زیادہ بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں‘ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ جو حقیقت ایک سپر پاور کو سمجھنے میں 9برس لگے وہ دوسری سپر پاور کو انڈر سٹینڈ کرنے میں 18برس لگ گئے اور ابھی بھی معلوم نہیں کہ آج کی سب سے بڑی سپر پاور امریکہ اس حقیقت کو اس کی تہہ تک سمجھ پایا کہ نہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جو حملہ آور سرزمین افغانستان پر چڑھ دوڑے گا وہ بالآخر یہاں سے خوار و زبوں ہو کر نکلے گا۔ مشہور تاریخ دان ٹائن بی کی گواہی بھی یہی ہے۔ دو روز قبل خبر آئی کہ برسوں سے افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان قطر میں مذاکرات کی ڈوب ڈوب کر ابھرتی نائو اب کنارے لگ چکی ہے۔ قطر میں ہونے والے موجودہ مذاکرات کے لئے افغان طالبان نے کئی نئے نام شامل کئے تھے بالخصوص ملا عبدالغنی برادر کی مذاکراتی ٹیم میں شمولیت نہایت اہمیت کی حامل تھی۔ مُلّاعبدالغنی برادر نے مُلّا عمر کے ساتھ مل کر 1994ء میں طالبان کی بنیاد رکھی تھی۔ اگرچہ بعض ثقہ ذرائع سے یہ خبر آئی ہے کہ امریکہ اور طالبان کے مابین جنگ کے خاتمے کے بارے میں اصولی مفاہمت تو ہو گئی ہے مگر ابھی تک بہت سی تفاصیل کا طے ہونا باقی ہے۔ تاہم چھ روز تک مسلسل مذاکرات ہونا اور کسی نتیجے پر پہنچنا بہت بڑی پیش رفت ہے۔ امریکہ کی طرف سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ طالبان اس بات کی ضمانت دیں کہ افغانستان کی سرزمین داعش یا القاعدہ یا اس طرح کی کسی اور ’’جہادی‘‘ تنظیم کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ طالبان کا مطالبہ یہ ہے کہ امریکہ افغانستان سے مکمل انخلاء کے لئے ٹائم لائن دے اور یہ گارنٹی دے کہ وہ افغانستان میں امن معاہدے کے بعد علاقے کے کسی ملک بالخصوص پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گا۔ stefhen tannerنے اپنی کتاب ’’الیگزانڈر دی گریٹ سے لے کر سقوط طالبان تک‘‘ اور bruce Riderنے اپنی کتاب افغانستان میں امریکہ کی خفیہ جنگ میں لکھا ہے کہ پاکستان کی آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمن نے مجاہدین کو لیڈر شپ ٹریننگ اور اسلحہ وغیرہ فراہم کیا۔ جنرل اختر عبدالرحمن کی ڈاکٹرائن کا دوسرا نکتہ یہ تھا کہ امریکہ اور روس کے مابین روسی فوجوں کے انخلاء کاکوئی معاہدہ عمل میں آنے سے پہلے انتقال اقتدار کا فارمولا طے ہو جانا چاہیے۔ اس وقت کی جونیجو حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر 1988ء میں جنیوا معاہدے پر دستخط کر دیے جس پر صدر ضیاء الحق نے جونیجو صاحب کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کر دیا۔ سوویت فوجیں افغانستان سے چند ماہ میں نکل گئیں اور امریکہ بھی آنکھیں بدل کر افغانستان کے معاملات سے لاتعلق ہو گیا جس کے بعد مجاہدین تنظیمیں آپس میں دست و گریباں ہو گئیں اور یوں مجاہدین کی حکومتیں بنتی ٹوٹتی رہیں مگر ایک بار پھر افغانستان خانہ جنگی اوربدامنی کا شکار ہو گیا۔مجھے آج بھی 1993ء کے ایک جمعتہ المبارک کی وہ مقدس ساعتیں یاد آ رہی ہیں جب متحارب جہادی تنظیموں نے آپس میں اتحاد کیا تھا اور وہ افغان مجاہدین بیت اللہ کے سامنے موجود تھے اس وقت یہ بندہ فقیر بھی حرم مکہ میں حاضر تھا۔ اس موقع پر شیخ عبدالرحمن السدیس نے نہایت پرجوش اور ایمان افروز خطبہ دیا اور ان مجاہدین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم باہم دست و گریباں تھے اور آگ کے کنارے بیٹھے تھے مگر اللہ کی برکت سے تم بھائی بھائی ہو گئے۔ افغان مجاہدین کے درمیان اتنا مقدس اتحاد بھی دیرپا ثابت نہ ہوا ۔ قطر میں ہونے والی مفاہمت سے طالبان کا دیرینہ مطالبہ پورا ہو گیا کہ وہ افغانستان کی کٹھ پتلی افغان حکومت سے نہیں براہ راست امریکہ سے مذاکرات کریں گے۔ امریکہ کی خواہش پر پاکستان نے طالبان کو قائل کر کے دوبارہ مذاکرات کی میز پر لا بٹھایا امریکہ سمیت دنیا نے اس حقیقت کا ادراک بھی کر لیا ہو گا کہ افغانستان میں جنگ اور امن کا علاقے میں سب سے بڑا سٹیک ہولڈر پاکستان ہے انڈیا نہیں۔ پاکستان بار بار امریکہ کو باور کرا چکا ہے کہ افغانستان میں امن کا سب سے بڑا خواہش مند پاکستان ہے۔ اگر افغانستان میں امن قائم ہوتا ہے تو اس کا براہ راست پاکستان پر پڑے گا اور پاکستان میں بھی امن ہو گا۔ہمیں بڑھ بڑھ کر ڈینگیں مارنے اور باتیں بنانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ خارجہ تعلقات کی زبان میں دو چیزوں کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے ایک حکمت اور دوسری لطافت۔ جس طرح کی لٹھ ماری ہم شب و روز اپنے داخلی محاذ پر کرتے رہتے ہیں اس سے بچنا ہو گا یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ بالآخر امریکہ کو ہمارے در پر ہی سر جھکا کر آنا پڑا۔ امریکہ کے ساتھ تو ہمیشہ سے پاکستان کے مراسم : ذرا میں لگائے زخم ذرا میں دے مرہم والے رہتے ہیں، بالخصوص صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا تو کچھ پتہ نہیں چلتا گھڑی میں تولہ اور گھڑی میں ماشہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہمیں یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ طالبان افغان حکومت میں شامل ہوں گے تو وہاں استحکام آئے گا۔ طالبان اپنی آزاد مرضی کے مالک ہیں۔ اسی طرح کی کسی ’’حکیمانہ نصیحت‘‘ کو وہ ڈکٹیشن سمجھیں گے اور ایسا ماضی میں ہوتا آیا ہے اس لئے احتیاط واجب ہے کہ: لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام اگرچہ 1989ء اور 2019ء کے درمیان پورے بیس برس کا فاصلہ ہے مگر چند مماثلثیں آج بھی موجود ہیں۔ ان مماثلتوں کا ذکر کرنے سے پہلے علاقے کی دوسری قوتیں جن میں چین روس اور ایران ہیں، کا تذکرہ کر لینا چاہیے۔ یہ ساری قوتیں بھی اس خطے میں امن کی متمنی ہیں چین تو بطور خاص چاہتا ہے کہ اگر افغانستان میں امن و استحکام ہو گا تو وہ ون بیلٹ ون روڈ تھیوری کے عملی نفاذ کے لئے آگے بڑھ سکے گا۔ البتہ پرامن افغانستان اور پاک افغان برادرانہ تعلقات موجودہ بھارتی سوچ کو ایک آنکھ نہیں بھائیں گے۔ اگر انڈین قیادت پاکستان دشمنی کی عینک اتار کرگیرائی اور گہرائی سے سوچے گی تو اس پر بھی آشکارا ہو گا کہ علاقے میں امن و استحکام خود بھارت کی ترقی و خوشحالی کے لئے بے حد مفید ثابت ہو گا۔ آج فیصلے کی اس گھڑی میں پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہو رہی ہے اگلے اٹھارہ مہینوں میں طالبان اور امریکہ کے درمیان جنگ بندی اور امریکہ کی افغانستان سے ’’آبرو مندانہ‘‘ واپسی کے واسطے حالات سازگار بنانے میں پاکستان نہایت اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس کار عظیم کے لئے پاکستان میں داخلی سیاسی استحکام کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ حکمرانوں اور سیاست دانوں کو ایک دوسرے پر طنزو طعنے کے نشتر چلانے اور ایک دوسرے پر گھٹیا زبان کے تیر برسانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ ہماری آنکھ ایک ایک لمحے پر رہنی چاہیے۔ امریکہ کے افغانستان سے جانے کے امکانات روشن تو ہوئے ہیں مگر ہمیں امریکہ‘ طالبان اور افغان حکومت کے ساتھ مل کر ایسے انتظامات کرنے چاہئیں کہ امریکہ 18ماہ میں افغانستان سے اس طرح چلا جائے کہ اپنے پیچھے بدامنی و خانہ جنگی نہیں ایک متحدہ و متفقہ حکومت چھوڑ جائے۔