یہ ٹرانس جینڈر یا خواجہ سرا وہی حضرت مخنث ہیں جو بقول اکبر ’’نہ ہییوں میں نہ شییوں میں‘‘ ،فرق یہ کہ ہوتے مرد ہیں مگر عورتوں کی سی چال ڈھال اپناتے ہیں ، یا عورت ہیں مگر مردانہ پن اختیار کیے ہوئے۔نتیجہ یہ کہ جنسی تعلق کے لیے اپنی ہی صنف کی طرف راغب ہوتے ہیں۔اس کی وجہ کوئی جسمانی کمی نہیں بلکہ یہ امریکی نفسیات دانوں کے نزدیک جینڈر ڈس فوریایعنی صنفی شناخت کی خرابی پر مبنی رویہ ہے،ایک ایسی نفسیاتی بیماری جس میں متاثرہ شخص خود کواپنی پیدائشی جنس کے الٹ جنس میں محسوس کرتا ہے اور اپنی ہی صنف کے افراد میں جنسی کشش محسوس کرتا ہے۔عموماًتین سے چار سال کی عمر کے بعددماغ میں کوئی ایسی رطوبت خارج ہوتی ہے جو بچے میں یہ الجھن پیدا کردیتی ہے کہ اس کی صنف وہ نہیں جس کے ساتھ وہ ہوا ہے بلکہ دوسری ہے۔ایسے بچے کو کئی طرح سے چیلنج کا سامنا ہوتا ہے۔ وہ اپنے اندر اپنے ہی جسم کے خلاف ایک جنگ لڑرہاہے، اپنے گھر، خاندان، تعلیمی ادارے میں اس کو قبولیت نہیں مل رہی،نہ معاشرے میں،وہ ایسی شدید کشمکش کا شکار ہے جو اسے خودکشی تک لے جاسکتی ہے۔وہ ہمدردی اور علاج کا مستحق ہے۔ڈاکٹر انصر جاویدبتاتے ہیں کہ بارہ سال تک کی عمر میں ایسے مریضوں کاعلاج بہت آسانی سے ہو جاتا ہے، اس کے بعد یہ مسئلہ سنگین ہو سکتا ہے۔ ٹرانس جینڈر میں سر فہرست یہی جینڈر ڈس فوریا کے مریض ہیں جن میں ایک قسم وہ ہیں جو اس بیماری سے لڑتے ہیں،ٹھیک ہونا چاہتے ہیں ،مسلسل اپنے اس غیر فطری نفسیاتی رجحان کا مقابلہ کرتے رہتے ہیں اور نارمل زندگی جینا چاہتے ہیں۔مختلف تھیراپیز موجود ہیں جو ان کی مدد کرتی ہیں اور یہ مرض ٹھیک بھی ہو جاتا ہے۔امریکی ماہرین نفسیات نے اس کی تشخیص اور علاج پر تفصیلی رہنمائی مہیا کررکھی ہے۔اسلام سمیت سب ابراہیمی مذاہب نے جو ہم جنس پرستی کو غیر فطری قرار دے کر شدت سے ممنوع کررکھا ہے،تو یہ ممانعت بھی ایسے مریضوں کو صحت یاب ہونے میں مدد کرتی ہے۔اسلام نے تو اپنی پیدائشی صنف کو’ٹرانس‘کرنے کا تصور ہی یہ کہہ کر منع کردیا ہے کہ وہ مرد جو عورتوں جیسی چال ڈھال اور وہ عورتیں جو مردوں جیسی وضع قطع اختیار کریں اللہ کے ہاں ملعون ہیں ( بخاری)۔ دوسرے وہ ہیں جو اتنی ہمت کرنے کے قائل نہیں یاخود پرکنٹرول نہیں کرسکتے اور اس کشمکش کے آگے ہتھیار ڈال کر خود کو علی الاعلان ظاہر کردیتے ہیں اور صنفی شناخت کی خرابی کو ہی اپنا طرزِ زندگی بنا لیتے ہیں بلکہ اس کو قابلِ فخر ظاہر کرتے ہیں۔بعض کیسز میں یہ اپنی پیدائشی صنف سے اس قدربیزار ہوتے ہیں کہ سرجری کے ذریعے اسے ختم کرنے اور دوسری صنف بننے پر تل جاتے ہیں نتیجہ یہ کہ بے جنس رہ جاتے ہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جن کے بہانے زمانہ قدیم میں بھی اور آج بھی نئے نئے ناموں سے انسانیت گمراہی کے راستے پر چل پڑی ہے۔ اس پر ہم آگے بات کریں گے۔ ان کے علاوہ ہمارے ہاں خود ساختہ ٹرانس جینڈربھی ہیں جو خواجہ سرا ہیں ہی نہیں،نہ جسمانی نہ نفسیاتی ، چنگے بھلے مرد ہیں مگر روزگار کی خاطر زنانہ روپ دھار کر گداگری یا ناچ گانے کا پیشہ اختیار کرتے ہیں۔ان کی وجہ سے خواجہ سراکمیونٹی کا حجم خواہ مخواہ بڑا نظر آنے لگتا ہے۔پھراس قسم میں وہ نارمل لوگ بھی آتے ہیں جنہیں ان کے ماں باپ اپنی کم علمی یا خواہش کی بنا پر بچپن ہی سے دوسری صنف کی طرح پرورش کرتے ہیں۔ بیٹے کو بیٹیوں کی طرح پالنا اور بیٹی کو بیٹوں کی طرح۔ نوجوانی کی دہلیز پر آکرایسا بچہ اپنی جسمانی شناخت کے مطابق زندگی کے تقاضے نبھانے سے انکاری ہوجاتا ہے کیونکہ اس کی conditioningدوسری صنف کے مطابق ہو جاتی ہے۔یوں والدین اپنے اچھے بھلے نارمل بچے کو نفسیاتی مریض بنا ڈالتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہیجڑا پن کوسنگین معاشرتی مسئلہ بھی بنا دیا گیا ہے۔حل یہ ہے کہ ایک توصنف کے پیدائشی نقائص کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کوان کے گھروں میں دیگر پیدائشی نقائص والے بچوں کی طرح قبولیت دی جائے، انہیں اس مظلوم کمیونٹی کے نیٹ ورک کا حصہ نہ بننے دیا جائے جہاں وہ سیکس ورکرکے طور پہ کام کرنے پر مجبور ہوں اور ایک اذیت بھری زندگی گزاریں۔ان کا علاج کرنے والے ادارے اور تنظیمیں قائم کی جائیں،جو ان کی بہبود کے بارے میں معاشرتی آگاہی پھیلائیں۔وہ تعلیم اور روزگار حاصل کریں اور ایک نارمل زندگی جیئیں۔پاکستان میں اس کمیونٹی پر کی گئی تحقیق بتاتی ہے کہ ان کے گرو چیلا کے نظام میں اپنے تابع رکھنے کے لیے ہیجڑوں پر بہت ظلم کیا جاتا ہے۔اگر ان کے علاج اور بحالی کے ادارے فعال ہوں تو انہیں اس مافیا قسم کے نیٹ ورک کا حصہ نہ بننا پڑے۔ اسلام آباد میں ان کے لیے ایک ہیجڑا رانی نے قرآن کی تعلیم اور ہنر سکھانے کے لیے مدرسہ بنایا ہے جو بہت اچھا قدم ہے۔چوکوں ،چوراہوں پر مصنوعی یا اصلی ہیجڑوں کی ٹولیوں کو گداگری سے ہٹا کر کام پر لگایا جائے تاکہ اس طبقے کا مبالغہ آمیز تاثر قائم نہ ہو۔مناسب قانون سازی بہت اہم ہیتاکہ ان کے جنسی استحصال اوران پرظلم وتشدد کا راستہ بندہو۔2011میں سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ نادرا میں ہیجڑوں کی شناخت ’’تیسری جنس‘‘کے طور پر کی جا ئے نیز ووٹ کاحق، شناختی کارڈ ،حکومتی اداروں میں ملازمت کے مواقع دیے جائیں۔ اس کے بعد2018میں اس طبقے کے لیے جو قانون بنایا گیا وہ تحفظ حقوق ٹرانس جینڈرافرادایکٹ کہلاتا ہے۔اس میں اچھے نکات ہیں مگراس قانون پر آگاہی کی بہت ضرورت ہے کیونکہ اس کا ایک اہم بین الاقوامی تناظر ہے۔(جاری ہے)