کیا مولانا خود کو نوابزدہ نصراللہ خان کا جانشین ثابت کرپائیں گے؟ مگر مولانا میں کچھ کچھ اوصاف مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان والے ضرور ہیں۔ ع اس میں بھی کچھ تو ہے تیری بو باس کی طرح نوابزادہ صاحب کی ساری زندگی دو الفاظ کی گرد گھومتی رہی۔ جمہوریت اور اتحاد۔ نوابزادہ صاحب کی سیاسی زندگی کا آغاز 1930ء میں ہوا۔ جب سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے مجلس احرار اسلام قائم کی تو نوجوان نوابزادہ اس کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ وہ 1952ء میں ممبر صوبائی اسمبلی اور پھر 1962ء میں قومی اسملی کے رکن منتخب ہوگئے۔ 1964ء کے صدارتی الیکشن میں انہوں نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی کامیابی کے لیے دوسری اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر زبردست مہم چلائی۔ پہلے انہوں نے ایوب خان کے خلاف بحالی جمہوریت کے لیے اپوزیشن کا اتحاد قائم کیا۔ پھر 1977ء میں بھٹو کے دھاندلی زدہ انتخابات کے خلاف اکثر سیاسی جماعتوں کو متحرک کیا۔ جب اپوزیشن اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان معاہدہ تقریباً طے پا گیا بس صرف دستخط ہونا باقی تھے تو جنرل ضیاء الحق مرحوم نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ 1993ء میں نوابزادہ صاحب پھر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے انہوں نے بحالی جمہوریت کے لیے اے آر ڈی کے نام سے ایک اتحاد قائم کروایا اور یہی ان کی زندگی کا آخری سیاسی اتحاد ثابت ہوا۔ نوابزادہ صاحب کا ایک کمال یہ تھا کہ وہ آزادی اظہار پر لگنے والی قدغنوں کو خاطر میں نہ لاتے اور ان کے توڑ کے لیے شعر و ادب کا پیرایہ اظہار تلاش کرلیتے۔ وہ بہت اچھی غزل کہتے تھے اور باقاعدہ سکہ بند شاعر تھے اور خوب داد سمیٹتے تھے۔ جب سیاسی حبس بہت بڑھتا تھا تو نوابزادہ صاحب اس طرح کے اشعار کہتے تھے: کتنے بے درد ہیں صرصر کو صبا کہتے ہیں کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیاء کہتے ہیں غم نہیں گر لب اظہار پر پابندی ہے خامشی کو بھی تو اک طرز نوا کہتے ہیں یوں تو مولانا فضل الرحمن اور نوابزادہ صاحب میں کئی مماثلتیں ہیں۔ ان میں سب سے بڑی مماثلت تو یہ ہے کہ مولانا بھی مرحوم نوابزادہ کی طرح ہر سیاسی جماعت اور ہر دینی مکتب فکر تک رسائی رکھتے ہیں اور حسن کلام سے دوسروں کو اپنے شیشے میں اتار لیتے ہیں۔ البتہ کئی مماثلتوں کے باوجود مولانا اور نوابزادہ مرحوم کے درمیان ایک بنیادی اختلاف بھی ہے اور وہ یہ کہ نوابزادہ صاحب کی ساری زندگی بحالی جمہوریت کے دشت کی سیاحی میں گزری اور ایک مختصر سے وقفے کے علاوہ وہ کبھی اقتدار سے وابستہ نہیں ہوئے جبکہ مولانا فضل الرحمن کہ سیاسی زندگی کا بیشتر حصہ اقتدار کے قرب سے فیض یاب ہونے میں گزرا۔ تاہم اس بار مولانا نے اپنے لیے ایک کٹھن راستے کا انتخاب کیا ہے۔ اس راستے میں دوچار بہت سخت مقامات بھی آتے ہیں۔ عمران خان کی کامیابی کے ساتھ ہی مولانا اس کے خلاف اتحاد قائم کرنے کے لیے سرگرم عمل ہو گئے تھے۔ حکومت کے قیام کے کچھ مدت کے لیے انہوں نے بظاہر خاموشی اختیار کی مگر پس پردہ وہ اپنے مشن کے لیے ہوم ورک کرتے رہے۔ یہ اس ہوم ورک کا نتیجہ ہے کہ بظاہر انہونی ہونی ہو گئی ہے۔ آصف علی زرداری سے جو دوست بے تکلفی کے ماحول میں گزشتہ دو تین سال کے دوران ملے ان کا کہنا یہی تھا کہ زرداری صاحب اپنے اور اپنے ساتھیوں پر آنے والے تمام مصائب کا بنیادی سبب میاں نوازشریف کو سمجھتے ہیں اور اس عرصے کے دوران وہ میاں صاحب کی تمام تر کوششوں کے باوجود ان سے براہ راست اور نہ ٹیلی فون پر رابطے کے لیے تیار ہوئے۔ محترمہ کلثوم نواز کی تعزیت کے لیے وہ اور بلاول بھٹو جاتی عمرہ ضرور گئے مگر یہ ایک خالصتاً غیر سیاسی ملاقات تھی۔ بہرحال مولانا فضل الرحمن کی مسلسل تبلیغ کے نتیجے میں دو روز پہلے زرداری صاحب نے باقاعدہ ایک بیان میں یہ کہا کہ اگرچہ ان پر میاں صاحب کی ’’نوازشات‘‘ بہت ہیں مگر وہ جمہوریت کے استحکام کے لیے میاں صاحب کے ساتھ ملاقات کے لیے تیار ہیں۔ میاں نوازشریف نے نیب کورٹ کی پیشی کے موقع پر اس سوال کا کوئی جواب نہ دیا اور کہا کہ مریم اورنگزیب اس کا جواب دیں گے۔ تاہم گزشتہ دو دنوں میں زرداری صاحب سے مولانا کی ملاقات ہوئی اور میاں نوازشریف کے ساتھ یوسف رضا گیلانی کی نشست ہوئی۔ اس دوطرفہ پیش رفت کے بعد اب آل پارٹیز کانفرنس کی بات کی جا رہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ 31 اکتوبر اس کانفرنس کے انعقاد کا امکان ہے۔ اگرچہ ابھی تک حالات کی خرابی اس حد تک نہیں پہنچی کہ جہاں ایک بھرپور احتجاجی تحریک کے لیے فضا سازگار ہوتی ہے۔ عمران خان کی حکومت کے پائوں کی زنجیر ان کے لیے اور ان کی فرنٹ لائن ٹیم کے وہ بیانات ہیں جو انہوں نے ماضی بالخصوص انتخابی مہم کے دوران بڑے جوش جذبے سے دیئے تھے مثلاً انہوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ سابق حکومتیں نااہلی اور کرپشن کی بنا پر آئی ایم ایف کے پاس جاتی تھیں اور ملک پر مزید قرضوں کا بوجھ لاد دیتی تھیں۔ عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم کشکول گدائی لے کر در در بھیگ ماگتے ہیں اور ملکی وقار کا کوئی خیال نہیں رکھتے۔ سعودی عرب روانگی سے قبل عمران خان نے برطانوی نیوز ویب سائٹ کو ایک انٹرویو میں کہا کہ دوست ممالک سے مالی معاونت اور آئی ایم ایف سے قرض کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہم سعودی عرب سے قرض لینے کے خواہشمند ہیں۔ ہمارے عزیز ترین دوست سعودی عرب نے ہمارے کشکول گدائی کی لاج رکھی اور تین بلین ڈالر ہمارے اکائونٹ میں رکھنے اور 3 ارب ڈالر کا تیل ادھار پر دینے کی حامی بھری ہے۔ بدحالی کا شکار ہوتی ہوئی معیشت کے لیے یہ قرضہ ایک بڑا سہارا ثابت ہوگا۔ اس معاشی بہتری کا سیاسی صورت حال پر بھی مثبت پڑے گا۔ پی ٹی آئی کے خلاف تحریک کا انحصار عمران خان کی غلطیوں پر ہے۔ وزیراعظم جتنی زیادہ غلطیاں کریں گے اتنا ہی اپوزیشن کا کام آسان ہوگا۔ اگر عمران خان سنبھل جاتے ہیں اور گورننس، مہنگائی اور اپنی جماعت کے داخلی اختلافات اور گروپ بندی پر قابو پا لیتے ہیں تو احتجاجی تحریک کے شعلے بھڑکانے والوں کو ایندھن فراہم نہیں ہوگا اور اگر خان صاحب اپوزیشن کو سانس لینے اور اپنا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم نہیں کرتے اور ساری اپوزیشن کو چور چور کہنے گی گردان جاری رکھتے ہیں تو پھر وہ بالواسطہ طور پراپنے مخالفین کے کام کو آسان کرنے کا باعث بنیں گے۔ عمران خان کے بعض قریبی دوستوں کا یہ کہنا ہے کہ خان صاحب کا خیال ہے اگر وہ اپوزیشن کو ٹف ٹائم نہیں دیتے اور ان سے ’’رسم و راہ‘‘ بڑھاتے ہیں تو اس کا ان کے نوجوان ووٹ بینک پرمنفی اثر پڑے گا۔ خان صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ انتخابی مہم کی فضا اور ہوتی ہے اور کار جہاں گیری کے تقاضے اور ہوتے ہیں۔ اس وقت تک خان صاحب نے جو غیر مقبول فیصلے کئے ہیں ان میں وہ اقدامات ہیں کہ جو لوگوں کو نیا روگار مہیا کرنے سے پہلے انہیں جاری روزگار سے محروم کرنے کے فیصلے ہیں۔ پہلے ریڈیو پاکستان کے خاتمے کا اعلان کیا گیا جب ردعمل سامنے آیا تو پھر فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ اب گزشتہ دو دنوں سے اسلام آباد میں سارے پاکستان کے یوٹیلیٹی سٹورز کے ہزاروں ورکرز کا دھرنا ہے جن کے بارے میں یہ کہا گیا کہ اس میں سبسڈی دی جاتی ہے لہٰذا ہم ان سٹورز کو ختم کر کے پرائیویٹائز کردیں گے۔ اسی طرح توگوں کے ملکیتی کچے پکے گھر گرائے جا رہے ہیں اور مستقبل میں انہیں تعمیر شدہ گھر مہیا کرنے کی نوشد سنائی جا رہی ہے مگر جو سردست اپنی محبت اور اپنے آشیانے سے محروم ہو چکے ہیں وہ بے آسرا لوگ کہاں جائیں گے، اس کے بارے میں حکومت نے کچھ نہیں بتایا۔ اسی طرح روپے کی قدر کے گرنے اور ڈالر کے ایک سو روپے سے ایک سو پینتیس تک نرخ بڑھنے، گیس کے مہنگا ہونے اور بجلی کے مہنگے ہونے کی خبروں سے مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے۔ اسی طرح لاہور اور اسلام آباد میں لاکھوں غریب لوگ طلبہ و طالبات اور سفید پوش شہری میٹرو پر سفر کرتے ہیں، اگر اس کے کرائے بڑھا دیئے جاتے ہیں تو یہ غریبوں کے لیے ناقابل برداشت بوجھ ہوگا۔ حکومت امیروں سے ٹیکس وصول کرے اور غریبوں کو سبسڈی دے۔ یہی آج کی فلاحی جمہوری حکومتوں کی گڈگورنس کا ماڈل ہے۔ ہمارے سمیت کچھ دوستوں نے عمران خان کو آغاز حکمرانی میں ہی یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ کی مضبوطی اور اپنی حکمرانی پر توجہ دیں اور احتساب کو احتسابسی اداروں پر چھوڑ دیں۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے نیب کو سیاست زدہ قرار دیا اور کہا کہ وہ کچھ مقدمات میں پورا زور لگاتا ہے، کچھ کو پوچھتا نہیں۔ اپوزیشن کا تو ہمیں پتہ نہیں مگر عوام چاہتے ہیں کہ خان صاحب کو ان کے سارے خوابوں کی تعبیر کے لیے ضروری وقت ملے۔ خان صاحب اپوزیشن کے کام کو آسان نہ کریں اور ساری سیاسی سرگرمیوں کا مرکز اور محور پارلیمنٹ کو بنائیں ۔نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ ملک کے لیے جتنی حزب اقتدار اس سے بڑھ کر حزب اختلاف ضروری ہے۔ سمجھدار حکومتیں پارلیمنٹ کے ذریعے ملکی معاملات میں اپوزیشن کو پوری طرح شریک کرتی ہیں اور یوں اپنے اقتدار کو تسلسل بخشتی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا مولانا فضل الرحمن اپنے آپ کو مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان کا جانشین ثابت کرپاتے ہیں یا نہیں۔