1965ء کی جنگ ستمبر کا خلاصہ اگر ایک مختصر جملے میں بیان کرنا ہو تو میں کہوں گا۔ جاگ اٹھا ہے سارا وطن میں نے جنگ ستمبر کو بچپن اور لڑکپن کی سرحد پر اور 1971ء کی جنگ کو اوائل شباب میں دیکھا۔ جنگ ستمبر کے بعد ہم فخریہ سر اٹھا کر چلتے تھے اور 16دسمبر 1971ء کے بعد ہم غمزدہ ‘ افسردہ اور پژمردہ ہو کر سر جھکا کر چلتے تھے۔ سرگودھا میرا شہر ہے 6ستمبر 1965ء کو ابتدا سے زندہ دلان لاہور کے ہی نہیں سرگودھا کے شاہینوں کے جذبے بھی جواں تھے۔ یہ صرف لاہور‘ سرگودھا یا سیالکوٹ کی بات نہیں پاکستان کا چپہ چپہ جاگ اٹھا تھا، حتیٰ کہ جہاں جنگ کی ہولناکیوں کے جانے کے امکان کم تھے وہاں بھی مرد زون ‘ پیرو جوان اور بچے تک اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے جان ہتھیلی پر لئے ہر قربانی کے لیے تیار تھے۔ پاکستانی نوجوانوں نے اس وقت کے مشرقی پاکستان کے دارالحکومت ڈھاکہ میں مظاہرے کئے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ہمیں مغربی پاکستان بھیجو تاکہ ہم دفاع وطن کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر سکیں۔ سرگودھا میں حکومت کی ہدایت پر خندقیں کھودی گئیں۔ حکم یہ تھا کہ سائرن بجتے ہی لوگ خندقوں میں چلے جائیں۔ سیٹلائٹ ٹائون سرگودھا میں ہمارا گھر شہر کے ان معدودے چند گھروں میں سے ایک تھا جس میں تہہ خانہ بھی تھا۔ سیٹلائٹ ٹائون ایر بیس سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ فضائی پیمانے کے مطابق تو شاید ایک دو سکینڈ کا فاصلہ ہو گا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے 7ستمبر 1965ء کو وہ نظارہ دیکھا جو جنگی ہوا بازی کی تاریخ کا ایک معجزہ تھا۔ فائٹر پائلٹ ایم ایم عالم نے 60سکینڈ سے کم وقت میں اپنے سپر طیارے سے سرگودھا کی فضا میں اڑتے ہوئے پانچ بھارتی تھنڈر فائٹر طیاروں کو مار گرایا۔ اس روز ہم نے بچشم خود دیکھا کہ پلٹنا جھپٹنا جھپٹ کر پلٹنا کیا ہوتا ہے۔ جنگ ستمبر کو نصف صدی سے اوپر عرصہ گزر چکا ہے مگر آج تک کوئی پاکستانی ہیرو ایم ایم عالم کا ریکارڈ نہیں توڑ سکا۔ کشمیر میں آپریشن جبرالٹر شروع ہونے کے بعد بھی ہمارے پالیسی سازوں کا یہ خیال تھا کہ ہندوستان انٹرنیشنل بارڈر کی خلاف ورزی نہ کرے گا مگر بھارت نے لاہور کی سرحد کو عبور کیا۔ دشمن نے برکی کے مقام پر ٹینکوں اور پیدل فوج سے حملہ کر دیا۔ بھارتی فوج کا پروگرام تھا کہ بے خبری میں پاکستان مزاحمت نہیں کر پائے گا ہم اسی روز جم خانہ لاہور میں جشن فتح منائیں گے۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ برکی ایریا آف لاہور میں میجر عزیز بھٹی مانند کوہ گراں کھڑا تھا، جس نے پانچ روز تک بھارتی فوج کو پیش قدمی سے روکے رکھا اور بی آر بی پوسٹ پر بھارتی قبضے کے سہانے خواب کو ڈرائونے خواب میں بدل دیا اور وہ بھی صرف ایک پلاٹون کے ساتھ۔ پانچویں روز ایک گولہ میجر عزیز بھٹی پر آ گرا جبکہ وہ دشمن کی پوزیشنوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ جنگ ستمبر کا سب سے اہم سبق یہ تھا کہ جونہی جنرل ایوب خان نے کلمہ پڑھتے ہوئے دشمن کو للکارا تو ساری قوم اپنے اختلافات بھلا کر پاکستان کے سبز ہلالی پرچم تلے یک جا ہو گئی، یک زباں ہو گئی اور یک سو ہو گئی۔ چند ماہ پہلے ایوب خان نے اس وقت پاکستان کی سب سے زیادہ واجب الاحترام ہستی مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو دھن‘ دھونس اور دھاندلی سے انتخابی شکست سے دوچار کیا تھا۔ مگر اس کے باوجود مادر ملت کے انتخاب کے لیے قائم کردہ اپوزیشن الائنس کے تمام سیاست دان سارے اختلافات بھلا کر ایوان صدر پہنچ گئے۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ریڈیو پاکستان سے کئی تقاریر کیں اور فوجی جوانوں کو شہید اور غازی کے مرتبے سے آگاہ کیا اور ساری قوم کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جانے کی تلقین کی۔ 1965ء کی جنگ کا نمایاں ترین سبق یہ تھا کہ وقت آنے پر ساری قوم متحد و متفق ہو جاتی ہے۔ ایک اہم سبق یہ بھی تھا کہ قوم بے پناہ جذبہ اور زبردست صلاحیتیں رکھتی ہے جنہیں کام میں لا کر جنگ میں ہی نہیں زمانہ امن میں بھی بڑے بڑے معجزے سرانجام دیے جا سکتے ہیں۔اہم ترین سوال یہ ہے کہ وہ قوم کہ جس کے حکمران جس کے سیاست دان‘ جس کے فوجی افسران‘ جس کے سول بیورو کریٹ اور جس کے عوام آج کی اصطلاح میں ایک پیج پر تھے انہیں کیا ہوا کہ صرف چھ سال بعد بدترین شکست سے دوچار ہوا اور سب سے بڑی اسلامی ریاست نے ریس کورس میدان میں بھارتی جرنیل کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور 90ہزار سے زائد جنگی قیدی بنے اور شہیدوں اور مجروحین کا حساب کتاب ہی کوئی نہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان دولخت ہو گیا۔1965ء کی جنگ اور 1971ء کی جنگ کا بنیادی فرق یہ تھا کہ جنگ ستمبر میں فوج کے پیچھے ساری قوم جذبہ قربانی سے سرشار ہو کر کھڑی تھی جبکہ 1971ء کی جنگ میں فوج لڑ رہی تھی اور اس کے ساتھ مشرقی پاکستان کے کچھ جاں نثار تھے باقی ساری بنگالی قوم پاکستانی فوج کو غاصب سمجھتی تھی جس نے ان کے منتخب نمائندے مجیب الرحمن کے حوالے اقتدار نہیں کیا۔ 1971ء کا سبق یہ تھا کہ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے۔ منتخب سول حکام کو اقتدار نہ دیا جائے تو بغاوت جنم لیتی ہے۔ سقوط ڈھاکہ کی ٹریجڈی کے بعد جب اقتدار کلی ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں آیا تو یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اب بھٹو حقیقی جمہوریت کو مضبوط کریں گے۔ مشرقی پاکستان ہی نہیں مغربی پاکستان کے بھی بہت سے سیاست دان اور دانشور حقیقی تجزیے کی بنیاد پر سمجھتے تھے کہ پاکستان کو دولخت کرنے اور مجیب الرحمن کے سپرد اقتدار نہ کرنے میں جہاں فوجی حکمران یحییٰ خان کی حماقتوں کا دخل تھا وہاں مغربی پاکستان سے نو منتخب لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کی سازشوں کا بھی ہاتھ تھا۔ پاکستانی قوم کے اتحاد کے پارہ پارہ ہونے کا بنیادی سبب یہ تھا کہ قوم کا اقتدار فوج کے ہاتھ میں نہیں اس کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیے۔ سول حکمران ذوالفقار علی بھٹو 1972ء میں سیاہ و سفید کے مالک تھے ان سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ حقیقی جمہوریت کو اتنا مضبوط کریں گے کہ آئندہ سول حکومت میں فوج کی مداخلت کا راستہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ’’جمہوری‘‘ حکمران ذوالفقار علی بھٹو نے شدید ترین آمرانہ طریقے اور فسطائی حربے اختیار کئے۔ انہوں نے اپوزیشن کے جلسوں میں مسلح حملے کروائے‘ ان کے دور حکومت میں کئی سیاست دانوں کو قتل کر دیا گیا۔ بھٹو نے بغیر سوچے سمجھے پرائیویٹ کارخانوں اور فرموں کو قومیا لیا۔ انہوں نے 1977ء میں بدترین انتخابی دھاندلی کی اور جب اپوزیشن نے اس کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی تو بھٹو نے تحریک کو بزور شمشیر کچل دینے کے لیے احتجاجی ہجوم پر گولیاں چلوا دیں اور جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں فوج کو ایک بار پھر 1977ء میں اقتدار پر شب خون مارنے کا موقع مل گیا یوں ہم نے 1971ء کی جنگ کا ناقابل فراموش سبق پھر فراموش کر دیا۔ اللہ اللہ کر کے گیارہ برس بعد جمہوریت واپس آئی تو اس دور کے جمہوری حکمرانوں نے جمہوریت کو مستحکم اور خدمت خلق کرنے کی بجائے غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے اپنا اقتدار مضبوط کرنے اور قومی وسائل کی لوٹ مار سے بیرون ملک جائیدادیں بنانے پر ساری توجہ مرکوز کی، نتیجتاً ایک بار پھر جنرل پرویز مشرف کی صورت میں ایک اور فوجی حکمران جلوہ گر ہو گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد ہماری مغربی سرحدوں پر پرائی جنگ کو نہ صرف اپنی جنگ بنا لیا بلکہ ایک فرنٹ مین اتحادی کا کردار ادا کیا اور یوں ساری قوم کو ایک ایسی آگ میں جھونک دیا کہ جو آگ دوسروں کی بھڑکائی ہوئی تھی۔2008ء میں پھر جمہوریت کی واپسی کے موقع پر سبق یہ تھا کہ سیاست دان باہمی الزام تراشیوں اور سازشوں سے بچیں اور جمہوری طورطریقے اپنائیں اور قومی دولت کو شیر مادر نہ سمجھیں۔ جنرل مشرف کے اقتدار کے خاتمے کے موقع پر پاکستانی قوم کے لیے سبق یہ تھا کہ ہم پرائی جنگ میں کودنے سے اجتناب کریں۔ تاہم اس وقت تک یہ پرائی جنگ ہماری اپنی جنگ بن چکی تھی کیونکہ دہشت گردوں نے ہماری مسجدوں ‘ ہماری عبادت گاہوں‘ ہمارے سکولوں‘ ہماری دانش اور ہمارے بازاروں اور گلی کوچوں کو بدترین نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ ایک بار پھر ساری قوم نے متحد ہو کر دہشت گردوں کا تقریباً صفایا کر دیا ہے۔ گزشتہ پندرہ بیس برس کے دوران ہماری فوج‘ پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں اور عوام نے بے مثال قربانی دی۔ اب نئے وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ببانگ دہل کہتے ہیں کہ ہم دوسروں کی جنگ نہیں لڑیں گے۔ ہماری سابقہ تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ ہم نے کسی المیے‘ کسی سانحے اور کسی واقعے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اللہ کرے اس بار یہ سابقہ روایت غلط ثابت ہو جائے اور ہم کسی پرائی جنگ کو اپنی سرزمین پر نہ لے آئیں۔