آج 28مئی ہے۔ یوم تکبیر ‘28مئی 1998ء کو پاکستان نے بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چاغی کے پہاڑوں میں کامیاب ایٹمی دھماکے کئے تو دنیا میں اہل پاکستان کا سر فخر سے بلند ہو گیا۔ راتوں رات دنیا میں سر جھکا کر چلنے والی قوم سر اٹھا کر چلنے لگی۔ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تب میں سعودی عرب میں مقیم تھا۔ میں نے اپنے طویل قیام کے دوران سعودی قوم کو صرف دو مواقع پر جذباتی خوشی مناتے دیکھا۔ ایک جب سعودی عرب کویت سے فٹ بال میچ جیتتا تو اس کا زبردست جشن منایا جاتا دوسرے جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تو سعودی عرب میں جگہ جگہ سعودی بھائی پاکستانیوں کو روک روک کر مبارکباد پیش کرتے اور اظہار مسرت کرتے۔ ایٹمی دھماکے کے چار پانچ روز بعد سعودی جرمن ہسپتال جدہ میں پاکستانی دھماکوں کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد ہوا جس میں فقیر کو بھی مدعو کیا گیا اور میں شرکت کے لئے بطور خاص طائف سے جدہ آیا۔ سیمینار میں سعودی ایئر لائنز کے ایکٹنگ چیئرمین عبدالسلام نے ساری سعودی قوم کی ترجمانی کرتے ہوئے بڑی پرجوش تقریر کی اور سعودی عرب کے لئے پاکستان کی پرخلوص محبت کے علاوہ پاکستانی قوم کی سائنسی و علمی اور فنی مہارت کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور مسٹر عبدالسلام نے یہ کہہ کر تو میلہ لوٹ لیا کہ میں نے امریکن پائلٹس کو پاکستانی پائلٹس سے تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ہماری گزارشات کو بھی سعودی ۔ پاکستانی مجمع نے بہ پسند کیا اور دل کھول کر داد دی۔ 28مئی 1998ء کو جمعرات کا دن تھا اور 29مئی کو جمعتہ المبارک۔ اس روز مسجد اقصیٰ فلسطین کے خطیب نے نہایت ہی ولولہ انگیز خطبہ دیا اور انہوں نے نہایت پرجوش لہجے میں پاکستانی ایٹمی دھماکے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف پاکستان کی نہیں عالم اسلام کی قوت ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف کو مبارکباد پیش کی۔ 1974ء میں بھارت نے چپکے چپکے ’’سمائلنگ بدھا‘‘ کے نام سے ایٹمی دھماکہ کیا تو اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یہ تاریخی بیان دیا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ بھٹو صاحب کے وژن کی جتنی داد دیں کم ہے ۔ذوالفقار علی بھٹو نے کس طرح پاکستان کا نیو کلیر پروگرام مکمل اختیارات کے ساتھ ڈاکٹر خان کے سپرد کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد جنرل ضیاء الحق‘ غلام اسحق خان اور میاں نواز شریف سب نے اس فریضے کی تکمیل میں اپنا اپنا بھر پور حصہ ڈالا۔ یہ’’کہانی ڈاکٹر عبدالقید خان کی زبانی‘‘ میں کم از کم تین چار مرتبہ براہ راست سن چکا ہوں۔ یہ عظیم داستان اب پاکستان کے بچے بچے کو ازبر ہے۔ تاریخ کے اس اہم موڑ پر ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی قوت بننے کا اہم ترین اور مشکل ترین فیصلہ کر لیا کیونکہ امریکہ جیسی قوت نے بھٹو کو اس خیال سے باز رہنے کی دھمکی دی تھی۔ تاہم اس موقع پر بھٹو سے ایک بہت بڑی بھول بھی ہو گئی اور وہ بھول تھی پرائیویٹ صنعتوں‘ پرائیویٹ بنکوں‘ گھی اور کاٹن یونٹوں اور تعلیمی اداروں وغیرہ کو نیشنلائز کرنے کا فیصلہ تھا۔ اس فیصلے سے صنعتی و تجارتی ترقی کا پہیہ جس تیز رفتاری سے چل رہا تھا وہ وہیں رک گیا بلکہ جام ہو گیا۔ کاش بھٹو صاحب انفرادی دانش کی بجائے پارلیمنٹ کے ذریعے اجتماعی دانش سے کام لیتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ ایٹمی قوت کے ساتھ ساتھ معاشی قوت بننا بھی بہت ضروری ہے۔ ایٹمی قوت کے قائدین کے ہاتھوں میں کشکول گدائی ہو۔ بیرونی فوری مدد کے بغیر اس قوت کو جان کے لالے پڑے ہوں۔تو وہ آزادانہ فیصلے کیسے کر سکتی ہے۔ آج بھی پاکستان اس طرح کے مالی و سیاسی حالات سے دوچار ہے۔ ان حالات سے نبرد آزما ہونے کے لئے جس حکمت‘ تدبر‘ معاملہ فہمی اور قومی یکجہتی کی ضرورت ہے وہ دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ اس وقت پاکستان بدترین قسم کی معاشی مشکلات سے دوچار ہے۔ ہم سعودی عرب سے قرضہ اور ادھار تیل لے رہے ہیں۔ اس طرح ہم چین سے بھی قرضہ لے چکے ہیں اور آئی ایم ایف سے شدید ترین شرائط پر 6بلین ڈالر کا قرضہ لینے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ جہاں تک علاقائی اورعالمی منظر نامے کا تعلق ہے تو وہاں بھی ہمیں بڑی نازک صورت حال درپیش ہیں۔ اس وقت امریکہ۔ ایران کشیدگی اپنے عروج پرہے۔ امریکہ لائو لشکر اورتوپ و تفنگ کے ساتھ خلیج میں اتر چکاہے اور ایران کو مسلسل دھمکیاں دے رہا ہے۔ ہمارا عزیز ترین دوست سعودی عرب بھی امریکہ کے ساتھ ہے۔ متحدہ عرب امارات بھی امریکی اشارہ ابرو کی منتظر رہتی ہے۔ ابھی دو روز قبل ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف پاکستان کے دورے سے واپس گئے ہیں۔ اگر امریکہ ایران جنگ چھڑ جاتی ہے تو پاکستان نے کہا ہے کہ وہ نیو ٹرل رہے گا۔ کیا موجودہ حالات میں پاکستان اپنے عزیز ترین عرب دوستوں کی خواہشات کے برعکس نیوٹرل رہ پائے گا؟ یہ نہایت اہم سوال ہے مشرقی سرحد پر بھارت سے اور مغربی سرحد پر افغانستان کے ساتھ کشیدہ صورتحال کا سامنا کرنے والا ملک کیا خطے کے تیسرے برادر اسلامی ملک ایران کے ساتھ غیر دوستانہ تعلقات کا متحمل ہو سکتا ہے؟ اس سے قبل 1980ء کی دہائی میں آٹھ سالہ ایران ‘ عراق جنگ کے دوران ہمارے سعودی دوست پاکستان سے عراق کی برملا اور عملی حمایت چاہتے تھے مگر اس وقت کے حکمران جنرل ضیاء الحق نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور پاکستان نیو ٹرل رہا۔ اس پر سعودی عرب بہت کبیدہ خاطر ہوا مگر بالآخر ہمارے سعودی دوستوں نے ہمارا نقطہ نظر سمجھا اور کشیدگی کے خاتمے کے لئے انہوں نے انہی دنوں جنرل ضیاء الحق کو سرکاری دورے پر ریاض آنے کی دعوت دی اور سارے شاہی خاندان نے جنرل صاحب کا پرجوش استقبال کیا۔ اسی طرح 2015ء میں یمن کے معاملے پر پاکستان نے نیو ٹرل رہنے کا فیصلہ قومی اسمبلی میں کیا اور وہ اس فیصلے پر اپنے سعودی بھائیوں کی ناراضی کے باوجود قائم رہا۔کیا سعودی عرب کے ساتھ نئے پرجوش مالی و تجارتی تعلقات کے تناظر میں پاکستان خطے میں اپنی نیوٹرل حیثیت قائم رکھ پائے گا؟ اس وقت علاقے میں دوسرا بڑا۔ چیلنج بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پہلے سے بڑھ کر بڑی کامیابی کے ساتھ واپسی ہے۔ نریندر مودی نے ہندو قوم پرستی کی بنیاد پر ہی انتخاب جیتا ہے۔ نریندر مودی قوت کے بے تحاشا استعمال پر یقین رکھتا ہے اور وہ کشمیر جیسے معاملات کو مذاکرات کے ذریعے حل نہیںکرنا چاہتا۔ اگر ہماری سوچی سمجھی پالیسی یہ ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ کشیدگی چاہتے ہیں نہ جنگ تو پھر ہمیں بھارت کے ساتھ تعلقات کو داخلی سیاست سے ماورا رکھنا چاہیے۔ اس پالیسی کی روشنی میں خود چل کر نواز شریف کے گھر آنے والے مودی کا سب کو سواگت کرنا چاہیے تھا۔ مگر اس کے برعکس یہ نعرے لگوائے گئے کہ مودی کا جو یار ہے غدار ہے۔ غدار ہے۔ معیشت اور پیچیدہ علاقائی صورت حال کا ایک ہی حل ہے اور وہ مضبوط پارلیمنٹ اور قومی یکجہتی ہے۔ عمران خان جتنی جلدی اس حقیقت کا ادراک کر لیں گے وہ ان کے لئے اور پاکستان کے لئے اتنا ہی بہتر ہو گا۔ہمارا صرف ایٹمی قوت ہونا ہی کافی نہیں۔ دنیا میں باعزت مقام اور اپنی خود مختاری کی حفاظت کے لئے ہمیں معاشی قوت بھی بننا ہو گا۔