ان دنوں سیاست سرد بازاری کا شکار ہے۔ مولانا فضل الرحمن سیاست میں گرم بازاری لانے کے لیے بہت سرگرم ہیں۔ مگر ابھی تک انہیں اپنی سرگرمیوں میں کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ وہ سیاست کے دو اہم ستونوں یا دو پرانے حلیفوں یا پرانے حریفوں اور پرانے کھلاڑیوں کے درمیان شٹل ڈپلومیسی بڑی ہمت سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا مشن اتنا پرکشش ہے کہ جو انہیں اس سے دستبردار ہونے دیتا ہے اور نہ ہی کسی درجے میں مایوس ہونے دیتا ہے۔ مولانا کا شعری فلسفہ بقول ڈاکٹر خورشید رضوی یہ لگتا ہے کہ: کچھ اس ادا سے کوئی دمبدم لبھائے کہ ہارنے بھی نہ دے اور آزمائے مجھے مولانا نے غالباً مستقبل کی سیاسی تیاری کے لیے ابھی سے مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان کے طرز سیاست کی ریہرسل شروع کر رکھی ہے جبکہ میاں نواز شریف نوابزادہ نصراللہ خان کے اپنے ہی مصرعے کی عملی تفسیر بنے ہوئے ہیں کہ ؎ خامشی کو بھی اک طرز نوا کہتے ہیں غالباً میاں نواز شریف صاحب کو اندازہ ہو گا کہ ان کے مداح بڑی شدت سے ان کی باتیں سننے کے لیے بے چین ہیں۔ دراصل میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی مریم نواز ماضی قریب میں اتنے بلند آہنگ اور پرجوش خطابات کرتے رہے ہیں اور اب یکدم ان کی مکمل خاموشی پر لوگ حیران ہیں اور کان لگا کر سنیں تو لوگ غالب دہلوی کے الفاظ میں یہی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ؎ کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں آج غالب غزل سرا نہ ہوا سیاست کی سرد بازاری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے بھی آج سیاست کی چھٹی کی ہے اور غیر سیاسی کالم لکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں ایک طویل مدت کے بعد ہفتہ رفتہ کو تین روز کے لیے اپنے شہر میں سرگودھا مقیم رہا۔ یاد ماضی بڑی خوب صورت چیز ہے۔ میں اپنے خوابوں کے مثالی شہر کو ڈھونڈتا رہا مگر مجھے وہ شہر مجھے کہیں نہ ملا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ نہ صرف سرگودھا بدل گیا ہے بلکہ سرگودھا کے لوگ بھی بدل گئے ہیں۔ کہنے کو سرگودھا اب پاکستان کا بارہواں بڑا شہر ہے۔ کینو‘ مالٹے کے بہترین پھل کی بناء پر سرگودھا بجا طور پر پاکستان کا کیلیفورنیا کہلاتا ہے‘ سرگودھا شاہینوں کا شہر ہے اور یونیورسٹی آف سرگودھا نے گزشتہ دس بارہ برسوں میں اس شہر کی ترقی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ کسی زمانے میں سرگودھا اپنی صفائی ستھرائی‘ میں اپنی جدید رہائشی سہولتوں اور اچھے تعلیمی اداروں کی بنا پر ایک انتہائی پرسکون اور پرآسائش شہر تھا۔ اس وقت اس کی آبادی چار پانچ لاکھ ہو گی۔ آج سرگودھا کی آبادی بڑھ کر تقریباً تیرہ چودہ لاکھ ہو چکی ہے۔ بازاروں میں اکا دکا گاڑیاں ہوتی تھیں اور معزز سے معزز شخص بائیسکل کو ایک معزز سواری سمجھتا تھا اور یہی آمدو رفت کا ذریعہ تھا۔ کالجوں کے پروفیسر‘ عدالتوں کے جج اور وکلائ‘ بنکوں کے منیجر اور میجر تک کے فوجی افسران سب سائیکل ہی استعمال کرتے تھے اور لوگوں کی بہترین صحت ہوا کرتی تھی۔ اب سرگودھا کے سات آٹھ بازاروں میں گاڑیوں کی اتنی بہتات ہے کہ پیدل چلنے والے ایک باریک سی لکیر سے بمشکل گزر پاتے ہیں۔ اکثر بازاروں میں دکانداروں نے اپنے ملک کے ہر ادارے کی طرح اپنی حدود سے تجاوز کر رکھا ہے اور دو طرفہ طور پر بازار کا آدھے سے زیادہ حصہ اپنے زیر تصرف کر لیا ہے۔ ہر دکان ہر کھوکھا بقول غالب: سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا پنجاب کے اکثر شہروں میں یہی کچھ ہوا۔ سرگودھا کہ جس کی کل عمر سو سوا سو سال ہے اور جس شہر کا آغاز ہی ایک منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا اور پہلے سارے شہر کو تقریباً تیس بلاکوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ہر بلاک کا اپنا ایک چوک ہوتا تھا۔ جب لاکھوں میں آبادی بڑھی تو شہر سے قدرے باہر نیو سول لائنز اور ہری پورہ تعمیر کیا گیا جہاں وسیع تر گھر اور کوٹھیاں وجود میں آ گئیں پھر ایک دور آیا کہ بازاروں میںکھوے سے کھوا چھلنے لگا اور پہلے بازاروں کے گرد بلاکوں کا رہائشی علاقہ کمرشل ہونا شروع ہوا پھر نیو سول لائنز کا نسبتاً وسیع کوٹھیوں کے علاقے کو بھی بڑی ’’وسیع القلبی‘‘ کے ساتھ تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ یوں بلاکوں کے بعد یہ علاقہ بھی قابل رہائش نہ رہا۔ اس کے بعد مزید اچھی پلاننگ اور بہتر سیوریج سسٹم کے ساتھ سیٹلائٹ ٹائون کا علاقہ وجود میں آ گیا۔ اس علاقے کی وسیع کوٹھیاں‘ کشادہ سڑکیں‘ کھیل کے گرائونڈ ‘ کئی واٹر ٹینکیاں اور ٹیوب ویلوں کے ذریعے بہت گہرائی سے صحت بخش پانی کی فراہمی جیسی آسائشیں بہت غنیمت لگتی تھیں۔ میرا لڑکپن اور جوانی اسی علاقے میں گزری۔ مگر اب یہ دیکھ کر دل دھک سے رہ گیا کہ یہ رہائشی علاقہ بھی مکمل طور پر کمرشل ہو چکا ہے اور کوٹھیاں تجارتی پلازوں میں بدل چکی ہیں۔ اس دوران گزشتہ پچیس تیس برس سے شہر میں نئے پاک وجود میں نہیں آئے بچوں اور نوجوانوں کے لیے کھیل کے میدان کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ اب تو یہ لگتا ہے کہ سارا ہی کمرشل ہو چکا ہے۔ رہائش کے لیے نیا شہر نئی سہولتوں کے ساتھ آباد کرنے کی ضرورت ہے۔ شہر کی ترقی ان معنوں میں ضرور ہوئی ہے کہ یہاں اب ملبوسات اور دیگر اشیائے استعمال کے جدید ترین برانڈز تقریباً سارے کے سارے آ چکے ہیں۔ اسی طرح اشیائے خورو نوش کے عالمی برانڈز بھی سرگودھا میں وارد ہو چکے۔ کسی زمانے کے مثالی شہر میں آپ کہیں چلے جائیں سب سے پہلے جو چیز آپ کا استقبال کرے گی وہ گندگی ہے۔ بلکہ گندگی کے ڈھیر ہیں۔ کنٹونمنٹ کا علاقہ قدرے صاف باقی شہر کا اللہ ہی حافظ ہے۔ سرگودھا کو تو میں نے معاملے کی شدت سمجھانے کے لیے ایک مثال کے طور پر استعمال کیا ہے وگرنہ ہر شہر کا یہی حشر ہے۔ شہروں کی آسائشات اور صفائی ستھرائی کے لیے سب سے اہم چیز ٹائون پلاننگ ہے۔ شاید سرکاری کاغذوں میں اس شعبے کا کہیں وجود ہو گا وگرنہ عملاً کہیں نظر نہیں آتا۔ ایک اور بات جو میرے مشاہدے میں آئی وہ شہر سے باہر شادی گھروں کا قیام ہے کوئی پچیس تیس برس قبل میں نے دوستوں کو سعودی عرب کے ’’قصر الافراح‘‘کی طرح کے وسیع و عریض شادی گھر رواج تعمیر کرنے کی ضرورت پر زور دیا تو اکثر لوگوں نے کہا کہ یہاں سڑکیں بند کر کے تمبو قناعتیں لگتی ہیں۔ شہر سے باہر شادی گھروں میں کون آئے گا اب شہر تو شہر کوئی چھوٹا موٹا قصبہ بھی نہیں جہاں شادی گھر نہ تعمیر کر دیے گئے ہوں مگر یہاں بھی ٹائون پلاننگ کا کوئی کردار نہیں لگتا۔ جس تیزی سے زرعی زمینوں پر وسیع و عریض شادی گھر اور نئی نئی ہائوسنگ سکیمیں بلا روک ٹوک تعمیر ہو رہی ہیں انہیں دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ شاید زراعت کے لیے کوئی زمین ہی نہیں بچے گی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ میں خوراک میں خود کفالت کے لیے زرعی زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیاں اور تجارتی عمارتیں تعمیر کرنے پر بڑی شدید نوعیت کی پابندی لگا دی گئی تھی اور رہائشی مکان زمین پر پھیلانے کی بجائے آسمان کی طرف اٹھانے کا تعمیراتی کلچر رائج کیا گیا۔ آج بھی کسی زرعی انڈسٹری کے لیے بھی دیہاتی علاقے میں اجازت نامہ حاصل کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ انگلستان تو انگلستان پڑوسی ملک بھارت میں بھی زرعی زمینوں کے کمرشل استعمال پر بڑی سخت پابندی ہے۔ زرعی زمینوں کے کمرشل استعمال کے لیے اجازت کا ملنا؎ لانا ہے جوئے شیر کا مگر وطن عزیز جہاں ہر شے کی آزادی ہے اسی میں رہائشی علاقوں اور زرعی زمینوں کا کمرشل استعمال بھی شامل ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی ایک بڑی نمایاں خوبی یہ ہے کہ ان کی نظر ہر چھوٹے بڑے کام پر ہوتی ہے۔اور وہ بظاہر ’’چھوٹے‘‘ کام کو بھی بڑا ہی سمجھتا ہے۔ عمران خان نے گرین اور کلین پاکستان کا جو تصور دیا ہے وہ ان کے دیگر خوابوں کی طرح بہت خوش نما ہے۔ ہمارے اکثر شہر خاص طور پر اندرون شہر گندگی کا ڈھیر ہیں اور تو اور وہ دلکش وادیاں کہ جنہیں ہم پربتوں کی شہزادیاں کہتے ہیں اور سرسبز و شاداب پہاڑوں کے سلسلے بھی انسانوں کی دست برد سے محفوظ نہیں۔ عمران خان اب لوگوں کی ڈانٹ ڈپٹ بند کریں۔ احتساب جن کا کام ہے انہیں کرنے دیں اور اپنے وقت کو ان کی خوابوں کی عملی تعبیر کے کام کی نگرانی کے لیے مختص کر لیں۔ ہر کام براہ راست اپنے ذمے نہ لیں بلکہ ایسا سسٹم وجود میں لائیں کہ جہاں نظام خود چلتا رہے۔ البتہ جہاں سسٹم میں رکاوٹ آئے یا مطلوبہ کارکردگی سامنے نہ آئے وہاں مداخلت کریں۔ ہم ٹورازم بڑھانے کی باتیں کرتے ہیں مگر جس ملک کے چھوٹے بڑے شہروں اور سیاحتی مقامات پر صاف ستھرے پبلک ٹائلٹ تک نہ ہوں وہاں سیاح کہاں سے آئیں گے۔ عمران خان چھوٹے شہروں کی خوب صورتی انہیں لوٹائیں‘ نئے شہر بسائیں اور گرین و کلین پاکستان کے منصوبے پر عمل درآمد کرائیں تو یہ ان کے سیاسی اعمال نامے میں سب سے بڑی نیکی کے طور پر لکھی جائے گی۔