راولپنڈی (مانیٹرنگ ڈیسک)پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے فوجی عدالتیں پاک فوج کی خواہش نہیں بلکہ یہ قو می ضرورت تھیں ، پارلیمنٹ نے قومی سیاسی اتفاق رائے سے فوجی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی تھی ، اگر پارلیمنٹ نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کافیصلہ کیا تو یہ عدالتیں آگے اپنا کام جاری رکھیں گی تاہم یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ملک کا فوجداری نظام اب موثر ہو گیا ہے ؟ نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا پاکستان میں دہشتگردی کی لہر تھی جس کے خلاف 2008 سے آپریشنز میں تیزی آئی ۔ ملٹری کورٹس کا فیصلہ پارلیمنٹ نے قومی سیاسی اتفاق رائے سے لیا تھا اور یہ دو مرتبہ پارلیمنٹ نے یہ فیصلہ کیا ۔ دہشتگردی کے خلاف ہم نے 20 سال سے جنگ لڑی ۔ 21 ویں ترمیم کے تحت دوبار2،2 سال کے لئے ملٹری کورٹس کے قیام کی منظور ی پارلیمنٹ نے دی تھی اب اگر تیسری بار فوجی عدالتیں بھی برقرار رہیں گی تو یہ بھی فیصلہ پارلیمنٹ ہی کرے گی ۔ سانحہ اے پی ایس پشاور کے بعد سیاسی اتفاق رائے سے پارلیمنٹ کی منظور ی کے بعد فوجی عدالتیں بنی تھیں ۔ انہوں نے کہا اپنے قیام کے 4 سال کے دوران فوجی عدالتوں میں 717 مقدمات آئے ۔ 4 سال میں ملٹری کورٹس نے 646 کیسز کے فیصلے کئے ، 345 مجرمان کو موت کی سزا سنائی ۔ فوجی عدالتوں سے سزا ملنے پر 56 مجرمان کو پھانسی ہوئی ۔ فوجی عدالتوں کو مقدمات طویل طریقہ کار کے تحت آتے ہیں ۔انہوں نے کہا فوجی عدالتوں کا تعلق لاپتہ افراد یا دیگر ایسے معاملات سے کوئی نہیں ۔ فوجی عدالتوں نے دہشتگردوں اور ان کے سہولت کاروں پر خوف طاری کیا ۔ فوجی عدالتوں کے باعث دہشتگردی میں نمایاں کمی آئی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہمیں کریمنل جوڈیشل سسٹم کودیکھنے کی ضرورت ہے ۔ امید ہے اس ا س کے بعد فوجی عدالتوں کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ ایک سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ ملٹری کورٹس میں 90 فیصد کیسز کو روکا نہیں جاتا بلکہ عمل کے بعد یہ سلسلہ آگے چلتا رہتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں بھی ملزمان کو صفائی کا موقع ملتا ہے ۔ اچھا ہے کہ سول کورٹس ان سزائوں کو دیکھ لیتی ہیں ۔ یہ ہمارے لئے ایک اضافی ذمہ داری ہے ۔ پارلیمنٹ چاہے تو ہمیں یہ ذمہ داری دے دے اور اگر نہ چاہے تو نہ دے ۔