عمران خان کی حکومت کو سات ماہ کے لگ بھگ عرصہ گزر چکا ہے۔ اس کی کارکردگی پر اب بات ہونا شروع ہوگئی ۔ عام طور پر حکومتوں کو شروع کے تین چار ماہ میں رعایت دی جاتی ہے، اس کے بعد حکومتی ترجیحات اور پالیسیوں پر نرم، گرم تنقید کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں شدت آتی ہے۔عمران خان کی حکومت البتہ اس لحاظ سے بدقسمت ہے کہ ان پر پہلے دو تین ہفتوں کے بعد ہی تنقید شروع ہوگئی۔ وجہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔ منیر نیازی نے کہا تھاع کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سَن ،کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی (کچھ تو شہر کے لوگ ظالم تھے اور کچھ مجھے مرنے کا شوق بھی تھا) ۔ خان صاحب کے پاس الا ماشااللہ دشمنوں کی کوئی کمی نہیں۔ سچ تو یہ کہ ان کی جماعت کے سوا (ق لیگ جیسا ننھا منا اتحادی کو چھوڑ کر)باقی ہر بڑی جماعت ان کی مخالف بلکہ شدید مخالف ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کاتوتحریک انصاف سے براہ راست ٹکرائو ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی خیبر پختون خوا میں سیاست تحریک انصاف نے ختم کر دی، اے این پی کا بھی ان کے سیاسی قلعہ سے صفایا کر ڈالا تو یہ دونوں جماعتیں پی ٹی آئی کے خون کی پیاسی ہی بنیں گی۔ ایسا ہی ہے۔ جماعت اسلامی کی نوعیت مولانا فضل الرحمن کی پارٹی سے مختلف ہے۔ مختلف وجوہات کی بنا پر وہ ایم ایم اے میں شامل ہوئی، مگر جلد غلطی کا احساس ہوگیا اور اب وہ عملی طور پر باہر آ چکے ہیں۔ جماعت اسلامی ریفارمز کے ایجنڈے کی وجہ سے تحریک انصاف کی فطری اتحادی ہے، مگر دونوں میںخاصا فاصلہ ہے۔ ذمہ دار دونوںپارٹیوںمیں موجود ہیں، اگرچہ جماعتی احباب کے مطابق اصل ذمہ داری تحریک انصاف پر عائد ہوتی ہے، جس نے کبھی جماعت کے ساتھ اتحاد کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ وجہ جو بھی ہو، بہرحال جماعت اسلامی اس وقت تحریک انصاف کی مخالف نہیں تو قریب بھی نہیں کھڑی۔ محمود اچکزئی اور ڈاکٹر مالک بلوچ، حاصل بزنجو کی صورت میں بلوچ، پشتون قوم پرستوں کے اہم دھڑے بھی ن لیگ کے اتحادی اور عمران خان کے شدیدسیاسی مخالف ہیں۔ ایم کیو ایم اگرچہ وفاقی حکومت میں شامل ہے، مگر کراچی میں جس طرح تحریک انصاف نے سویپ کیا اور بیشتر نشستیں سمیٹ لیں، اس کے بعد متحدہ کیسے تحریک انصاف کی دل سے حامی رہ سکتی ہے؟ صورتحال یہ ہے کہ دائیں، بائیں ، سنٹر وغیرہ کی بیشتر سیاسی قوتیں، ان کے ہم خیال لکھنے والے، تجزیہ کار ، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ تمام عمران خان اور تحریک انصاف کے سخت ناقد ہیں۔ ایسے بے رحم مخالف جن کے خیال میں عمران خان تاقیامت کچھ بھی اچھا نہیں کر سکتا اور خیرکی معمولی سی رمق بھی تحریک انصاف میں موجود نہیں۔ یہ تو ہوئی شہر کے ظالم لوگوں والی بات اور جہاں تک تحریک انصاف کے اپنے’’ شوقِ خود کشی ‘‘کا تعلق ہے، اس بارے میں بھی کچھ سمجھانے کی ضرورت نہیں، سب کچھ عیاں اور واضح ہے۔ عمران خان کو پہلے سو دنوں کا ڈرامائی ایجنڈا دینے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ جب کسی نے اس سے پہلے سو دنوں میں پرفارم کرنے کا مطالبہ ہی نہیں کیا تو یہ بھاری طوق اس نے گلے میں پہنا ہی کیوں ؟الیکشن سے پہلے خان صاحب اور ان کی جماعت نے بڑے بلند وبانگ دعوے کئے۔ پاکستانی سیاست میں ہر کوئی کرتا رہا ہے، کس نے ایسا نہیں کیا؟ایسی حرکت البتہ کوئی نہیں کرتا کہ الیکشن جیتنے کے بعد وہ سب نعرے عوام کو یاد دلائے ۔کوئی سیاسی ناسمجھ ایسا کر سکتا ہے یا پھر وہ شخص جس کی نیت اس حوالے سے صاف ہو اور وہ واقعی اس درجہ خوش فہم ہو کہ پاکستان جیسے بگڑے ہوئے حالات والے ملک میں تین ماہ کے اندر معجزہ تخلیق کرنا ممکن ہوجائے گا۔قارئین اپنی پسند اور طبع کے مطابق خود فیصلہ کرلیں گے کہ ان دونوں میں سے خان صاحب پر کون سی بات صادق آتی ہے۔ اوپر لکھے گئے دونوں پیرا گراف سے یہ نکتہ واضح کرنا مقصود تھاکہ خان صاحب کو شروع ہی سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور جو رعایتیں عام طور پر حکمرانوں کو مل جاتی ہیں، وہ اس سے بھی محروم رہے۔ مجھے لگتا ہے کہ عمران خان کے ساتھ انصاف سے کام نہیں لیا جا رہا۔ان شروع کے سات ، ساڑھے سات ماہ کی بنیاد پر انہیں ناکام قرار دینا زیادتی ہوگی۔ حتمی رائے قائم کرنے کے لئے تو اصولی طور پر پانچ سال انتظارکرنا چاہیے ، اگر جلدی ہے تب بھی دو ڈھائی سال بعد ہی تبصرہ کرنابنے گا۔، حکومت کے بنائے گئے دو فنانشل بجٹ دیکھنا ضروری ہے۔اب عمران خان کی حکومت پر اس تنقید کی وجوہات کا جائزہ لیتے ہیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ اور مشکل خود عمران خان اور تحریک انصاف کے لیڈروں کے بلند بانگ دعوے بنے ہیں۔ اس حکومت کے اسی، نوے فیصد لوگ پہلی بار حکومت میںآئے، بیشتر کا تو اسمبلی میں آنے کا بھی پہلا موقعہ ہے۔ اپوزیشن کے دور میں اپنی ناتجربہ کاری، جوش وخروش یا شریف خاندان کی سیاسی مخالفت میں انہوںنے ن لیگ کے ہر کام پر سخت تنقید کی اور وہ بڑے بڑے دعوے کئے جو اپوزیشن جماعتیں اکثر بلا سوچے سمجھے کر ڈالتی ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں ہر بات ریکارڈ ہوجاتی ہے۔ آج عمران خان یا ان کے وزرا کے وہی پرانے ویڈیو کلپ اور اخباری بیانات بار بار نکال کر دکھائے جا رہے ہیں۔ تنقید کرنے والے بھی حق بجانب ہیں، انہیں اس کا پورا حق پہنچتا ہے کہ خان صاحب اور ان کی ٹیم کی تضاد بیانی کو واضح کرے۔ سیاست میں اپنے مخالفوں سے ویسے بھی رعایت کا طلب گار کون ہوسکتا ہے؟اس کا آسان حل تو یہ تھا کہ عمران خان حکومت میں آ کر حقائق سے آشنا ہوجانے کے بعد کھل کر اعتراف کر لیتے کہ مجھے اتنے خراب معاشی حالات کا اندازہ نہیں تھا اور میرے اندازے غلط ثابت ہوئے ، اس لئے جو دعوے میں نے کئے ، انہیں ویسے تو پورا نہیں کر سکتا، مگر اپنی سی پوری کوشش کروں گا۔ اس اعتراف کے بعد انہیں سیاسی مخالف یوں آسانی سے تو نہ چھوڑتے، ان کی دھجیاں اڑانے کی بھرپور کوشش ہوتی، مگر دیانت داری اور سچائی کی اپنی قوت ہوتی ہے۔ڈاکٹر مہاتیرنے ملائشیا میں ایسا ہی کیا اور ان کی مقبولیت بڑھ گئی، کم نہیں ہوئی۔ دوسرا مسئلہ قومی میڈیا اور سوشل میڈیا ہے۔ حالات خراب ہیں، انہیں سدھارنے میں وقت لگے گا ،مگر میڈیا اتنا انتظار نہیں کر سکتا۔ امپورٹ کم کرنا اور ایکسپورٹ بڑھانا ہے۔ جو بھی پالیسی بنائی جائے، اس پر عمل درآمد ہونے میں ڈیڑھ ، دو ، ڈھائی برس لگ ہی جائیں گے۔ ٹیکس نیٹ بڑھانا چاہیے کہ اس خطے میں سب سے کم ہے۔ یہاں بھی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا سرمایہ کار ٹیکس دینے کو تیار نہیں۔ اگر سختی کی جائے تو سب اکٹھے ہو کر پوری معیشت جام کر دیتے ہیں۔ٹیکس نیٹ بڑھانے میں وقت لگ جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے صحافی ، تجزیہ کاراتنا عرصہ انتظار کیسے کریں؟ انہیں ہفتے میں تین چار دن ٹاک شو کرنا، دو تین دن کالم لکھنا ہوتا ہے۔ حکومت پر لکھنا، تنقید کرنا سب سے آسان ہے کہ لفافہ لینے کا طعنہ بھی نہیں ملتا ۔ اس لئے بھیا جی ہم تو لکھیں گے، ہر روز لکھیں گے، روزی روٹی کا سوال ہے، کوئی مذاق نہیں۔ سوشل میڈیا پر زیادہ سیریس صورتحال ہے۔ جب تک فیس بکی بلاگر ہر روز’’قلم توڑ‘‘ تحریر نہ لکھے، دوستوں کو ٹیگ، مینشن نہ کرے، رات کی روٹی ہضم نہیں ہوتی۔ سوشل میڈیا ہر روز ایک نیا ہنگامہ چاہتا ہے۔ سوشل میڈیائی دانشور معیشت ٹھیک کرنے کے لئے سال ڈیڑھ انتظار کیسے کر سکتے ہیں؟ وہ تو روز کا حساب روز ہی چکا کر سوتے ہیں۔ اب اس میں ایک فیکٹر ان لوگوں کا بھی ہے جنہوں نے خان صاحب سے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ جنہیںلگتا تھا کہ وہ کرشمہ کر دکھائیں گے۔ قصور ان کا بھی نہیں، خود عمران خان نے اپنا یہ امیج بنایا تھا۔ آج جب کرشمہ سازی مفقود ہے، خان صاحب کنفیوز نظر آ رہے، ان کے کابینہ کے اراکین گھبرائے ، منتشر آپس میں گتھم گتھا ہوئے پڑے ہیں۔ ان کے حامیوں کے لئے بھی یہ منظر دل خوش کن نہیں۔ عمران خان نے اہم عہدوں پر تقرر کرتے ہوئے بعض غلطیاں بھی کی ہیں۔ کئی ایسے لوگ لگائے جو اپنے منصب سے انصاف نہیں کرپا رہے ۔دوسری طرف بہت زیادہ بولنا، غیر ضروری تنازعات اوراپنے شعبے سے ہٹ کر گفتگوفرمانا حکومتی وزرا کا شعار ہے۔ یہ سب چیزیں اکٹھی ہو کر ایک منفی تصویر ضرور بنا رہی ہیں۔ اس پر مگر حتمی رائے قائم کرنا غلط اور نامناسب ہوگا۔ عمران خان نے دو تین چیزیں اسٹیبلش بھی کی ہیں۔ پہلی بار کوئی حکومت نظر آئی جومسائل کو جڑوں سے ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مقبول عوامی فیصلوں کے بجائے ملکی مفاد سامنے رکھ کر سوچ رہی۔ عمران خان کے اخلاص ، محنت اور کاوش پر کوئی شبہ نہیں ۔ ان کی دیانت داری آج بھی پہلے جیسی مستندہے۔ ان پر یہ الزام نہیں لگا کہ خان صاحب نے فلاں عہدہ پیسے لے کردیا یا کمانے کے لئے فلاں کرپٹ شخص کو وزیر بنایا۔ کمپرومائز وہ کر رہے ہیں، ایسا مگر کسی ذاتی غرض کے لئے نہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ حکومت کی خامیوںکی فہرست طویل اور خوبیوں کی لسٹ خاصی مختصر ہے، مگر بہرحال تاریکی میں روشنی کی کرنیں موجود ہیں۔ نہ صرف سرنگ کے آخر پر بلکہ سرنگ کے اندر بھی مشعلیں جل رہی ہیں۔