دستور پاکستان میں لکھا ہے پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی ، دل چسپ بات ہے کہ آئین میں یہ بات انگریزی زبان میں لکھی ہوئی ہے۔بظاہر یہ معمولی سی بات ہے لیکن سوچا جائے تو یہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے جو ہمیں بتا رہا ہے ہمارے فکری تضادات کتنے گہرے اور ہماری گرہیں کتنی شدید ہیں۔ آرٹیکل 251میں ، ہمارے اکابر اراکین پارلیمان نے قوم کو یہ بتانے کے لیے کہ ان کی قومی زبان اردو ہو گی ، انگریزی کا سہارا کیوں لیا؟ کیا ان محترم ہستیوں کو اردو نہیں آتی تھی اور ان سب عالی قدر رہنمائوں کا بچپن برطانیہ اور امریکہ میں گزرا تھا ، کیا اردو میں بات کرنا یہ بزرگ لوگ اپنی توہین سمجھتے تھے یا پھر ان میں اتنی اہلیت ہی نہیں تھی کہ آئین مرتب کر سکتے اور اقوال زریں کا یہ ’’ کاپی پیسٹ‘‘ کرانے کے لیے جن ’’ بابو لوگوں‘‘ کی مدد لی گئی ان کی مہارت ہی انگریزی میں ’’ کاپی پیسٹ‘‘ تک محدود تھی اور جیسے ایک دن مقدس ایوان میں بجٹ آ جاتا ہے ایسے ہی کسی دن ایوان میں دستور صاحب بھی دبے پائوں تشریف لائے ہوں کہ کسی کو کانوں کان خبر ہی نہ ہو پائی ہو؟ 1973ء کی پارلیمان پر ذرا ایک نگاہ ڈالیے اور پھر خود فیصلہ کر لیجیے ان میں کتنے فاضل اراکین تھے جنہیں انگریزی زبان پر دسترس حاصل تھی اور کتنے ایسے تھے جو پڑھ کر سمجھنے کی صلاحیت رکھتے تھے کہ قوم کو انہوں نے جو آئین عطا فرمایا ہے اس کے اندر لکھا کیا ہے؟آئین میں اقوال زریں سنایا گیا کہ ہم آپ کو اتنے سال دے رہے ہیں آپ اردو کو دفری زبان بنائیے لیکن یہ نہیں ہو سکا کہ بارش کے پہلے قطرے کے طور پر کم از کم یہ والا فقرہ ہی آئین میں اردو میں لکھ دیا جاتا۔ آئین کے دیباچے میں ازرہ مروت یہ تو لکھ دیا گیا ہے کہ ہم عوام اپنے لیے یہ آئین بنا رہے ہیں اور ہم عوام خود کو یہ آئین دے رہے ہیں لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کتنے فیصد عوام کو کچھ خبر ہے کہ انہوں نے خود کو جو آئین بنا کر دیا تھا ،اس میں کیا لکھا ہے؟آئین کو تو چھوڑیے کیا لوگوں کو اتنی سی بات بھی معلوم ہے کہ آئین کے اندر لکھا ہے انہوں نے خود کو یہ آئین دیا؟ آئین میںبنیادی انسانی حقوق کا ایک باب ہے۔ کیا عوام کو کچھ خبر ہے آئین نے انہیں کون کون سے حقوق دے رکھے ہیں؟جن معمولی سی سہولیات کے لیے انہیں بعض اوقات اہل سیاست کا ممنون ہونا پڑتا ہے کیا انہیں کچھ خبر ہے وہ کسی ایم این اے یا ایم پی اے کی ابائو اجداد کی میراث سے بٹنے والی خیرات نہیں بلکہ ان کے بنیادی انسانی حقوق کا تقاضا ہے؟پھر خود ان بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں اقوال زریں سنائے جاتے ہیں کہ چلو کسی کو مل نہیں رہے تو وہ الگ مسئلہ ہے لیکن آئین میں لکھ تو دیا گیا ہے کہ آپ کے بنیادی حقوق ہیں۔ لیکن آئین کھول کر دیکھیں تو معلوم ہوتا صحت تو آپ کا بنیادی حق ہے ہی نہیں۔ چند روز پہلے سراج الحق صاحب نے بل جمع کرایا ہے کہ صحت کو بھی بنیادی انسانی حقوق میں شامل کیا جائے۔ کورونا سے مرتے معاشرے میں بھی مگر یہ بل سرے سے کوئی خبر ہی نہیں بن سکا۔ خود جماعت اسلامی کے سوشل میڈیا کے حضرات دیگر اہم امور میں قوم کی رہنمائی فرما رہے ہیں اور یہ خبر غالبا ان تک بھی نہیں پہنچ پائی ۔ آئین میںآرٹیکل باسٹھ ترسیٹھ کی وہ شرائط عائد کر دی گئی ہیں کہ معلوم انسانی تاریخ میں انبیاء اور ان کے رفقاء کی جلیل القدر جماعتوں کے علاوہ شاید ہی کوئی ان پر پورا اتر سکے۔لیکن ہم سب اور ہمارے سب ادارے مطمئن ہیں کہ ہماری قومی اسمبلی کے یہ جلیل القدر اراکین باسٹھ تریسٹھ پر پورا اترتے ہیں ، دو انچ یا تین پائو کی بھی کمی نہیں۔حیران کن شرائط کا کمال گویا کم تھا کہ مزید کمال بھی فرما دیا گیا۔ آئین یا کسی انتخابی قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ جو اقوال زریں ان آرٹیکلز میں بیان کیے گئے ہیں، ان کی تعریف کیا ہو گا۔sagaciousکون ہو گا ؟honestکی تعریف کیا ہو گی؟امین ہونے کا پیمانہ کیا ہو گا؟righteous کسے کہا جا سکے گا؟ کسی کو کچھ معلوم نہیں۔بلکہ اقوال زریں کی چھلنی ہے اور ہر انتخاب میں پورے اہتمام سے ہم یہ چھلنی لے کر معاشرے کو چھاننے بیٹھ جاتے ہیں۔گدگدا دینے والی دستیاب حقیقت یہ ہے کہ شیخ رشید ان شرائط پر پورا اترتے ہیں ، ایااز امیر پورا نہیں اترتے۔ ایک طرف یہ دعوی ہے کہ پاکستان صدیوں پہلے اس وقت قائم ہو گیا تھا جب محمد بن قاسم کے لشکر کا پہلا مسلمان سندھ میں اترا دوسری جانب 1861 کے اس فوجداری قانون کو جو 1857 کی جنگ آزادی کو کچلنے کے بعد اس اہتمام سے بنایا گیا تھا کہ آئندہ کوئی سر نہ اٹھا سکے دو چار پیوند لگا کر ہم نے ’’ تعزیرات پاکستان ‘‘ بنا دیا۔پاکستان 1947 میں بنا اور تعزیرات پاکستان 1860میں بن چکا تھا۔ تمام درسی کتابوں میں لکھا ہے کہ پاکستان 14 اگست کو قائم ہوا لیکن تعزیرات پاکستان کی دفعہ 123 اے میں لکھا ہے پاکستان 15 اگست کو قائم ہوا تھا۔اس بحث سے لینا دینا نہیں کہ تاریخی حقیقت کیا ہے ، لیکن نصاب کی کتب میں تضاد تو دور کر لیا جاتا۔ سگریٹ نوشی کے کاروبار کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ اس کو ٹیکس میں بھی غیر معمولی سہالیات دی جاتی ہیں لیکن ڈبیا پر لکھ دیا جاتا ہے خبردار اس سے کینسر پھیلتا ہے اور یہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔سب کو معلوم ہے انتخابات کا خرچہ کروڑوں میں ہوتا ہے لیکن انتخابی قانون میں اس کی ایک ایسی حد مقرر کر دی گئی ہے جس سے پنڈ مکو بار ایسوسی ایشن کا الیکشن بھی نہیںلڑا جا سکتا۔ جھوٹے سرٹیفکیٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرا دیے جاتے ہیں اور وہ قبول فرما لیتے ہیں۔ کہیں ہم سب منافق تو نہیں؟کبھی آپ نے سوچا ہمارے فکری تضادات کتنے گہرے اور ہماری گرہیں کتنی شدید ہیں۔