ایک طرف مولانا فضل الرحمن آزادی مارچ کے لئے دوڑ رہے ہیں اور اس کے لئے مختلف سیاسی دروازوں پر دستک دے رہے ہیں اور دوسری طرف میرے نہایت عزیز دوست اور دانشور جناب خورشید ندیم علمی سنجیدگی کے ساتھ مذہب کو سیاست سے الگ کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ خورشید ندیم صاحب نے ایک معاصر میں اوپر تلے اس موضوع پر کئی کالم تحریر کئے ہیں۔ چند روز قبل ’’مسئلہ کشمیر کی مذہبی تفہیم‘‘کے عنوان سے ان کا جو کالم چھپا ہے‘ اس میں انہوں نے بہت ہی فکر انگیز باتیں لکھیں کہ مجھ ایسے طالب علم کو خاصی عرق ریزی سے کام لے کر نفس مضمون تک رسائی حاصل کرنا پڑی۔ اگرچہ ہمارے 80لاکھ سے زائد بھائی اس وقت تاریخ کے بدترین کرفیو اور قتل و غارت گری کا شکار ہیں۔ کشمیریوں کے جواں ہمت بوڑھے قائد علی گیلانی پاکستان اور امت مسلمہ کو مدد کے لئے پکار رہے ہیں ‘اس لئے یہ وقت عملی اقدام کا ہے ناکہ نظری بحثوں کا۔ تاہم اگر بات چھڑ ہی گئی ہے تو اپنا نقطہ نظر بصد ادب پیش کر رہا ہوں۔جناب خورشید ندیم اپنے مذکورہ کالم میں لکھتے ہیں’’میں مسئلہ کشمیر کی مذہبی تفہیم کو خود کشمیریوں کے لئے خطرناک سمجھتاہوں اس کا پہلا نتیجہ اس کی عالمگیر عوامی حمایت سے محرومی ہے جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف پیدا ہوئی‘‘ سوال یہ ہے کہ بحث بظاہر بے محل محسوس ہوتی ہے کہ کون مسئلہ کشمیر کی مذہبی تفہیم کر رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر ایک خالصتاً سیاسی اور قانونی مسئلہ ہے۔ سکیورٹی کونسل کی قرار دادوں اور عالمی اداروں کی یقین دہانیوں اور بین الاقوامی کمیونٹی کے ’’اظہار ہمدردی‘‘ سے تمام کشمیری یہی اپیل کر رہے ہیں کہ اپنے وعدے کو پورا کرو ‘اپنے وعدے کو ایفا کرو ۔اور انسانی حقوق کی پامالی بند کرائو ۔مسئلہ کشمیر کی قانونی و سیاسی تفہیم کے لئے ایک بار پھر تاریخی حقائق کو ذہن میں تازہ کر لینا چاہیے۔25اکتوبر 1947ء کو مہاراجہ ہری سنگھ نے کشمیر کی اکثریتی مسلم آبادی کی خواہشات کو نظر انداز کر کے اس کا الحاق بھارتی یونین سے کر دیا۔ بھارت نے ملی بھگت کے ساتھ 27اکتوبر 1947ء کو ہوائی جہازوں سے کشمیر میں فوجیں اتار دیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے گورنر جنرل کی حیثیت سے نوزائیدہ مملکت کے آرمی چیف جنرل گریسی کو حکم دیا کہ وہ فوراً فوج کشمیر میں بھیجے۔ جنرل گریسی نے کچھ فنی عذر پیش کر کے پاکستانی فوج کو کشمیر میں داخل کرنے سے معذرت کی۔ بعدازاں لارڈ مائونٹ بیٹن نے لاہور میں قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کی۔ مائونٹ بیٹن اس وقت تک انڈیا کے گورنر جنرل تھے‘ انہوں نے بھارتی فوجیں کشمیر سے واپس بلانے سے انکار کیا۔ اکتوبر 1947ء میں کشمیر میں باقاعدہ جنگ چھڑ گئی۔ پاکستانی فوج کے جوانوں کے ہاتھ پائوں تو ہندوستانی و استعماری سازش نے باندھ رکھے تھے مگرمجاہدین نے کشمیر جا کر اپنی زنگ آلود بندوقوں اور جذبہ ایمانی کے ساتھ بھارتی فوج کے دانت کھٹے کر دیے اور یوں کشمیر کا تقریباً ایک تہائی حصہ آزاد کروا لیا جو آج آزاد کشمیر کے نام سے دنیا میں الگ ریاست کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔جب 1947ء میں بھارتی افواج اور پاکستانی مجاہدین کے درمیان جنگ میں مجاہدین کا غلبہ یقینی نظر آنے لگا تو پنڈت جواہر لعل نہرو بھاگے بھاگے سکیورٹی کونسل پہنچے اور جنوری 1948ء میں انہوں نے کشمیر میں جنگ بندی کی درخواست کی۔ 20جنوری 1948ء کو سلامتی کونسل نے ایک کمشن مقرر کیا جس کا نام تھا انڈیا پاکستان کمشن برائے کشمیر۔ کمشن کا کام یہ تھا کہ وہ مسئلے کی نوعیت واضح کرے اور اس کا حل پیش کرے۔21اپریل 1948ء کو سکیورٹی کونسل نے ایک اور قرار داد منظور کی جس میں یو این او کے سیکرٹری جنرل کو ہدایت کی گئی کہ وہ کشمیر میں رائے شماری کے لئے ایڈمنسٹریٹر مقرر کرے۔13اگست 1948ء کو سکیورٹی کونسل نے ایک اور قرار داد منظور کی جس میں انڈیا اور پاکستان سے کشمیر میں سیز فائر کرنے کی اپیل کی گئی اور پاکستان سے کہا گیا کہ وہ اپنی فوجیں واپس بلائے ۔اس موقع پر سکیورٹی کونسل نے وہی بددیانتی دہرائی جو لارڈ مائونٹ بیٹن نے کی تھی اگر اس موقع پر سکیورٹی کونسل پاکستان کے ساتھ انڈیا کو بھی اپنی افواج واپس بلانے کا حکم دیتی اور یو این او کی فوج کے تحت رائے شماری کروا دیتی تو مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل ہو جاتا مگر جان بوجھ کر ایسا نہ کیا گیا۔ پھر 1951ء تک سکیورٹی کونسل نے کشمیریوں اور پاکستان کی اشک شوئی کے لئے متعدد قراردادیں منظور کیں مگر ان میں سے عمل کسی ایک پر بھی نہیں ہوا۔ اب مودی نے بزورشمشیر کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی مذموم کوشش کی ہے‘ جس کے خلاف اہل کشمیر نے علم بغاوت بلند کر رکھا ہے۔ میں نے ان تاریخی حقائق کو اس لئے دہرایا تاکہ واضح ہو سکے کہ مسئلہ کشمیر خالصتاً سیاسی و قانونی مسئلہ ہے۔ کشمیری اپنا سیاسی و قانونی حق مانگ رہے ہیں یہاںمسئلہ کشمیر کی کسی ’’مذہبی تفہیم‘‘ کی جب کوئی بات نہیں کر رہا تو پھر اس پر بحث کیوں؟ فاضل کالم نگار نے وفاقی وزیر علی محمد خان کی غزوہ ہند کے بارے میں ایک ادھوری اور جذباتی بات کو جواز بنا کر پہلے ’’مسئلہ کشمیر کی مذہبی تفہیم‘ کا مسئلہ اٹھایا جو میرے خیال میں بلا ضرورت تھا اور پھر مذہب کی سیاست میں ’’مداخلت‘‘ کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے خاصہ بے محل دکھائی دیتا ہے۔ میرے دانشور بھائی تحریر فرماتے ہیں ’’کہ مذہب جب اقتدار کی کشمکش میں فریق بنتا ہے تو پھر اپنے جوہر سے محروم ہو جاتا ہے۔ مذہب کا جوہر کیا ہے؟ انسان کے اخلاقی وجود کا تزکیہ۔ اہل مذہب نے اقتدار کو اپنا مقصد بنایا تو معاشرہ کیا تبدیل ہوتا‘ اقتدار کی کشمکش میں اس کا اپنا اخلاقی وجود ہی تحلیل ہو گیا‘‘ یہ ہے وہ بنیادی مغالطہ جو مغرب میں ریاست اور کلیسا کی کشمکش کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے۔ بلا شبہ اخلاقی تزکیہ اور اخلاقی بالیدگی ہی کسی مذہب کا جوہر حقیقی ہے۔ اسلام سے پہلے اور آج کی ’’جدید دنیا‘‘ میں مذہب کو انسان کی زندگی کا محض ایک ضمیمہ یا ایک سقم سمجھا جاتا ہے یہ جزو ہے کل نہیں۔ اس حوالے سے مفکر اسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اپنی کتاب اسلامی ریاست میں لکھتے ہیں’’آپ ؐ نے بتایا کہ مذہب قطعاً بے معنی ہے اگر وہ انسان کی زندگی کا محض ایک شعبہ یا ضمیمہ ہے۔ حقیقت میں دین وہ ہے جو زندگی کا ایک جز نہیں بلکہ تمام زندگی ہو‘ زندگی کی روح اور اس کی قوت محرکہ ہو۔ یہ جس قدر خدا اور انسان کے تعلق سے بحث کرتا ہے‘ اسی طرح انسان اور ساری کائنات کے تعلق سے بھی ۔ مذہب کی دنیا میں یہ ایک انقلابی تصور تھا اور جاہلیت کے ضمیر سے بنے ہوئے دماغوں کی گرفت میں یہ تصور کبھی پوری طرح نہ آ سکا‘‘ محمد عربی ؐنے مذہب کے قدیم محدود تصور کی مکمل نفی کر کے دین اسلام کا نہ صرف جدید تصور پیش کیا بلکہ اس کی اساس پر تہذیب و تمدن کا ایک مکمل نظام قائم کر کے اور ریاست مدینہ کی شکل میں اسے چلا کر دنیا کے لئے ایک قابل تقلید نمونہ اور ایک انمول ورثہ چھوڑا۔ جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر خالصتاً ایک سیاسی ‘ قانونی اور انسانی مسئلہ ہے۔ البتہ ایک کروڑکی تعداد میں جو کشمیری ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں وہ مسلمان ہیں۔ قرآن پاک میں حکم ہے کہ اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کرو اور انہیں ظلم سے نجات دلائو اور حدیث میںارشاد مصطفی ؐ ہے کہ مسلمان آپس کی محبت و مودت کے حوالے سے ایک جسم کی مانند ہیں۔ جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا بدن تڑپتا ہے۔ اس حوالے سے مسئلہ کشمیر ایک ’’مذہبی‘‘ مسئلہ بھی ہے۔