وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی ایک خوشگوار شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ ایچی سن اور کیمبرج یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ اردو زبان اور اہل زبان کا سا لب و لہجہ انہیں والدہ کی طرف سے ورثے میں ملا۔ وہ پہلے بھی پیپلز پارٹی کے دور میں وزیر خارجہ رہے۔ مجھے حیرت ہے کہ امریکی جنگ کے سیاہ بادل ہمارے برادر پڑوسی ملک ایران پر منڈلا رہے ہیں اور پاکستانی وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی اس بارے میں فکر مند دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی اس بارے میں میڈیا اور اہل دانش و صحافت کے ساتھ اپنی معلومات کا تبادلہ کرتے سنائی دیتے ہیں۔ وہ ہر ہفتے اسلام آباد کے سنہری قید خانے سے آزاد ہو کر جب اپنے ملتانی آشیانے پر پہنچتے ہیں تو خوب چہکتے ہیں اور اپوزیشن پر اس لب و لہجے میں برستے ہیں کہ جو ان کی شخصیت کا حصہ نہ تھا بلکہ اپنے مقام کی مزید بلندی کے لئے انہوں نے پی ٹی آئی میں نیا اپنایا ہے۔ بحیثیت وزیر خارجہ ان کی نظر ہر وقت علاقائی ‘ اسلامی اور عالمی منظر نامے پر ہونی چاہیے۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ وہ خارجہ امور کے بجائے داخلی سیاست میں بہت پرجوش دکھائی دیتے ہیں۔ ایک بار پھر امریکہ کی طرف سے ایران کے خلاف جنگی غبارے میں اسی طرح ہوا بھری جا رہی ہے جیسے عراق‘ شام اور لیبیا پر حملوں سے پہلے ہوا بھری گئی تھی۔ خلیج میں امریکہ کی ملٹری بیس پر بہت ہلچل دیکھنے میں آ رہی ہے۔ امریکہ نے دو جنگی بحری جہاز خلیج بھیج دیے ہیں۔ ان جہازوںمیں مشہور زمانہ۔ امریکی وار شپ ابراہام لنکن بھی ہے۔ اس جہاز پر جوہری سب میرین اور بہت سا دوسرا تباہی کا سامان موجود ہے۔ ان جہازوں کا توڑ اینٹی شپ میزائل ہیں جو چین اور روس کے پاس موجود ہیں۔ ان جنگی بحری جہازوں کی سپورٹ کے لئے B-52بمبار بھی قطر کی امریکی ایر بیس پر موجود ہیں۔ امریکہ نے اس ساری جنگی تیاری کا بڑا دلچسپ جواز پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں ایران کی طرف سے خلیج میں اپنی تنصیبات اور اپنے اتحادیوں پر حملے کا خطرہ ہے۔ ایرک مارگویس امریکہ کے انتہائی واجب الاحترام کالم نگار ہیں ان کے بقول جدید پیرائے میں پرانی صلیبی سوچ رکھنے والے جان بولٹن اور امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ایران کی اسلامی حکومت کے خلاف جنگی فضا کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ امریکہ کا یہ بھی الزام ہے کہ ایران جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک بار پھر یورنیم کی افزودگی شروع کر رہا ہے اور ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتا ہے۔ جبکہ یورپی یونین کے ممالک کی گواہی یہ ہے کہ ایسا کچھ نہیں۔ اس سارے منصوبے کے پیچھے اسرائیلی خفیہ معلومات کام کر رہی ہیں۔ اسرائیلی انٹیلی جنس کی رپورٹوں کے مطابق ایران خلیج میں حملے کی تیاری کر رہاہے۔ اسرائیل کا اصل منصوبہ یہ ہے کہ وہ امریکہ سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کروائے اور ایران کو اتنا نقصان پہنچا دے کہ وہ اگر پتھر کے زمانے میں نہیں پہنچتا تو اس کے قریب قریب تباہی سے دوچار ہو جائے۔ اس تباہی کے بعد اسرائیل امریکی کانگریس میں اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے ایران کا بحری فضائی اور اقتصادی محاصرہ مزید سخت کروائے کہ ایران اٹھنے کے قابل نہ رہے۔ اسرائیل کے پاکستان کے خلاف کتنے خوفناک عزائم ہیں اس سے ہمارے وزیر خارجہ آگاہ ہوں گے۔ غالباً اسی ساری صورت حال کے نتیجے میں پاکستان نے ایران کو آگاہ کیا ہے کہ ہم امریکی پابندیوں کے باعث گیس پائپ لائن منصوبے پر کام جاری نہیں رکھ سکتے۔ کئی برس سے پاکستان میں گیس کے بڑھتے ہوئے بحران سے نجات پانے کے لئے صدر آصف علی زرداری کے دور حکومت میں ایران سے گیس لانے کا ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق ایران پاکستانی سرحد تک 900کلو میٹر طویل پائپ لائن بچھا چکا ہے جبکہ پاکستان کو اپنی سرزمین پر جو 800کلو میٹر تک لائن بچھانا تھی اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ فروری میں ایران نے پاکستان کو قانونی نوٹس بھیجا تھا کہ اگر پاکستان نے مقررہ وقت میں اپنے علاقے میں پائپ لائن نہ بچھائی تو ایران عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرے گا۔ مشرق وسطیٰ میں پہلے ہی خاصی خونچکاں صورت حال ہے۔ یمن میں گزشتہ چار برس سے جنگ جاری ہے۔ ایران کے حمایت یافتہ یمنی حوثی کئی محاذوں پے اپنے سپاہیوں کو واپس بلا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے اقوام متحدہ کی نئی امن ڈیل پر عمل کرتے ہوئے یہ قدم اٹھایا ہے جبکہ سعودی عرب کی حمایت یافتہ یمنی حکومت کے ایک وزیر نے کہا کہ حوثیوں کا یہ اقدام محض دکھاوا ہے اور وہ یمن میں امن نہیں چاہتے گویا یمن میں ابھی جنگ کے شعلے مزید بھڑکیں گے۔ امریکی وزارت دفاع کا پہلا منصوبہ یہ تھا کہ ایک مکمل جنگ کے بجائے صرف ایک دن میں ایران پر 2300فضائی حملے کئے جائیں اور اس کی جوہری تنصیبات کو ملیا میٹ کر دیا جائے۔ کیسی دلچسپ بات ہے کہ ٹھیک ایک سال پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ اوباما کے جوہری معاہدے کو معطل کر دیا تھا اور ایران کے خلاف شدید نوعیت کی اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں اب وہی ڈونلڈ ٹرمپ ایران پر جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کر رہاہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے یک طرفہ اقدام کی وجہ سے اب ایران بھی معاہدے کی پابندی سے آزاد ہو گیاہے۔امریکہ کے بمبار طیارے صرف قطر سے ہی نہیں۔ خلیجی ممالک‘ سعودی عرب‘ اومان‘ ترکی اور اردن سے بھی پرواز کر کے ایران پر حملے کر سکتے ہیں اس طرح سے اس ہولناک جنگ کا پھیلائو کتنا بڑھ سکتا ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے اعتراف کیا ہے کہ امریکہ کی سخت اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے سخت دبائو میں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ سے فوجی تصادم کا امکان رد نہیں کر سکتے۔ اگرچہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ کا آغاز کر دیا گیا۔1980-88ء تک کی آٹھ سالہ جنگ کے دوران عائد کی جانے والی پابندیاں بھی اتنی سخت نہ تھیں ۔ جتنی اب ہیں۔ اس وقت ہمیں بینکوں ‘ تیل کی فروخت یا درآمدات و برآمدات جیسے مسائل کا سامنا نہیں تھا۔ صرف ہتھیاروں پر پابندی کا سامنا تھا۔ انہوں نے شدید خطرات کے مقابلے کے لئے ملک کے اندر سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت پر بہت زور دیا۔ امریکہ ہمیشہ کی طرح یہ امید لگائے بیٹھا کہ جب امریکی حملوں کی وجہ سے ایران میں ہر طرف تباہی و بربادی ہی ہو گی اس وقت موجودہ اسلامی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند ہو گا اور ایرانی خود اس حکومت کا تختہ الٹ دیں گے۔ جنوبی کیلیفورنیا میں امریکہ کی زیرسرپرستی ایران کی جلا وطن شاہی حکومت قائم ہے۔ جو امریکی اشارہ ملتے ہی ایران پہنچ جائے گی۔ امریکہ نے کیوبا‘ نکارا گوئے‘ عراق اور لیبیا میں یہی ماڈل اختیار کیا تھا۔ امریکہ کو اندازہ نہیں کہ ایران کی اسلامی حکومت کی جڑیں ایرانی معاشرے کے اندر کتنی مضبوط ہیں۔ ایسی تشویشناک صورتحال میں شاہ محمود قریشی کو فلسطین میں بہ جبر لائے جانے والے سہ فریقی امن معاہدہ اور ایران پر مسلط کی جانے والی جنگ کے بارے میں تفصیلات سے پاکستانی پارلیمنٹ کو آگاہ کرنا چاہیے اور اپوزیشن کو مکمل اعتماد میں لینا چاہیے۔ خدانخواستہ امریکہ ایران پر حملہ کر دیتا ہے تو ہم کہاں کھڑے ہوں گے؟ امریکہ اور ایران کے اعتدال پسند عناصر تو ہرگز جنگ نہیں چاہتے اس صورت حال میں ہمارے وزیر خارجہ کو اپنی توجہ داخلی سیاسی محاذ سے ہٹا کر اپنی تمام تر توانائیاں خطے میں جنگ کے منڈلاتے بادلوں سے نجات پر لگا دینی چاہیے۔ ایران نے مشکل کی گھڑی میں ہمیشہ ہمارا ساتھ دیا ہے۔ ہمیں بھی آزمائش کی اس گھڑی میں ایرانی بھائیوں سے یک جہتی کا ثبوت دینا ہو گا۔ ایران پر امریکی حملے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔