پاکستان کی سیاست میں یا وزیر اعظم عمران خان کی سوچ میں یقینا ایک بنیادی اور اہم تبدیلی آ گئی ہے۔ یہ وہ تبدیلی تو نہیں جس کی بنیاد پر خان صاحب نے الیکشن جیتا تھا یا حکومت بنائی تھی مگر اشارے یہی مل رہے ہیں کہ اصل تے سُچی تبدیلی جو خان صاحب کے بنی گالہ کے گھر میں یا ان کی پارٹی کے پرانے اور وفادار لوگوں کی خواہشات میں گم ہو گئی تھی اس کا سراغ اب مل گیا ہے اور خان صاحب نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب اس جادو کی چھڑی کو مضبوطی سے پکڑ کر رکھیں گے اور بوقت ضرورت کسی کو اگر پھینٹی لگانی ہو تو اس ڈنڈے کو استعمال بھی کریں گے۔ جب سے خان صاحب نے یہ محسوس کر لیا کہ ان سیاسی ہتھ کڑیوں میں بند رہ کر وہ نہ کسی چور کو سزا دے سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی پارٹی کے نعرے کسی چور کو نہیں چھوڑونگا پر عمل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اندازہ لگا لیا کہ وہ ہر قسم کے مافیاز کے خلاف کھڑے تو ہو سکتے ہیں مگر یہ نظام اور ان بڑی بڑی لوٹ مار کی مشینوں اور ہر ادارے میں ان کے ماہر اور چالاک مکینک اکٹھے ہیں۔ان کو ہرانا مشکل ہے۔ کئی دن سے خان صاحب یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ اگر ان کے پاس چین یا سعودی عرب جیسے اختیارات ہوتے تو وہ ان چوروں اور ڈاکوئوں کو کب کا ٹھیک کر چکے ہوتے۔ اپنی حکومت کے پہلے دو سال کے دوران ہی ان کو معلوم ہو گیا ہے کہ وہ اور ان کی پارٹی دوسروں کے رحم و کرم پر ہیں نہ وہ کوئی قانون بنا سکتے ہیں اور نہ کسی پرانے قانون پر عمل کرا سکتے ہیں ان کو اب یہ بھی سمجھ میں آ گیا ہے کہ لوگ انہیں استعمال کر رہے ہیں اور کرتے رہے ہیں لہٰذا اب بس بہت ہو گیا۔ یہ سمجھ میں آنے کے بعد خان صاحب کا رویہ، اپنے دوستوں اور پارٹی والوں کے ساتھ تعلقات بھی بدل گئے ہیں۔ خان صاحب اب اپنی اصلی سوچ کی طرف چل پڑے ہیں جب سے انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ چینی اور آٹے کے سکینڈل کی اعلیٰ سطح پر تفتیش کرائی جائے وہ اس بات کے لئے تیار لگتے ہیں کہ اب میں نے یہ نہیں سوچنا کہ سیاست کا کیا ہو گا یا حکومت کا کیا بنے گا اور جب سے کورونا آیا ہے ہر ایک کو یہ خدائی وارننگ بھی مل گئی ہے کہ کوئی بادشاہ ہو یا فقیر‘ وزیر اعظم ہو یا چپڑاسی اگر کورونا نے پکڑنا ہے توکوئی نہیں بچا سکتا ۔ میں نے کئی دفعہ خان صاحب سے پوچھا اور ہمیشہ یہی جواب آیا کہ اب میں نے نہ اپنا دیکھنا ہے نہ پرایا اور جس جس نے میری حکومت میں رہتے ہوئے چوری اور لوٹ مار کی ہے وہ پہلے پکڑے جائیں گے۔ خان صاحب اپنے دوستوں کو اور عوام کو اکثر کہتے رہتے ہیں کہ چھوڑونگا نہیں مگر اب اس اصول پر عمل بھی شروع ہو گیا ہے تو میں نے کوشش کی کہ وجہ معلوم کی جائے کہ کیا بدل گیا ہے۔ خود خان صاحب سے کئی سوالات کئے اور دوسرے اردگرد کے لوگوں سے جب پوچھا تو دو تین باتیں واضح ہو گئیں۔ ایک یہ کہ خان صاحب اور دوسرے مقتدر ادارے اب یہ فیصلہ کر چکے کہ اس سیاسی مگر کاغذی محل کو اگر جھٹکا لگا تو ملک اسی قسم کے سیاسی جوڑ توڑ اور جھوٹ پر مبنی ایک اور ڈھانچہ کھڑا کرنے اور تجربہ کرنے کی نہ صلاحیت رکھتا ہے نہ برداشت‘ یعنی اگر یہ انتخابی نظام گر گیا یا سب چوروں اور لٹیروں نے مل کر اسے گرانے کی کوشش کی تو پھر مستقبل قریب میں کوئی دوسرا ایک اور جمہوری نظام نہیں آئے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کل کی سیاسی قیادتیں اور قوتیں نہ صرف بے عزت اور بے توقیر ہو چکی ہیں بلکہ یہ ثابت کر چکی ہیں کہ وہ جھوٹ اور دھوکہ دہی پر مبنی ذاتی مفاد اور ملک کے وسائل کو اپنی اور اپنے خاندانوں کی سیاست کیلئے استعمال کر رہی ہیں۔ اس لئے پچھلے کئی سالوں سے ان آزمودہ قیادتوں کو برداشت کرتے کرتے اگر ملک اس مقام پر آ کھڑا ہوا ہے کہ اس کی زندگی اور موت کا سوال بن گیا ہے تو دوبارہ وہی پرانے پاپی اور ان کے حواری حکومت میں آ کر کیا نیا گل کھلائیں گے تو یہ پرانے جواری اب کسی کے ساتھ جوا نہیں کھیل سکیں گے۔ دوسری وجہ یہ کہ خان صاحب اور پی ٹی آئی کا تجربہ بھی کر کے دیکھ لیا گیا مگر کیونکہ یہ سیاسی حلیم کی دیگ بہت سارے پرانے اور ناکارہ مسالے ڈال کر پکانی پڑی تو نتیجہ وہ نہیں نکلا جس کی امید تھی۔ تجربہ 50-50ہی رہ گیا یعنی خان صاحب اور ان کی اصلی پارٹی تو بڑے بڑے دعوے کر کے ملک چلانے اور ٹھیک کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر اس کی راہ میں اتنے بھاری پتھر اور بدبودار اور فرسودہ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں کہ ایک نئی اور ناتجربہ کار حکومت کے لئے ان شیطانی قوتوں سے لڑنا ہی سب سے بڑا چیلنج بن گیا اور اس کا اپنا منشور تتر بتر ہو گیا۔ نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے والی پالیسی نے پورے ملک کو ہی یرغمال بنا دیا اور خان صاحب بس طوفانوں سے ہی لڑتے رہے اور بے بس سے ہو گئے۔ پھر یہ بھی ہوا کہ وہ کچھ چاہتے تھے اور ان کے نیچے والے کچھ اور فیصلے کر کے ان پر عمل بھی کرنے لگے۔ ظاہر ہے وزیر اعظم کوئی بھی ہو چاہے جتنا ہی کمزور اگر وہ ایک اعلان عوام کے سامنے کرے اور اس پر عمل الٹا ہو تو پھر ہونا تو یہ چاہیے کہ یا تو وزیر اعظم ان لوگوں کی فوری چھٹی کرے جو اس کے احکام نہ صرف ہوا میں اڑا رہے ہیں یا پھر خود کر سی سے ہٹ جائے۔ خان صاحب اس گومگو کی حالت میں کئی دن سے مبتلا تھے مگر جلدی میں اپنا سارا بنا بنایا کام بھی بگاڑنا نہیں چاہتے تھے۔ اپنے وفادار اور پرانے ساتھیوں سے لمبی میٹنگیں کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ بس Enough is Enoughاور No More Jokes۔فیصلہ جب ہو گیا تو پھر یہ حکمت عملی بنی کہ اب جم کر اور ڈٹ کر حکومت کی جائے‘ کسی کی پرواہ نہ کرو اپنے ہوں یا پرائے۔ لوگوں کے لئے کام کرو۔ اگر کوئی دھمکی دے تو اینٹ کا جواب پتھر سے دو اور اگر گرنا بھی پڑے تو لڑتے ہوئے بہادروں اور جوانوں کی طرح گِرو‘ ہار نہیں ماننی اور ہتھیار نہیں ڈالنے۔ یہ فیصلہ ہو گیا تو ان تمام قوتوں کو اور دوستوں کو بھی بتانا ضروری تھا جنہوں نے خان صاحب کی ہر مرحلے پر مدد کی تھی۔ سنا یہی ہے کہ یہ باتیں بھی تفصیل سے ہو گئیں کئی خبریں بھی منظر عام پر آئیں کہ فلاں فلاں وزیر اعظم سے ملے اور کیا مشورے دیے۔ خان صاحب نے بھی اپنے فیصلے ان کو بتا دیے اور اب صورتحال واضح ہو گئی کہ ملک کی طاقتوں اور اداروں کے سامنے کیا کیا سیاسی‘ جمہوری یا غیر جمہوری راستے موجود ہیں اور اگر فیصلہ ہوا تو اس کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں یا دوسرے فیصلے کے کیا مضمرات۔ اکثر لوگوں کا یہی کہنا ہے کہ ایک اتفاق رائے اس بات پر ہو گیا کہ ہر ادارہ اپنا اپنا کام اپنے دائرے میں کرے گا اور اگر صورتحال کسی تعطل یا ڈیڈ لاک تک پہنچ گئی تو پھر جنرل کاکڑ کا فارمولا ہی سب کے لئے بہتر ہو گا اور اس کے بعد ملک میں ایک صاف ستھری حکومت بنائی جا سکتی ہے جو کم از کم دو تین سال ملک کو مشکلات سے نکالنے کی کوشش کرے گی اور پھر سب کو انتخابات کی طرف واپس لایا جائے گا۔ یہ اتفاق رائے قابل عمل ہو گا یا نہیں یہ کہنا مشکل ہے‘ مگر وزیر اعظم نے سمجھ لیا ہے کہ اب ان کی پانچ سال کی موت شاید پوری نہ ہو سکے کیونکہ جن لوگوں کی مدد سے انہوں نے مرکز اور پنجاب میں حکومت بنائی وہ کھوٹے سکے نکلے اور اب ان پر اعتماد کرنا مشکل ہے ۔سو پی ٹی آئی واپس اپنے جوان اور باہمت جیالوں کی طرف لوٹ رہی ہے اور 6لاکھ کی ٹائیگر فورس اس کام میں بڑی مددگار ثابت ہو گی۔ خان صاحب اب بھل صفائی کی تگڑی مہم شروع کریں گے اور جہاں تک ہو سکا اپنا وعدہ پورا کریں گے کہ چوروں کو نہیں چھوڑنا ہے۔ یہ سوال کہ صاف ستھری حکومت کیسے بنے گی اور کون بنائے گا ایک بڑا سوال ہے مگر ملک میں دیانتدار اور اچھے اور اہل لوگوں کی کوئی کمی نہیں۔ لوگ بھی ایسی حکومت کو مان لیں گے اگر وہ شفاف ہو گی جس کے پاس موٹا ڈنڈا بھی ہو گا اور جس کے پیچھے ادارے بھی کھڑے ہوں گے۔ مشکل حالات میں اپیلیں نہیں ایک تگڑی اور ڈنڈے والی حکومت درکار ہوتی ہے جو کسی سے بلیک میل نہ ہو‘ نہ سیاست سے نہ میڈیا سے یہ سب ایک خواب نہیں ہے۔