پچھلے تین دن سے ایک اخبار میرے سرہانے پڑا ہے، میں اس میں ایک بزرگ کی چھنے والی تصویر کو بار بار دیکھنے کے باوجود دیکھ نہیں پارہا،تصویر کے ساتھ خبر بھی ہے، اس خبر کی سرخیاں کئی بار پڑھ چکا ہوں مگر خبر کی تفصیل پڑھنے کا حوصلہ نہیں پا رہا، یہ ایک اسی سال سے زیادہ عمر کے بوڑھے کی تصویر ہے جو سندھ ہائی کورٹ کی ایک عدالت کے باہر وہیل چئیر پر بیٹھا ہے، اس کی آنکھوں میں آنسو اور چہرے پر درد ہی درد ہے ، اس تصویر نے مجھے تین دنوں میں کئی بار رلایا ہے،میں اس تصویر کو سرہانے کے نیچے چھپا دیتا ہوں تو وہ پھر نھی میری آنکھوں میں سمٹ آتی ہے،یہ تصویر مجھے سونے بھی نہیں دیتی، آج سوچا کہ مقدمہ آپ کے سامنے پیش کر دوں، آپ ہی بتائیے کہ میرے اس رنج کا علاج کیا ہے جو اس بزرگ کے چہرے سے میرے دل میں اتر آیا ہے۔ یہ بوڑھا شخص جس کا نام عبدلمجید سومرو ہے، ایک نجی بنک کا آفیسر ہواکرتا تھا ،انیس سو چھیانوے میں اس بنک میں ایک بڑا فراڈ پکڑا گیا، جسے یلو کیب سکیم کا نام دیا گیا تھا، بنک کے جن افسروں کو فراڈ کے الزام میں پکڑا گیا ان میں وہ بھی شامل تھا، دوسرے افسر تو کسی نہ کسی طور بچ گئے مگر اسے مجرم گردانتے ہوئے سات سال قید کی سزا سنادی گئی، اس نے یہ سزا کاٹی، جیل سے رہائی کے بعد آزادی اس کیلئے اس سے بھی بڑی جیل بن گئی، یہ سزا یافتہ آدمی اپنے خاندان ، اپنے حلقہ احباب ، حتی کہ اپنی ہی فیملی کے سامنے خود کو مجرم کی شکل میں دیکھنے لگا، جب اس کا یہ احساس شدید ہو گیا تو اس نے عدالت ہی کے ذریعے خود کو بے گناہ ثابت کرنے کا فیصلہ کرلیا، اس نے سن دو ہزار نو میں اپنی سزا کے خلاف اپیل دائر کردی اب نو سال بعد اس کی اپیل کا فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے اسے بے گناہ قرار دیدیا ہے، پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے، جس جس کے سامنے وہ اپنی بے گناہی ثابت کرنا چاہتا تھا، اب وہ رشتے ٹوٹ پھوٹ کر نہ جانے کہاں کہاں تک بکھر چکے ہونگے، پتہ نہیں اب اس فیصلے پر اسے مبارک دینے کیلئے بھی کوئی بچا ہوگا یا نہیں، بائیس سال سے اس کے دل میں جو غبار جمع ہوتا رہا وہ شاید نکل کر اس کے چہرے پر آگیا، شاید اسی لئے وہ عدالت کے باہر وہیل چیئر پر بیٹھا بہت دیر تک روتا رہا ، سوچتا ہوں اس بزرگ نے اپنی بیٹیوں، بیٹوں، نواسے نواسیوں، پوتے پوتیوں کے سامنے کتنی اذیت سے زندگی گزاری ہو گی ؟، کس کس نے اسے اکیلا چھوڑ دیا ہوگا، اس کی بریت اور بے گناہی کا اعلان اسے اس کے بائیس سال کیسے واپس لوٹا سکتاہے ؟ میں ایک سوال کرتا ہوں اس ملک کے حاکموں سے، عدلیہ کے بابا رحمتے سے،اس ملک کی اشرافیہ سے، میڈیا سے اور سول سوسائٹی سے۔ کیا اس نحیف،لاچار، بیمار اور معذور آدمی سے ریاست کو معافی نہیں مانگنی چاہئے؟ ٭٭٭٭٭ اب ایک قصہ شاہی قلعہ میں اسیری کا شاہی قلعہ میں قید کے دوران انٹیلی جنس بیورو کے انوسٹی گیٹر ملک مظفر نے سیاسی قیدیوں کو بہت اذیتیں دیں، وہ مجھ پر کچھ زیادہ ہی ،،مہربان ،،تھا، اسے نجانے کیا بیر تھا مجھ سے، لگتا تھا جیسے اس کی قلعے میںڈیوٹی ہی مجھے ٹارچر کرنے کے لئے لگائی گئی ہے، وہ صبح نو بجے سے بھی پہلے اپنے ستم کدے میں پہنچ جاتا، اس کا کمرہ قلعے کی جیل میں اوپر والی منزل پر تھا، سیڑھیاں اوپر نیچے بھاری پتھر رکھ کر تراشی گئی تھیں، اس اذیت کدے کا سارا نقشہ مغلوں اور انگریزوں کے دور کا تھا، قلعے کے اس حصے کو جہاں میرے ساتھ بہت سارے دوسرے ’’باغی‘‘ بھی قید تھے ،عقوبت گاہ کے طور پراستعمال کیاجاتا تھا۔ ملک مظفر کی آمد کے چند منٹ بعد ہی گھنگھروؤں کی طرح ہتھکڑی کی چھن چھن گونجتی، سب قیدیوں کے دل دہل جاتے، سوچتے ، پتہ نہیں کس کو لیجایا جائے گا،کس کی باری ہے تشدد سہنے کی، اکثرپہلی باری میری ہوتی، ملک مظفر میرے بارے میں روزانہ کوئی نہ کوئی نیا انکشاف ساتھ لے کر آتا، جو عموماً درست ہوتا، اپنی معلومات کی تصدیق کے بعد اس کا سوال ہوتا کہ تم نے فلاں فلاں بات مجھے پہلے کیوں نہ بتائی؟ میں سوچتا ، اسے میرے بارے میں یہ معلومات نہ جانے کون دیتا ہے؟ کچھ سمجھ نہ آتا، یہ عقد تو کھلا، شاہی قلعہ سے رہائی کے کئی ہفتوں بعد، عوامی لیگ فیم ملک حامد سرفراز سے ملاقات کے دوران،، 1982 میں ریگل چوک میں مسجد شہدا کے سامنے فٹ پاتھ پر ایک ریسٹورنٹ کھلا تھا جو ابتک آباد ہے،بائیں بازو کے دانشور رات گئے یہاں بیٹھنا شروع ہو گئے تھے ، گاہکوں کے لئے کرسیاں میزیں دوسری بند دکانوں کے باہر یا سڑک کنارے رکھی ہوتی تھیں، میں شاہی قلعہ سے نجات کے بعدایک رات اسی جگہ بیٹھا ملک صاحب کو ان کی فرمائش پر اپنی اسیری کی داستان سنا رہا تھا،ملک حامد سرفراز نے لقمہ دیا, مجھے اپنے دوست ملک مظفر سے تمہاری خیر خیریت کا پتہ چلتا رہتا تھا،، ملک مظفر؟؟ آپ کا کیا تعلق اس سے؟؟ ملک صاحب نے کہا، آئی بی میں ہونے کے باوجود نظریاتی ساتھی ہے، اسی جگہ جہاں ہم بیٹھے ہیں وہ بھی عموماً تھوڑی دیر کے لئے آجاتا ہے، گپ شپ ہوجاتی ہے , مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ ہمارے لیفٹ کے سینئرسیاستدان کتنے بے وقوف ہیں، ملک حامد سرفراز ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر ہونے والی اس میٹنگ میں موجود تھے، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی، بعد میں اختلافات کے باعث وہ شیخ مجیب الرحمان سے جا ملے تھے، ملک حامد سرفراز مغربی پاکستان میں عوامی لیگ کے واحد امید وار تھے، 1970کے انتخابات میں ان کی ضمانت ضبط ہوئی تھی شاہی قلعہ میں ایک اور صبح مجھے انٹیرو گیشن کے لئے لیجایا گیا،جہاں گھٹنے نیچے کراکے حسب معمول کھڑا کیا جانا تھا، اس کھلے مقام کے عقب میں چند گز کے فاصلے پرموٹی موٹی سلاخوں والا ایک ہولناک سیل تھا، اس دن اس سیل کی سلاخوں کے پیچھے ایک جوان اور خوبصورت لڑکی کھڑی تھی، میں نے ملک مظفر کا سامنا کرنے سے پہلے ڈرتے ڈرتے اس لڑکی کو غور سے دیکھا، وہ کسی کالج یا یونیورسٹی کی طالبہ لگتی تھی، چہرہ اور لباس بتا رہا تھا اس کا تعلق کسی پڑھے لکھے امیر گھرانے سے لگ رہا تھا، ملک مظفر نے اس روز بھی حکم دیا کہ چار اینٹیں زمین سے اٹھاؤ اور دونوں ہاتھوں پر دو دو رکھ کر گھٹنے فولڈ کرکے کھڑے ہو جاؤ۔۔ اس دن میں ملک مظفر کا کوئی سوال نہیں سن رہا تھا، میرے دل و دماغ پر اپنے عقب میں سلاخوں کے پیچھے کھڑی وہ لڑکی سوار تھی، مسلسل سوچ رہا تھا،،یہ کون ہو سکتی ہے؟ اسے کیوں لایا گیا ہوگا یہاں؟ کیا اس پر بھی تشدد کیا جائے گا؟ میں نے فیصلہ کیا کہ آج چاہے مر ہی جاؤں، ملک مظفر سے نہ تو اینٹیں اتروانے کی درخواست کروں گا اور نہ تھک ہار کے نیچے گروں گا، اگر اس لڑکی نے مجھے گرتے ہوئے دیکھ لیا تو اس کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا، وہ کسی انٹیروگیشن کا سامنا نہ کر پائے گی، میں نے اس دن کی اذیت خوب برداشت کی۔ شام تک انٹیرو گیشن ختم ہوئی تو پھر سیل میں بند کیا گیا، رات کو جب سارے ایجنسیوں کے لوگ واپس جا چکے تھے اور صرف پولیس کے پہرے رہ گئے تو پہلی بار بہت زور سے چیخا،،،، اوپر سیل میں ایک لڑکی کو بند دیکھا ہے، وہ کون ہو سکتی ہے؟ مجھے فوراً جواب مل گیا، آواز تھی شاید جاوید اختر کی۔، وہ ناصرہ شوکت ہیں، رانا شوکت محمود صاحب کی بیگم۔۔۔۔۔۔ وہ زمانہ بھی گزر ہی گیا، میری دونوں میاں بیوی سے بعد میں کئی ملاقاتیں ہوئیں لیکن وہ بھی جمہوریت اور جمہور کیلئے اپنی قربانیوں کا کبھی ذکر نہیں کرتے۔