اسلام آباد کی صورت تیزی سے بدل رہی ہے۔ مولانا کا دھرنا پُھر ہو گیا اور پھر عمران خان کے بڑے حریف میاں نواز شریف بھی پُھر سے اڑ گئے۔ بیماریاں تو ان کو بہت ہیں اور کئی برسوں سے ہیں مگر جس طرح وہ ہشاش بشاش ایک شاہانہ ایئر ایمبولینس میں سوار ہوئے اور ایک عام صحت مند مسافر کی طرح جہاز پر سوار ہوئے، اپنی گاڑی میں تشریف لائے تو کسی طرح کوئی ایمرجنسی کی شکل نظر نہیں آئی۔ مگر یہ سب اب تاریخ کاحصہ ہے۔ ان کے ملک سے جانے کے بعد سیاسی صورتحال کچھ بدلی بدلی لگ رہی ہے۔ یہ تو کہا گیا ہے کہ اب نون لیگ میں سب کو متحد کرنے والی بڑی شخصیت موجود نہیں اور کئی پاور سینٹر کام کرتے نظر آئیں گے۔ نواز شریف کی بیٹی کو بھی لگتا ہے خاموش رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ شہباز شریف بھی باہر چلے گئے اور رہ گئے کچھ دوسری صف کے لیڈر جو پارٹی کے ورکر اور جیالوں کو زیادہ متحرک نہیں کر سکتے۔ تو نون لیگ تو لگتا ہے ایک طرح سے Neutraliseہوگئی ہے۔ حیران ہوں کہ سب نے اپنے لیڈر کو ہار پھول پہنا کر سیاست سے باہر بھیج دیا اور پارٹی کو کمزور کیا مگر شاید شطرنج کی بڑی بساط پر یہ پارٹی اور اس کے لیڈروں کے لئے بہتر ہی ہو۔ اس بڑی بساط پراور بھی کئی چالیں نظر آ رہی ہیں۔ یہ شطرنج صرف دو کھلاڑیوں کے درمیان نہیں کھیلا جا رہا۔ اس میچ میں کئی کھلاڑی ہیں جنہیں عرف عام میں سٹیک ہولڈرز بھی کہا جاتا ہے۔ کئی سوالات ہوا میں معلق ہیں اور جواب کھل کر نہیں آ رہے۔ مثلاً فوج کے ترجمان کو یہ کہنا پڑا کہ حکومت اور فوج کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اور وہ پہلے کی طرح ایک صفحے پر ہیں۔ ایک کہانی جو بڑی تیزی سے پھیلائی گئی وہ فوج کے سربراہ کے بارے میں تھی اور ایک بے یقینی کی صورت حال پیدا کی گئی حالانکہ ان کی ملازمت میں توسیع کے تمام مراحل پورے ہو چکے۔ پھر یہ خبریں پھیلائی گئیں کہ حکومت نواز شریف کو نہیں بھیجنا چاہتی مگر اسے مجبور کیا گیا اور آخر میں عدالتوں نے جواز فراہم کیا۔ وزیر اعظم غصے میں نظر آئے اور ان کی حکومت کی حلیف پارٹیاں کچھ بگڑے بگڑے سے بیان دیتی دکھائی دیں۔ پھر فوراً ہی کابینہ میں تبدیلیاں نظر آنے لگیں اور وزیر اعظم کے ساتھی کہتے سنے گئے کہ اب وہ ’’حکومت بن کر دکھائیں گے‘‘ اس کا کیا مطلب ہے وہ خود ہی بتائیں یا دکھائیں لیکن اسلام آباد کی فضائیں اتنی گرد آلود لگتی ہے جیسے کوئی بڑا طوفان آنے کو ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ مولانا کو یہ یقین دہانی کرا کر واپس بھیجا گیا کہ دسمبر جنوری تک Minus-1یعنی عمران خان کو اس سسٹم سے نکال دیا جائے گااور مرکز میں ایک مخلوط حکومت بنا دی جائے گی جس میں نون لیگ‘ پی پی پی ،ق لیگ اور ایم کیو ایم شامل ہونگی۔ پنجاب میں شہباز شریف کو دوبارہ موقع دیا جائے گا اور چھوٹے صوبوں کومرکز اپنے مرضی کے گورنر لگا کر کنٹرول کرے گا ،یہ ایک نئی بساط کی طرف اشارہ ہے یہ سب کہنا اور اس کی خواہش کرنا یا خواب دیکھنا آسان ہے مگر اس پر عمل کرنا بہت مشکل ۔ خان صاحب نے اپنی تازہ ترین تقریر میں انتہائی زوردار اور اپنے روایتی انداز میں اعلان کیا کہ وہ ہار کر جیتنا جانتے ہیں اور آخری بال تک ہمت نہیں ہارتے اس کا مطلب صاف تھا کہ ان کو بھی کچھ گڑ بڑ نظر آتی ہے۔ پھر اس طرح کی سرگرمیوں کے درمیان خبریں آئیں کہ وزیر اعظم کی فوج کے سربراہ سے اور پھر آئی ایس آئی کے سربراہ سے ملاقاتیں ہوئیں ۔ ملاقات کی سرکاری تصدیق کرنااور اعلان کرنا زیادہ کان کھڑے والی بات تھی کیونکہ ان عہدوں پر جو لوگ متعین ہیں وہ روز اور ہر اہم قومی مسئلے پر بات کرتے رہتے ہیں اور یہی ان کا کام ہے۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ اب عمران خان کو ایک اچھا موقع ملا ہے کہ وہ اپنی حکومت کو بہتر انداز سے چلائیں کیونکہ اپوزیشن تتر بترہو رہی ہے اور ملکی معیشت سنبھل رہی ہے۔ موقع تو ہے کیونکہ خان صاحب نے لڑ جھگڑ کر اتنا تو منوا لیا کہ وہ کسی کو این آر او یا معافی نہیں دیں گے اور اگر دوسرے ادارے ایسا کرنے پر تلے ہوں تووہ قانون کے مطابق جیسا چاہے کریں اور خود اسکی ذمہ داری اٹھائیں جس طرح نواز شریف کی روانگی کا بوجھ عدالتوں نے اٹھایا تو خان صاحب اب بڑے مشورے کر رہے ہیں اور عام لوگوں کو ریلیف دینے کی کئی سکیمیں بنا رہے ہیں ۔کچھ خیالات جو بڑی شدت سے زیر غور ہیں ان میں اس تاثر کو رد کرنا ہے کہ ملک کا قانون غریب کے لئے الگ اور امیروں کے لئے الگ ہے، تو پہلا قدم جو زیر غور ہے وہ ملک میں تمام وہ قیدی جو 65سال کے یا اس سے زیادہ عمر کے ہیں اور ان کو سرکاری ڈاکٹر بیمار قرار دے چکے ہیں ان کی سزائیں ختم کر دی جائیں اور انہیں رہاکر دیا جائے۔ خان صاحب اس تجویزکے بارے میں بہت مثبت رائے رکھتے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اگر امیروں کو انصاف آسانی سے مل رہا ہے تو حکومت غریبوں کو خود انصاف دے کر یہ تاثر کم کرے گی۔ اسی طرح تمام 60سال سے زیادہ عمر کی خواتین جو جیلوں میں ہیں اور بیمار ہیں یا ایسی خواتین جو جیل میں بچوں کو جنم دے کر پال رہی ہیں ان کو بھی رہائی دی جائے۔ وکیل کہتے ہیں کسی قیدی کی سزا میں کمی یا معاف کرنا حکومت کے قانونی اختیار میں ہے اور کوئی عدالت بھی ضعیف اور بیمار قیدیوں کی رہائی میں رکاوٹ نہیں بننا چاہے گی کیونکہ خود عدالتوں کے اوپر بڑے سوال اٹھائے جا رہے ہیں اور خود وزیر اعظم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور آنے والے چیف جسٹس سے درخواست کر چکے ہیں کہ وہ اس تاثر کو دورکریں اور عدالتوں پر لوگوں کا اعتماد کم نہ ہونے دیں ان قیدیوں کو علاج کی سہولیات دینا یا خواتین کو اپنی زندگی گزارنے اور بچوں کی دیکھ بحال کرنے کے لئے حکومت کے کئی پروگرام موجود ہیں، جیسے احساس پروگرام‘ بے نظیر انکم سکیم اور بیت المال۔ میرے خیال میں اگر عمران خان یہ کام کر دیتے ہیں تو ان کو سیاسی فائدہ تو ہو گا ہی مگر وہ ایک طرح سے ہمارے عدالتی سسٹم کو بھی ایک اچھا جواب دے سکیں گے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ اب تمام سیاست کا فوکس حکومت کی کارکردگی اور عمران خان کے اگلے اقدامات پر ہو گا۔ حکومت اور مقتدر اداروں کے درمیان بھی تعلقات کو بے یقینی کی کیفیت سے بچایا جائے اور میڈیا میں افواہوں کو پھیلانے کا بھی نوٹس لیا جائے۔ غیر ضروری اور بے تکے تبصرے اور قیاس آرائیاں روکی جائیں اور اس کا طریقہ سنسر شپ نہیں بلکہ ایک بہتر کارکردگی اور قومی بیانیہ دے کر کیا جائے۔ یہ بات بھی سمجھنے کی اہم ضرورت ہے کہ ملک میں ایک جمہوری نظام قائم ہے اور جن خطرات سے ملک دوچار ہے اس میں داخلی اکھاڑ پچھاڑ بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ عوام کو بھی یہ یقین دلانا پڑے گاکہ اگر تبدیلی بزور بازو یا محلاتی سازشوں کے ذریعے کی جاتی ہے تو اس کا کیا جواز ہے۔ خان صاحب کی حکومت نے ابھی 18مہینے پورے نہیں کئے اور یہ دن بھی مشکلات کی بدترین شکل میں سے گزرے۔ یہ درست ہے کہ خان صاحب نے بڑے بڑے نعرے لگائے اور خواب دکھائے مگر یہ ضرور ملحوظ نظر رہنا چاہیے کہ اگر انہیں کسی کے دبائو میں جلدی میں ہٹا دیا گیا اور وہی پرانی بگڑی ہوئی اور مسخ شکلیں دوبارہ حکومت میں نظر آئیں تو عوام کا ردعمل کیا ہو گا۔Minus-1اتنا آسان بھی نہیں۔