حکومت نے اپنا مہنگائی ڈاکٹرائن تبدیل کر لیا ہے۔ دونوں کی قیمتوں میں دوسرے (غیر سرکاری طور پر تیسرے) اضافے کی وجہ بیان کرتے ہوئے قوم کو بتایا گیا ہے کہ اس سے دوائوں کی سپلائی بہتر ہو جائے گی اور یہ عوام کی پہنچ میں آ جائیں گی۔ امید ہے آئندہ آٹا‘نمک،مرچ ہر شے کی مہنگائی اسی ڈاکٹرائن کے تحت ہو گی۔ عوام کو ریلیف دینے کا وعدہ باندازایں پورا ہو گیا۔ ٭٭٭٭٭ خاں صاحب کی حکومت نے آتے ہی دوائوں کے نرخ پانچ سو فیصد یعنی پانچ گنا بڑھا دیے۔ بیچ میں غیر اعلانیہ اضافہ مبلغ ایک عدد ہوا اور اب یہ تیسرا اضافہ 266فیصد کا ہے۔ یوں غیر اعلانیہ کو نکال دیا جائے، تب بھی مجموعی اضافہ کچھ اس حساب سے ہوا ہے کہ جو دواپہلے دور میں ایک سو روپے کی ملتی تھی اب ہزار روپے کی ملے گی اور جب یہ دوا سو روپے کی تھی تب بھی خیرات میں نہیں ملتی تھی۔ کمپنی منافع کماتی تھی۔ یعنی اضافی منافع فی سو روپے نو سو روپے ہوا۔ یہ نو سو کیا کمپنیاں سارے کے سارے خود ہی لے جائیں گی؟اجی ایسا کہاں ہوتا ہے صاحب‘ کوئی ففٹی ففٹی فارمولا ہو گا صاحب‘اجی مان بھی جائیے صاحب! ٭٭٭٭٭ چلیے ففٹی ففٹی نہ سہی‘ کچھ ادھر‘ کچھ ادھر کا حساب تو ضرور ہو گا۔ یعنی کچھ کسی کی جیب میں‘ کچھ کمپنیوں کے اکائونٹ میں۔اسے کہتے ہیں ایمانداری کا دور دورہ۔دور ایمانداروں کا‘ دورہ کمپنیوں کا۔ یوں دور اور دورہ اکٹھے ہو کر دور دورہ ہو گیا۔ ٭٭٭٭٭ آٹے کی مد میں کہیں زیادہ کا دور دورہ ہوا، اور وہ سب کا سب ایماندار کی جیب میں گیا‘ بلا شرکت غیرے۔پٹرول کے باب میں بھی اسی ڈاکٹرائن پر عمل کیا گیا تھا۔ یعنی سپلائی یقینی بنانے کے لئے اگرچہ تب ڈاکٹرائن اس طرح باضابطہ جاری نہیں ہوئی تھی۔سو ارب سے زیادہ کا دور دورہ ہوا تھا۔پہلے سپلائی روکی گئی۔ لوگوں سے کہا گیا۔ ذخیرہ جمع کر لو۔ جلد ہی خوشخبری سنائیں گے اور سپلائی رک گئی۔ لوگ ڈبے لے کر تیل ڈھونڈتے رہے لیکن تیل کہاں ملتا۔ وہ تو کہیں روپوش تھا۔بہرحال تاریخی دور دورہ کیا گیا۔ ٭٭٭٭٭ جب آٹا مہنگا ہوا‘تو غریب کی پہنچ سے دور ہو گیا ، یعنی پہلے گندم برآمد کی اجازت دی۔ قلت ہوئی تو درآمد کی اجازت دی اور یوں چت بھی میری ‘پٹ بھی میری۔ تب کی ڈاکٹرائن کچھ اور تھی۔ یہ کہ آٹامافیا نے مہنگا کیا ہے۔ پھر کمشن پہ کمشن بنے‘ ہر کمشن پر اس کا نرخ بالا سے بالا ہوتا گیا۔آٹے کی بابت توکسی اور نے نہیں خود حکومتی وزیر فخر امام نے ’’غلطی‘‘ سے بھری بزم میں راز کی یہ بات کہہ دی کہ سرکاری گوداموں سے 60لاکھ ٹن گندم چوری ہو گئی ہے۔ واللہ مزا آیا۔یہ چوری اپوزیشن نے تو نہیں کی ہو گی‘ کسی اور نے ہی ہاتھ دکھایا ہو گا۔ بہرحال کہا یہی گیا کہ مافیا حکومت کو بدنام کرنے پر تلا ہے۔ ٭٭٭٭٭ دوائوں کی قیمتیں اکیلے نہیں بڑھیں‘ ساتھ ہی بجلی لگ بھگ ایک روپیہ مہنگی کرنے کی خبر بھی جاری کی گئی۔ ساتھ ہی یوٹیلیٹی سٹورز پر آٹے دال سے لے کر ہر ضروری چیز تک، ہر شے کی قیمت بڑھنے کی خبر بھی خود ہی جاری ہو گئی۔ ریلیف کی خود کار مشین حرکت میں ہے‘ میں ان کو رلائوں گا‘ ان کی چیخیں نکلوائوں گا کی دھن پر باجا بج رہا ہے۔دو خواتین میں جھگڑا ہو جائے اور ان میں سے ایک کو یہ پتہ چلے کہ اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے یا اس کا ذخیرہ الفاظ و دلائل خالی ہو چکا ہے تو وہ کیا کہتی ہے؟ یہ کہ بڑی بی‘ اب میرا منہ نہ کھلوائو۔ کہنے کو میرے پاس بھی بہت کچھ ہے لیکن لحاظ داری منہ مار رہی ہے۔اپنے سیاستدانوں کی الٹ بازی دیکھ کر یہ ماجرا یاد آیا۔ ایک دن پہلے گرج رہے تھے کہ میرے پاس ساری ملاقاتوں کا ریکارڈ ہے۔ ایک ایک کا راز فاش کروں گا۔ اگلے ہی روز فرما دیا‘ کہ‘ اب اس موضوع پر بات نہیں کروں گا۔ بات تھی ان ملاقاتوں کی جو عسکری حکام سے ہوئیں۔ جو ملاقات شیخ جی نے لیک کی‘ وہ گلگت بلتستان کے مسئلے پر عسکری حکام کی دعوت پر ہوئی۔ سیاستدان خود سے ملنے نہیں گئے تھے۔ جو دوسری ملاقات کی خبر لیک ہوئی‘ وہ شیخ جی نے نہیں کی ڈی جی آئی ایس پی آر نے کی۔ محمد زبیر ملنے گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ازخود گیا تھا‘ نواز شریف نے نہیں بھیجا تھا۔ ملاقاتوں پر ’’بحث‘‘ آگے بڑھتی لیکن عبدالغفور حیدری نے ایسا بم چھوڑا کہ شیخ جی کی سٹی بھی گم ہو گئی۔ اب ان ملاقاتوں کے قصے ہر کوئی کیا کہے جس کا باب شیخ جی نے خود ہی بند کر دیا۔ لیکن شیخ جی سے ایک سوال پوچھنے کی اجازت ہو تو وہ یہ ہے کہ شیخ جی‘ نواز شریف جب لاہور میں قید تھے تو دو لازم الاحترام ہستیاں باری باری ان سے ملنے جیل میں تشریف لے گئی تھیں اور پھر جب نواز شریف لندن پہنچے تو ایک اور لازم الاحترم ہستی نے وہاں جا کر انہیں شرف ملاقات بخشا تھا۔ پوچھنے والی بات صرف یہ ہے کہ کیا شیخ جی کے پاس ان ملاقاتوں کا ریکارڈ بھی ہے کہ نہیں؟ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے اپوزیشن کی طرف سے استعفوں کی ممکنہ چال پر تبصرہ فرماتے ہوئے کہا‘وہ استعفے دے‘ ہم الیکشن کرا دیں گے۔ اسے ایک بھی سیٹ نہیں ملے گی۔ ایسا کیا؟لگتا ہے کوئی آرڈی ننس زیر طبع ہے یا پھر قانون سازی ہو گی کہ آئندہ الیکشن میں صرف پوش یعنی ایلیٹ کلاس کی ہائوسنگ کالونیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے گا۔صرف اسی صورت میں ساری سیٹیں پی ٹی آئی لے جا سکتی ہے۔ ان پوش سوسائٹیوں سے باہر تو باقیوں کے بھی ووٹ ہیں ۔ مطلب یہ کہ موجود تو ہو گی لیکن بس کسی وجہ سے نظر آنے سے محروم ہے۔ ویسے حکومت نے اپنے ہی انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹیں پڑھ لی ہوں گی۔ ان میں کیا لکھا ہے؟حضور ایک جماعت کے بارے میں لکھا ہے کہ پنجاب میں ایک بھی سیٹ ملنا مشکل ہے۔ یہ کون سی جماعت ہے آپ جانتے ہیں۔جو ’’مظاہر فطرت‘‘رونما ہوئے تھے ۔ وہ اب کی بار ہو سکیں گے!امکاں تو ہے لیکن محض اتنا جتنا آپ کی حکومت میں گروتھ ریٹ بڑھنے کا ہے یعنی منفی صفر ایک یا چلیے منفی صفر دو کہہ لیجیے۔