھی افسوس کا اظہار کیا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے اپنے زمانے کی لالٹین، دستی پنکھے اور سائیکل کے احیا پر حکومتِ وقت کا شکریہ بھی ادا کیا ہے۔ ایک درد مند نے کرپشن زدہ سیاست دانوں کو علامہ کے اس قول سے غیرت دلائی ہے کہ ’’فقیر کی بھوک اس کی جان کھاتی ہے،جبکہ سلطان کی بھوک ملک و ملت کھا جاتی ہے، ایک ادب مزاج نے یہی بات حفیظ جالندھری کے اس شعر سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے: سر پہ راہی کے سربراہی نے صفائی کا ہاتھ پھیرا ہے مرزا منھ پھٹ تو کئی دن سے ان خدشات کا برملا اظہا رکرتے پائے گئے ہیں: آگ جلتی نظر نہیں آتی گیم چلتی نظر نہیں آتی ان حکیموں سے، ان طبیبوں سے موت ٹلتی نظر نہیں آتی