مکرمی !کراچی کو دنیا بھر میں روشنیوں کے شہر کے طور پر جانا جاتا تھا لیکن پھر وہ وقت بھی آیا کہ اس کی شناخت بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان، اسٹریٹ کرائم و دیگر گھناونے جرائم کے گڑھ کے طور پر ہوئی اور کراچی دنیا کے خطرناک ترین شہروں کی دوڑ میں شامل ہوگیا، ، شہریوں سے لوٹ مار تو معمول کی بات ہے، پانی جو زندگی کا بنیادی جْز ہے وہ تک میسّر نہیں، بجلی کی حالت سے سب واقف ہیں، سڑکوں و سیوریج کا نظام آئی سی یو میں ہے، ٹرانسپورٹ مافیا کو خوش رکھنا شاید زیادہ ضروری ہے اس لیے کوئی سرکاری منصوبہ نہیں دیا گیا شہر کی موجودہ پھیلاو کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے 2003 سے 2007 تک متحدہ کے کچھ افراد نے چائنہ کٹنگ کی اور پھر 2008 کے بعد سندھ سرکار کے بلیو آئیڈ بھی پیچھے نہ رہے، سینکڑوں بستیاں ایسی ہیں جو غیرقانونی طریقے سے آباد ہوئیں اور سرکار نے سیاسی فوائد کے چکر میں بیک جنبش قلم انہیں قانونی کردیا ۔ کراچی کی مخدوش صورتحال اور ناانصافیوں کو بنیاد بنا کر ایک بار پھر صوبے کا مطالبہ سامنے آیا تو جواباً سندھ سرکار نے بھی سندھ کارڈ کھیلنا شروع کردیا جوکہ معاملے کا حل نہیں، جیسا کہ اوپر عرض کرچکا ہوں کہ دہائیوں پر محیط ناانصافیوں کی وجہ سے کراچی ایک فالٹ لائن بن چکا ہے اور نجانے سندھ سرکار کیوں مہاجروں کو ایک فالٹ لائن بنانے پہ تْلی ہے جس کا ادراک بخوبی سلامتی کے اداروں کو ہے لہٰذا اب وقت کی ضرورت ہے کہ پہلے تو میرٹ و شفافیت کا نظام رائج کرکے فالٹ لائن کو ختم کیا جائے تاکہ کوئی اسے ایکسپلائٹ نہ کرسکے ۔ ( انشال رائو ‘اسلام آباد)