جناب شاہ محمود قریشی سے ہماری ہلکی پھلکی پرانی شناسائی ہے۔ وہ خوش لباس بھی ہیں‘ خوش کلام بھی ہیں اور خوش اخلاق بھی۔ جب بات کرتے ہیں تو فصاحت و بلاغت کے دریا بہا دیتے ہیں۔ مگر کبھی مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیتے۔ یوں بھی جنگ اور امن جیسے نازک معاملات جس احتیاط کا تقاضا کرتے ہیں اس کو شاہ صاحب ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ گزشتہ روز پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے تازہ ترین انٹیلی جنس معلومات قومی میڈیا پر بیان کر کے نہ صرف اپنی قوم بلکہ عالمی برادری کو بھی چونکا دیا ہے شاہ صاحب نے کہا کہ ہمارے پاس مصدقہ معلومات ہیں کہ بھارت پاکستان پر جارحیت کا ایک اور منصوبہ بنا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ جیسا ایک اور واقعہ بھی کروایا جا سکتا ہے تاکہ فوجی کارروائی کے لئے جواز ڈھونڈا جائے۔ شاہ صاحب نے یہاں تک کہا کہ خدشہ ہے کہ بھارت یہ جارحانہ کارروائی 16سے 20اپریل تک کر سکتا ہے۔ پاکستان نے اس بھارتی منصوبہ سے سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممالک کے سفیروں کو اسلام آباد میں آگاہ کر دیا ہے۔ غالباً دنیا کو ایک بار پھر یہ بتانے اور بھارت کو یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں کہ دو ایٹمی قوتوں کے ٹکرانے سے جو کچھ ہو گا اس سے علاقائی ہی نہیں عالمی امن بھی تہ و بالا ہو سکتا ہے۔ مگر اتمام حجت ضروری ہے اور شاہ محمود قریشی نے اسی ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے اور بھارت کو پھر باور کروایا ہے کہ اسے تباہی کا نہیں سلامتی کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس وقت نریندر مودی پر بھارت کے اندر سے شدید تنقید ہو رہی ہے۔ مغربی بنگالی کی وزیر اعلیٰ ممتا بینر جی نے نریندرا مودی کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے اسے راون سے تشبیہ دی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں تو آل پارٹیز حریت کانفرنس سید علی گیلانی کی سربراہی میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کے لئے گزشتہ بیس برس سے ہزاروں کی تعداد میں جانوں کا نذرانہ پیش کر چکی ہے۔ اب تو بھارتی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے والی نیشنل کانفرنس کے سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ‘ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے مودی حکومت کو علی الاعلان تنبیہ کی ہے کہ وہ کشمیر میں قتل عام بند کرے اور اگر بھارت نے اپنے آئین میں کشمیر کی الگ حیثیت کو ختم کرنے کی کوشش کی تو پھر یہ بھارت کے ساتھ رسمی تعلقات کا بھی آخری دن ہو گا۔یہ تو واضح ہے کہ پاکستان پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ مودی جارحیت کے پہلے دور میں بھارت کو منہ کی کھانا پڑی اور اسی ہزیمت نے بھارت کو ہذیانی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ اب مودی کہتا ہے کہ میں نے اپنے فوجی کمانڈروں کو فری ہینڈ دے دیا ہے۔ ہمارے لئے اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس ممکنہ جنگ کے لئے تیار ہیں جو ہم پر مسلط کی جا رہی ہے؟ تیاری دو محاذوں پر ہوتی ہے ایک فوجی اور دوسرا قومی محاذ۔ رب ذوالجلال نے اپنی آخری کتاب کی سورۃ انفال کی 60ویں آیت میں تیاری کا دائمی اصول بیان کر دیا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ اور تیارکرو ان کی لڑائی کے واسطے جو کچھ جمع کر سکو قوت سے اور پلے ہوئے گھوڑوں سے کہ اس سے دھاک پڑے اللہ کے دشمنوں پر اور تمہارے دشمنوں پر اور دوسروں پر ان کے سوا جن کو تم نہیں جانتے اللہ ان کو جانتا ہے‘‘ اس آیت میں ’’قوت‘‘ کا لفظ فار آل ٹائمز ہے کہ جو کسی زمانے کا موثر ترین اسلحہ ہو۔’’قوت‘‘ فوجی شان و شوکت اور سپاہ کی تربیت بھی ہے الحمد للہ پاکستان کے پاس آج کے پلے ہوئے گھوڑے ٹینک‘ میزائل اور ایٹم بم بھی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستانی فوج جدید ترین اسلحہ اور بہترین تربیت سے لیس ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف دوست ہی نہیں دشمن بھی کرتے ہیں۔ یہی تیاری سے مراد قوم کا مثالی اتحاد و اتفاق اور معیشت کی مضبوطی ہے اس حوالے سے صورت حال حوصلہ افزا نہیں۔ وزیر اعظم سمیت ساری حکومت اپنے اپنے کام چھوڑ کر صرف اور صرف اپوزیشن کو دھمکیاں دے رہی ہے۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ نیب آزاد ہے اور دوسری طرف وزیر اعظم کہتے ہیں کہ میں چوروں ڈاکوئوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ حضور !معیشت اور گورننس کی خبر لیجیے ‘ پارلیمنٹ کو قوت دیجیے وہاں صلاح مشورہ کیجیے اور دلدل میں ڈوبتی ہوئی معیشت کی کشتی کی خبر لیجیے۔ پہلے ایشیا بنک نے ہمیں جھنجھوڑنے کی کوشش کی اور بتایا کہ ہماری معیشت ہچکولے کھا رہی ہے۔اب ورلڈ کی رپورٹ حکمرانوں کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق 2019ء میں شرح نمو 3.4فیصد اور 2020ء میں صرف 2.7فیصد ہو گی۔ زراعت و صنعت دونوں میں ابتری کے آثار تو نمایاں ہیں بہتری کی کوئی امید نہیں۔ وہی بات ہمیں ورلڈ بنک بتا رہا ہے جو ہمیں ملائشیا کے 91سالہ وزیر اعظم مہاتیر محمد بتا کر گئے ہیں کہ خوش حالی کا صرف اور صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری اور زیادہ سے زیادہ پیداوار۔’’کرپشن‘‘ کی یک طرفہ مذمت اور سابق سیاست دانوں کوگالیاں دینے سے معیشت درست نہیں ہو گی۔ جناب عمران خان کو اگر معلوم نہیں تو بڑے افسوس کی بات ہے کہ انہیں کیوں معلوم نہیں۔ آپ کی حکومت کے آٹھ مہینوں میں مزید چالیس لاکھ انسان خط غربت سے نیچے جاگرے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں ایک وقت کی روٹی بھی بمشکل ملتی ہے۔ مزید 15لاکھ بے روزگار ہو گئے ہیں چھوٹے بڑے تاجر رو رہے ہیں ان کے بزنس ٹھپ ہو چکے ہیں۔ ٹیکس جمع کرنے والے لٹھ لے کر سفید پوشوں کے پیچھے پڑے ہیں۔ ڈالر 143روپے تک جا پہنچا ہے اور پٹرول کے نرخ بہت بڑھ چکے ہیں۔ اس سے ہر شے کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں غریب ہی نہیں متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہیں۔ پانچ سے سات گھنٹے روزانہ کی لوڈشیڈنگ شروع ہو چکی جو رمضان المبارک تک آٹھ دس گھنٹے ہو جائے گی۔وزیر اعظم‘وزیر خزانہ اور وزیر اطلاعات سابق حکمرانوں پر گالیوں کی بوچھاڑ سے نیب کے احتساب کی ساکھ کو خود مشکوک بنا رہے ہیں۔ وزیر اعظم اپوزیشن کے منتخب قائدین سے بات کرنے پر آمادہ نہیں۔ ان کے اس رویے سے اتحاد نہیں انتشار پیدا ہو رہاہے۔ ایٹمی قوت ہونا ایک بہت بڑا اعزاز اور مضبوط دفاع کی ضمانت ہے۔ مگر ایٹمی طاقت کی مضبوطی کا انحصار معاشی قوت پر ہے۔ اگر ایٹمی قوت کے حکمران دریوزہ گری‘ کاسہ لیسی اور گداگری کرتے دکھائی دیں گے تو دنیا کو کیا پیغام جائے گا۔ اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان کی فوج تیار ہے‘ مشکل وقت میں قوم بھی اپنی بہادر افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے۔ اب بھی انشاء اللہ کھڑی ہو گی۔ مگر حکومت بھی قومی اتحاد اور پارلیمنٹ کی مضبوطی پر توجہ مرکوز کرے۔ یہی حکومت کی تیاری ہے۔