سوال یہ ہے کیا جنوبی پنجاب کو الگ سے صوبہ بننا چاہیے؟جنوبی پنجاب کی محرومیوں سے آگہی اور جنوبی پنجاب کے دوستوں کے جذبات کے احترام کے باوجود میرے نزدیک اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ہمیں کسی نئے صوبے کی بجائے انتظامی اصلاحات اور مقامی حکومتوں کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔یہ ہمارے اوپر مسلط سیاسی اشرافیہ کے کمالات میں سے ایک کمال ہے کہ اس نے اس علاقے کی محرومیوں کے عنوان سے ایک ایسا بیانیہ رائج کر دیا ہے جو عام آدمی کی فلاح کی بجائے اسی اشرافیہ کی نسلوں کے مفادات کے تحفظ کی واردات ہے۔ تخت لاہور کی اصطلاح ایسے ہی وجود میں نہیں آ گئی۔ یہ خلق خدا کی محرومیوں کا رد عمل ہے۔ میں میانوالی کے ایک استاد کو جانتا ہوں۔اپنا جائز حق لینے کے لیے اسے رات بارہ بجے میانوالی سے نکلنا پڑتا ہے تب صبح وہ لاہور ہائی کورٹ وقت پر پہنچ پاتا ہے۔دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے ،یہ انصاف اسے بالآخر کتنے میں پڑے گا۔ہائی کورٹ کا ایک بنچ سرگودھا ، جوہر آباد یا میانوالی میں نہیں بن سکا۔ انصاف لینا ہے تو لاہور جائو، علاج کروانا ہے تو لاہور جائو، کسی کا تبادلہ کرانا ہے تو لاہور جائو، کسی بیمار کے ٹیسٹ کرانے ہیں تو لاہور جائو۔۔۔۔لاہور کا نام دور دراز کے لوگوں کے لیے اذیت کا عنوان بن گیا ہے۔دیگر علاقوں کے حصے کی خوشیاں چھین کر شریف خاندان کے انوکھے لاڈلوں نے لاہور میں کہکشائیں سجا لیں۔ایسے میں رد عمل کیسے نہ آئے۔ باقی کا صوبہ سوتیلے پن سے سلگ رہا ہے اورتخت لاہور کی پائے کو بوسے دینا اب خلق خدا کے لیے ممکن نہیں رہا۔لیکن کیا محرومیوں کے ازالے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک نیا صوبہ بنا دیا جائے؟ ہر گز نہیں۔یہ مطالبہ جنوبی پنجاب کی جاگیردار اشرافیہ کی شرارت ہے جسے پوری چالاکی سے عام آدمی کا بیانیہ بنا دیا گیا ہے۔کچھ رد عمل میں نئے صوبے کی بات کرتے ہیں اورکچھ پورے خلوص کے ساتھ نئے صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ جذبات کو تھام کر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو معلوم ہو گا تخت لاہور کی اشرافیہ کے رد عمل کے عنوان سے جنوبی پنجاب کی سیاسی اشرافیہ اپنا کھیل کھیل رہی ہے جس کا عوام کی محرومیوں سے کوئی تعلق نہیں۔نیا صوبہ بن گیا تو کیا ہو گا؟ ایک نئی اسمبلی بنے گی جہاں جنوبی پنجاب کے جاگیرداروں کی بچی کھچی اولاد غریب قوم کے ٹیکس کے پیسوں سے داد عیش دے گی۔ ایک نیا گورنر ہائوس بنے گا۔ ایک نئے لاٹ صاحب مسلط ہوں گے۔ ایک وزیر اعلیٰ صاحب جلوہ افروز ہوں گے۔ سپیکر ہو گا، وزیر ہوں گے ،مشیروں کے لشکر اتریں گے ۔قائمہ کمیٹیاں بنیں گی۔ ان معززین سیاست کی رہائشگاہیں تعمیر ہوں گی۔ لاجز بنیں گے۔وزراء کالونی تیار ہو گی۔ تنخواہیں ہوں گی، مراعات کے دریا بہیں گے۔ٹی اے ڈی اے بل تیار ہوں گے۔آنیاں ہوں گی اور جانیاں ہو ں گی۔پھر ہم خاک نشیں بیٹھ کر حساب کر رہے ہوں گے کہ پارلیمان کا ایک دن کا اجلاس تو اس قوم کو چار سو لاکھ میں پڑتا ہے ، نئے صوبے کی ایک سہہ پہر کتنے میں پڑ رہی ہے۔کبھی آپ نے غور کیا یہ سب اچھل کود کس کے خرچ پر ہو گی؟ عوام کے ٹیکس کے پیسوں کو برباد کرنے میں پہلے کوئی کسر رہ گئی ہے کہ سیاسی اشرافیہ کے خاندان کے باقی نونہالان کے لیے بھی مراعات اور موج میلے کے دریا بہا دیے جائیں تا کہ ان جاگیرداروں اور وڈیروں کاکوئی نونہال اسمبلی میں غریبوں کی نمائندگی کے شرف سے محروم ہے تو اسے یہ خدمت بجا لانے کا موقع دے دیا جائے۔کیا عوام کی محرومیوں کا حل یہ ہے کہ اشرافیہ کا ایک نیا ٹڈی دل عوام اور قومی خزانے پر لا بٹھایا جائے؟یہ اشرافیہ کی واردات ہے جس کا عنوان عام آدمی سے منسوب کر دیا گیا ہے تا کہ سند رہے اور جذبات فروشی کے کاروبار میں تیزی آ سکے۔ عوام کے مسائل کا حل انتظامی اصلاحات اور مقامی حکومتوں کے نظام کو بہتر بنانے میں ہے۔انتظامی مسائل کے پیش نظرلاہور کی مرکزیت کی نفی کرتے ہوئے ایسی اصلاحات متعارف کرائی جائیں اور ایسی سہولیات دی جائیں کہ ہر کام کے لیے لاہور آنا ضروری نہ رہے۔ مقامی حکومتیں اتنی با اختیار اور طاقتور ہونی چاہییں کہ وہ اپنے بہت سارے مسائل خود ہی حل کر لیا کریں ۔دیگر اضلاع کو صحت ، تعلیم اور روزگار کی سہولیات چاہییں ، یہ سہولیات دینے کی بجائے اشرافیہ نے چالاکی سے نئے صوبے کی واردات ڈال دی ہے ۔عام آدمی کو سوچنا ہو گا کہ وسائل نئے صوبے کی نئی اسمبلی میں اشرافیہ کے ایک نئے ٹڈی ڈل کے شکم پروری میں برباد کرنے ہیں یا انہیں کسی فلاحی مصرف میں لانا ہے۔ مقامی حکومتوں سے یہ اشرافیہ خوفزدہ کیوں ہے؟کیا نواز شریف ، کیا آصف زرداری اور کیا عمران خان ۔ مقامی حکومتوں کو کسی نے پسند نہیں کیا۔ نوا ز شریف کے دور میں سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات کرانے پڑے اور تجربہ کاروں نے ایسی قانون سازی فرمائی کہ غیر منتخب حکم کا بندہ مسلط کر دینے کی قانونی گنجائش بنا لی۔ چنانچہ اسلام آباد میں کسی سے پوچھ کر دیکھیے آپ کے میئر کا نام کیا ہے۔ایسا شخص میئر ہے جسے کوئی جانتا ہی نہیں۔نامعلوم خدمات کا صلہ تھا جو نواز شریف نے اس شخص کو دیا۔ آج پھر وہی عالم ہے۔عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو بلدیاتی اداروں کو معطل کر دیا۔اب نئے انتخابات نہیں کروائے جا رہے۔اور منتخب بلدیاتی ادارے منتخب وزیر اعظم کے ہاتھوں معطل پڑے ہیں ۔شراکت اقتدار اس سیاسی اشرافیہ کے لیے ڈرائونا خواب ہے۔ یہ سب کچھ اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں۔نہ انہوں نے سیاسی جماعتوں میں کبھی جمہوریت آنے دی نہ یہ بلدیاتی نظام کو طاقتور ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔یہ سب کچھ اپنی مٹھی میں بند رکھ کر آمرانہ انداز سے پارلیمانی جمہوریت کا کھیل رہے ہیں۔اس کھیل میں ان کی مہارت کا عالم یہ ہے کہ عوام میں شعور کے نام پر جو بیانیہ رائج ہو رہا ہے وہ بھی انہی کی واردات ہے۔عوام کو مقامی حکومتیں دینا جنہیں گوارا نہیں، وہ و اپنی بقیہ نسل کے لیے اب نئے صوبے چاہتے ہیں۔رعایا ، درباری اور حواری ان کے ساتھ ہیں۔