گاہے یوں محسوس ہوتا ہے وطن عزیز کے تمام نیم خواندہ محققین کرام نے ’’ یہودی سازشوں‘‘ پر پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور اب ان کی باقی ماندہ زندگی کا مقصد یہی ہے کہ اس عظیم تحقیق کی روشنی میں فرزندان حق کو لمحہ لمحہ با خبر رکھیں کہ یہودی وطن عزیز میں کس وقت کون سی سازش کر رہے ہوتے ہیں۔ محققین کرام اپنی تحقیق کی روشنی میں ہر اینٹ کے نیچے سے دس پندرہ سازشیں ہر سہ پہر برآمد فرما کر داد طلب ہوتے ہیں اورصف نعلین میں کھڑا میرے جیسا طالب علم حیرت سے یہی سوچتا رہ جاتا ہے کہ یہ سب کچھ اگر یہودی سازشیں ہیں اور جو ہو رہا ہے وہ یہود ہی کے دست ہنر سے ہو رہا ہے تو امت مسلمہ کیا صرف افزائش آبادی میں مصروف ہے کہ جواب میں وہ ایک’’ سازش‘‘ بھی نہیں فرما سکی؟جتنی ’ تحقیق‘ ان ’ محققین کرام‘ نے یہودی سازشوں کو بے نقاب کرنے پر صرف کی ہے اس کا عشرِ عشیر صرف فرما کر ان نابغوں نے جواب میں دو تین سازشیں خود بھی فرما دی ہوتیں تو کیا معلوم آج دنیا پر ہماری حکمرانی ہوتی۔ نیم خواندہ معاشروں میں جہالت کا ابلاغ بہت آسان ہوتا ہے اور ان کا فکری استحصال بھی۔ چنانچہ وطن عزیز میں یہ بات نیم خواندہ سماج کے لاشعور میں بٹھا دی گئی ہے کہ وہ اگر آج اس حال میں ہیں تو اس کی وجہ یہودی سازشیں ہیں ۔چنانچہ آزادی مارچ میں ، جب استعفٰی ہاتھ نہیں آتا تو ، کارکنان کو بتایا جاتا ہے اس عظیم الشان اجتماع نے اس خطے میں یہودی سرمایہ کاری پر پانی پھیر دیا ہے اور اب یہودی پریشان ہیں کہ اس مولانا نے تو ان کے سارے کھیل کو برباد کر دیا۔ کبھی ہم نے سوچا یہودیوں نے وہ کون سی سازش کی جس نے انہیںاس قدر طاقتور بنا دیا کہ آج عملا دنیا پر ان کا راج ہے؟یہ’’ سازش‘‘ علم و تحقیق اور محنت کی دنیا میں کی گئی۔چنانچہ اسرائیل دنیا کا واحدملک ہے جو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پر اپنے جی ڈی پی کا تیس فیصد سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔آبادی کے تناسب سے اسرائیل میں سائنسدانوں کی تعداد دنیا بھر کے تناسب سے دس گنا زیادہ ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ ٹیکنالوجی کا علم رکھنے والا ملک اسرائیل ہے۔تل ابیب اس وقت دنیا بھر میں اپنا لوہا منوا رہا ہے۔ تل ابیب کا شمار دنیا کے دس بڑے سائنسی مراکز میں ہوتا ہے۔ اسرائیل امریکہ کے بعد دنیا کا سب سے بڑا ہائی ٹیک سنٹر ہے۔ اسرائیل پاکستان کی طرح زرعی ملک نہیں ہے۔ یہ صحرا پر مشتمل ہے اس لیے اسے توانائی اور پانی کے بحران کا سامنا رہا۔کہا جاتا رہا کہ 3 Liquid shortage کی وجہ سے اسرائیل تباہ ہو جائے گا۔ اس کے پاس نہ پانی ہے ، نہ پٹرول اور نہ ہی اس کے پاس اپنے دفاع میں بہانے کے لیے وافر مقدار میں لہو ہے۔( یعنی اس کی آبادی کم ہے) لیکن ہوا کیا؟ آس پاس کے مسلمان ممالک کی زمینوں پر بھی آج اس کا قبضہ ہے اور کسی میں ہمت نہیں اس سے الجھ سکے۔ پانی اسرائیل کا بہت بڑا مسئلہ تھا۔صحرا میں دور تک پانی پہنچانا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔پائپ موسم کی حدت سے لیک ہوجاتے تھے۔اسرائیل نے یہ پراجیکٹ ہیبریو یونیورسٹی کے حوالے کیا۔وہاں کسی یونیورسٹی میں کسی سیاسی جماعت نے طلباء ونگ کے نام پر جتھے نہیں بنا رکھے نہ ہی کسی طلباء تنظیم نے یہودیوں کو حقیقی یہودی بنانے کے لیے نظریاتی مورچہ سنبھال رکھا ہے۔وہاں صرف علم و تحقیق سے کام رکھا جاتا ہے ۔ چنانچہ دو سالوں میں یونیورسٹی نے اس کا حل نکال لیا۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن ہماری زراعت کا جو حال ہے وہ بیان کا محتاج نہیں۔اسرائیل تو صحرا تھا لیکن اپنی محنت سے اس نے کمال کر دکھایا۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی اسرائیل کے صحرائوں کی زرعی پیداوار پاکستان کے زرعی میدانوں سے حاصل ہونے والی پیداوار سے اوسطا پانچ گنا زیادہ ہے۔اس نے 1959ء میں ’ڈرپ اری گیشن‘کا کامیاب تجربہ کیا اور پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ جب وہ یہ تجربہ کر رہاتھا ، اسے اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ اسرائیل کے لیے چار سو خطرات تھے کہ ایک طوفان اٹھے گا اور اس ناجائز ریاست کا وجود ختم ہو جائے گا۔لیکن ان حالات میں بھی وہ اپنی زراعت پر توجہ دے رہے تھے اور انقلابی منصوبے بنا رہے تھے۔آج عالم یہ ہے کہ ڈرپ اری گیشن سے اسرائیل نے اپنے صحرائوں کو قابل کاشت بنا لیا ہے۔ صرف قابل کاشت نہیں بنایا اس کی پیداواری صلاحیتوں نے دنیا بھر کے زرعی ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔دنیا کے زرخیز ترین علاقے میں کاشت ہونے والی فصلوں سے چار گنا زیادہ فصل اسرائیل اب اپنے صحرائوں سے اٹھا رہا ہے ۔یہ اوسط دنیا کے بہترین زرعی میدان رکھنے والے ممالک بھی نہیں دے سکے۔اس غیر معمولی کامیابی نے امریکہ اور آسٹریلیا کو مجبور کیا کہ وہ اسرائیل سے رجوع کریں چنانچہ آج امریکہ اور آسٹریلیا اسرائیل سے یہ ٹیکنالوجی اور آلات خرید رہے ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں بھی وہ آگے ہے۔سپیس سائنس میں اسرائیل اس وقت دنیا میں دوسرے نمبر پر کھڑا ہے۔پہلا سیٹلائٹ’’اوفیق ون‘‘اس نے 1988ہی میں بنا لیا تھا۔سوئٹزر لینڈ کا ’’ لارج ہائیڈرون کولیڈر سنٹر‘ ‘ دنیا بھر میںایک مقام رکھتا ہے ۔اس میں کام کرنا سائنسدانوں کے لئے ایک اعزاز ہوتا ہے۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس وقت اسرائیل کے پچاس سائنسدان اس ادارے میں کام کر رہے ہیں۔اسرائیل اس وقت دنیا میں ایرو سپیس پراڈکٹ بیچنے والا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ اقوام متحدہ کے ہیومن ڈیویلپمنٹ انڈیکس میں اسرائیل کا 22واں نمبر ہے ، جب کہ پاکستان 133 ویں نمبر پر کھڑا ہے۔ حالت یہ ہے کہ پاکستان سے 38 گنا چھوٹے اسرائیل کا ایک اسرائیلی شیکل پاکستان کے 45 روپوں کے برابر ہے۔ ہمیں یہودی سازشوں کو ہر جگہ تلاش کرنے کی بجائے اب اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا۔سادہ سا سوال ہے: اگر یہودی اپنی سازشوں سے یہ سب کچھ کر سکتے ہیں تو ہم کیا صرف افزائش آبادی کے لیے اس دنیا میں تشریف لائے ہیں؟ ہم علم و تحقیق سے کب اپنا رشتہ جوڑیں گے؟ہم کب تک اپنی نااہلی پر ’یہودی سازش‘ کا ملبہ ڈالتے رہیں گے؟