اس وقت تین بلائیں ہیں جو پاکستان کو گھیرے میں لئے ہوئے ہیں۔1۔ایک تو کورونا جس کے بارے میں عالمی ادارے کہتے ہیں کہ ہم اس کا بندوبست کرنے میں پھسڈی نکلے ہیں۔ ایشیا پیسفک میں وطن عزیز خطرناک ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے اور ہم نے جس طرح اس بیماری کا مقابلہ کیا اس میں جو چاہیں ہم کہیں وگرنہ اس معاملے میں ہمارا نمبر بہت پیچھے ہے۔ سو سے بھی پیچھے۔ غالباً 137واں ۔بنگلہ دیش ‘ بھارت سب کے حالات ہم سے بہتر ہیں۔ اب صورت حال یہ آن پہنچی ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے ہمارے صوبوں کو خط لکھے ہیں کہ تمہاری حالت بہت نازک ہے۔۔ لاک ڈائون ختم کرنے یا نرم کرنے کی 6شرائط ہیں۔ آپ ایک ہی پوری نہیں کرتے۔ آپ کے ہاں متاثرین کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر ہو گئی ہے آپ کو زیب نہیں دیتا کہ آپ لاک ڈائون میں نرمی برتیں۔اب مناسب ہے کہ آپ دو ہفتے تک لاک ڈائون کریں پھر دو ہفتوں کے لئے یہ پابندی ختم کر دیں۔وگرنہ بڑی تباہی پھیلے گی۔ ہمارے فلسفی اور مدبر وزیر اعظم نے فوراً جواب دیا کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ تمہیں ہماری صورت حال کا کیا پتا۔ لاہور کی یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم نے اپنی تشویش اس طرح ظاہر کی ہے کہ ہر ایک گھنٹے میں چار افراد اس وبا کے ہاتھوں لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ چند روز پہلے جب لاک ڈائون سمارٹ ہوا تھا اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ پوچھنے لگ گئے تھے کورونا نام کی کوئی بیماری ہے بھی یا نہیں۔ کہیں یہ سب کوئی بہانہ تو نہیں‘ چالبازی تو نہیں‘ بین الاقوامی طور پر پیسے بٹورنے کا حیلہ تو نہیں۔ شاید اس طرح ہمارے کشکول میں کوئی کچھ ڈال دے۔ اب مگر یہ حال ہے جو ملتا ہے وہ بتاتا ہے کہ اس کا کوئی عزیز یا شناسا اس بیماری کا شکار ہے حتیٰ کہ سپریم کورٹ کے ایک جج نے بہت معنی خیز جملہ کہا کہ اب تو اس کی حدت ہم بھی محسوس کرنے لگے ہیں۔ حکومت ہے مگر مان کے نہیںدے رہی۔ ان کی مدبرانہ بصیرت کے سامنے عالمی ماہرین کیا بیچتے ہیں۔ پانی بھرتے ہیں۔ جی ۔ پانی۔ 2۔دوسرا عفریت جو پنجے پھیلائے ہماری طرف بڑھ رہا ہے وہ بجٹ کا بھوت ہے جو گویا ہمارے سروں پر سوار ہے ہم اس بات پر چیختے تھے کہ غیر منتخب نمائندے ہمارے خزانے کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ ایسے لوگ جو عوام کو کسی صورت جوابدہ نہیں ہیں۔ویسے تو ہر میدان میں یہ ہو رہا ہے۔ شام کو روز ظفر مرزا اور شہزاد اکبر ہمارا دماغ کھاتے ہیں۔دونوں کی باتیں اذیت ناک ہوتی ہیں۔ ایک جو ہماری صحت کا انچارج ہے اب اسے حوالہ نیب کرنے کی بھی خبر آئی ہے۔ اس شعبے کا منسٹر بدلا گیا تھا‘ سیکرٹری تبدیل ہوا یہ صاحب جانے کہاں سے آئے ہیں دوسرے شہزاد اکبر‘اللہ معاف کرے۔ عدالت نے ان کے اور چھورکے بارے میں پوچھا ہے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ اب ایک معید یوسف آ گئے ہیں کہاں سے آئے ہیں کیسے آئے ہیں۔ رہی سہی کسر شہباز گل نے پوری کر دی ہے۔ پولے سے منہ کے ساتھ ایک کہانی لے کر یہ بھی بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر ہمارا میڈیا اتنی ہی ہمت دکھاتا کہ غیر منتخب لوگوں کو سکرین نہ دیتا تو بڑا فرق پڑتا۔ ویسے کیا پڑتا؟منتخب بولنے والے بھی کم نہیں ہیں۔ فیصل واوڈا‘ علی زیدی‘ مراد سعید کوئی کمی نہیں‘ مولا‘تیری گلی میں۔ خیر میں بجٹ کی بات کر رہا تھا۔ بھٹک گیا اور غیر منتخب گلیوں کی بھول بھلیوں میں کھو گیا۔ میں ایک بار پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ پہلے یہ بات آیا کرتی تھی کہ آئی ایم ایف کی ٹیم سٹیٹ بنک اور وزارت خزانہ میں بیٹھی ہوئی ہے۔ اسے چھپایا جاتا تھا۔ اب صاف کہا جا رہا ہے کہ ہمارا اس بار کا بجٹ آئی ایم ایف بنائے گی۔ بتایا گیا کہ آئی ایم ایف کمال مہربانی سے تیار ہو گیا ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں حکومت پاکستان اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں ذرا سا اضافہ کر لے۔شرح نمو یا ترقی کا ہدف 2اعشاریہ کچھ رکھا گیا ہے مجھے اس پر بھی اعتبار نہیں ہے۔ ہماری تابعدار حکومت اس بات کی کوشش کرے گی کہ یہ ایک فیصد کے لگ بھگ ہی رہے تو اچھا ہے۔ ترقیاتی بجٹ‘ افراط زر اور خسارے کی جو حد بتائی جا رہی ہے وہ صاف بتا رہی ہے کہ معیشت کا کباڑا ہوتا جا رہا ہے۔ یہ جو فخر سے بتایا جاتا ہے کہ ہم نے درآمدات و برآمدات کا خسارہ کم کر دیا ہے تو اس کا جو نقشہ ہے وہ قابل فخر نہیں ہے۔ یہ فرق برآمدات بڑھانے سے نہیں ہوا۔ ہم نے ڈالر کی قیمت کو آسمانوں تک پہنچا دیا ہے اس خیال سے کہ ایکسپورٹ میں اضافہ ہو گا۔104روپے کا ڈالر 164کا ہو گیا مگر ایکسپورٹ ہے کہ بڑھ کر نہیںدیتیں۔ دوسری طرف امپورٹ کم ہو گئی یہ بھی خوشی کی بات نہیں۔ کوئی اس کا بریک اپ دے۔کم اس لئے ہوئیں کہ انرجی کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے جو مشنری آئی تھی۔ اب نہیں آئی۔ ہم مینوفیکچرنگ کر ہی نہیں رہے۔ پیداواری شعبہ کام ہی نہیں کر رہا ہمیں انرجی کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہمیں خام مال بھی نہیں چاہیے باقی آپ نے بچت کیا کی ہو گی۔ میں بتاتا ہوں آج کل گھڑیاں سیل سے چلتی ہیں۔ معمولی چیز ہے۔ بازار میں یہ سیل دستیاب ہی نہیں ہیں۔ آتے ہی نہیں۔ کوئی منگواتا ہی نہیں۔یہ بچت ہے یا بدانتظامی۔ 3۔ بد انتظامی کی تیسری مثال تو بہت ہولناک ہے۔ اس سے ہمیں اپنی بہتری سب سے بڑی مصیبت کا پتا چلتا ہے۔ یہ مصیبت مہنگائی کی صورت میں ہم پر مسلط ہے۔ تین مسئلے پیدا ہوئے اور اس حکومت نے ثابت کر دیا کہ وہ کسی کام کی نہیں ہے۔ چینی ناپید ہوئی تو اعلان کر دیا کہ کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ پہلے بتایا ہمارے دونوں بندے اس میں ملوث نہیں ہیں نہ جہانگیر ترین نہ خسرو بختیار۔ پھر بات کو اتنا پھیلا دیا کہ مہنگائی کا مسئلہ باقی رہا۔چینی 55روپے سے 85اور 90تک جا پہنچی اور ہم صرف نعرے لگا رہے ہیں۔ چھوڑیں گے نہیں۔ عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کس نے کتنا زرتلافی دیا۔ عوام صرف یہ پوچھتی ہے کہ چینی سستی کیوں نہیں ہو پا رہی اور مہنگی کیوں ہوئی تھی۔ شاہد خاقان عباسی نے سبسڈی دی تھی تو چینی ایک دمڑی بھی مہنگی نہ ہوئی تھی۔ تم نے شور مچایا‘ کمشن بنایا‘ یوٹیلیٹی سٹور کو زرتلافی دیا مگر معلوم ہوا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ رک نہ سکا۔ آج تک مہنگی بک رہی ہے اور دھڑلے سے بک رہی ہے۔ آپ ہیں کہ کمشن پر کمشن بنائے جا رہے ہیں۔ دوسرا مسئلہ گندم اور آٹے کا ہے ہدایت کر دی گئی ہے قیمتیں معمول پر آ جائیں گی۔ بتایا گیا پنجاب نے ہدف پورا کر لیا۔45لاکھ ٹن‘ وفاق اور سندھ کے ہدف کا کیا بنا یہ کوئی نہیں بتاتا۔ آٹا ہماری بنیادی ضرورت ہے۔ ہم گندم کھانے والی قوم ہیں۔ اس کی قیمتیں نئی فصل آنے کے باوجود ہر روز بڑھتی جا رہی ہیں اور حکومت نے نجی شعبے میں کھلے عام گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ گزشتہ سال ہم نے برآمد کی تھی یعنی باہر بھیجی تھی۔ ایکسپورٹ کی تھی اب باہر سے منگوا رہے ہیں۔ یہی تو ایک ہمارا نکتہ افتخار تھا کہ ہم خوراک میں کئی برس سے خودکفیل تھے اس برس اس سے بھی گئے اور یہ نہیں کہ حکومت خود گندم منگوا کر قیمتوں پر کنٹرول کرے اس نے نجی شعبے کو اجازت دے دی ہے۔ خود بری الذمہ ہو گئی ہے۔ شور مچانے کے باوجود گندم‘ آٹا ‘ نان ‘ روٹی کی قیمتیں ہم معمول پر نہیں لا پا رہے۔ گندم سرکاری قیمت خرید1400روپے من ہے اور نجی شعبے میں یہ 1800سے 2000روپے تک خریدی جا رہی ہے۔ ہماری کوئی کل بھی تو سیدھی نہیں ہے۔ اور تیسری آزمائش ہماری پٹرول کی آئی۔ ہم نے عالمی قیمتوں کے مطابق پٹرول سستا کرنے کا اعلان کیا‘ بازار سے پٹرول نایاب ہو گیا۔ منگل کے منگل کابینہ کا دربار شاہی سجتا ہے اس میں حکم صادر ہوا کہ 48گھنٹے میں پٹرول دستیاب کرو۔ دیکھیں کیا بنتا ہے ہم جس چیز پر ہاتھ رکھتے ہیں وہ آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہے جو حکومت چینی‘ آٹا‘ پٹرول پر قابو نہ پا سکے وہ نظام حکومت کیا چلا سکے گی۔تین بلائیں ہیں اور آخری بلا کے تین رخ ہیں۔ ہم ہر ایک میں پٹ رہے ہیں۔ کیا مدبرانہ شان ہے ہماری!