تو اور تیرا فن، تب تک قیمتی تھا۔ جب تک مجھے تفریح مہیا کرتا رہا۔ اب تو ارزاں ہے۔ پنپنا تو دور، یہ رویے ہم میں سرایت کر چکے۔ چند روز قبل ٹی وی کی معروف اداکارہ نائلہ جعفری کا چاہنے والوں اور حکومت وقت کو ویڈیو پیغام سنا۔ جو کئی سالوں سے کینسر جیسے موذی مرض کو شکست دینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اب چونکہ بٹوا اور اکاؤنٹ دونوں ہی خالی ہیں۔ بھیک کی طلبگار نہیں، صرف اپنے ان ڈراموں کا معاوضہ طلب کر رہی ہیں جو دوبارہ نشر ہو رہے ہیں۔ کہنے کو تو یہ فنکار ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں، ثقافت کے امین ہیں، جنہیں ہم آخری وقت میں زندہ درگور کر دیتے ہیں۔ ایک دو نہیں، سبھی کے ساتھ یہی سلوک روا ہے۔ پھر کیا وہ فنکار ہوں، اداکار، کامیڈین، گائیک یا شاعر۔ شہنشاہ غزل مہدی حسن نے تمام عمر اپنی آواز کا جادو جگایا۔مگر آخری ایام کسمپرسی میں گزرے۔آخری آرام گاہ نہ صرف کچرا کنڈی، منشیات کا گڑھ بنی ہوئی ہے۔کچھ عرصہ قبل مہدی حسن کے بڑے صاحبزادے عارف مہدی حسن جو چند روز پہلے جہان فانی سے کوچ کر گئے، اس بات پر شدید غم زدہ تھے کہ حاکم نے کچھ مدد نہیں کی، ان کی خدمات کا حق ادا نہ کیا جا سکا تاکہ قبر کو بہتر حالت میں رکھا جا سکے۔ ماضی کی مشہور اداکارہ روحی بانو کی زندگی میں ایسی تلخی گھلی کہ حوش و حواس کھو بیٹھی۔دلوں پر راج کرنے والی روحی بانو سڑکوں پر بے یارو مددگار نظر آئی۔خود نہیں جانتی تھیں آخر کس کی تلاش میں ہیں۔ میڈیا پر ویڈیو، جنگل میں آگ کی طرح پھیلی مگر جسے مدد کو پہنچنا تھا وہ جان کر بھی انجان رہے۔ منا لاہوری المعروف "زکوٹا جن" کے ساتھ بے انصاف معاشرے نے کونسا انصاف کیا۔ غربت کے عالم میں آخری سانسیں بھریں اور کوچ کر گئے۔ نصرت آرا المعروف "بل بتوڑی "بھی اسی عالم میں آنکھیں موند گئیں۔ یہ وہ آرٹسٹ ہیں جن کا نعم البدل کبھی ٹیلی ویژن کی تاریخ میں نہ مل سکے گا۔ آہ! حبیب جالب، جسے بیساکھی کے طور پر اپوزیشن میں بیٹھنے والے سیاسی رہنماؤں نے اس لئے سہارے کے طور پر ساتھ رکھا تاکہ خود کو مضبوط کر سکیں۔ لوگوں کو ساتھ ملانے، جوش دلانے کے لئے انکی شاعری کو پڑھا۔ سیاست کے یہ کھلاڑی یہی تو سیکھتے ہیں کہ استعمال کیسے کرنا ہے۔ جب تک جالب کے نام کی بیساکھی چاہیے تھی، لیے پھرتے تھے، بوقت ضرورت کوئی انکی بیساکھی نہ بنا۔ یہ غربت کالے کوے کی مانند آج بھی انکی منڈیر پر کائیں کائیں کر رہی ہے۔ حبیب جالب کی بیٹی کی زندگی اس جملے کی عکاس ہے۔ مقصود حسن، سکندر سانم سمیت کئی بڑے نام اس تحریر میں شامل ہو سکتے ہیں،جو جب تک مسکراہٹیں بکھیرتے رہے، قابل قدر رہے۔ جہاں صحت چھوٹی، کام بھی بند ہوا ،حکومت نے سرد مہری برتی۔ کسی نے کیا خوب کہا۔ معاشرے میں آرٹسٹ نام کے چند لوگ اس لیے پیدا ہوتے ہیں کہ کہیں بے حس معاشرہ اپنی بے رنگی سے تنگ آکر اپنی موت خود ہی نہ مر جائے۔ یہ بڑے بڑے ایوارڈ شوز، آنکھیں چندیا دینے والی روشنیاں، خاص لوگوں پر مشتمل جم غفیر اور نہ جانے چمک دمک کے واسطے کیا کچھ۔ آرٹسٹ کی شان میں ایک لمبا قصیدہ اور پھر مستند شدہ ڈگری اس بات کا ثبوت کہ آپ کا فن قابل قدر ہے۔مگر ان سنہری تمغوں اور ان سندوں کا کیا کرنا جو آخری ایام یا بوقت ضرورت مدد گار ہی ثابت نہ ہو سکیں۔ کس کو معلوم نہیں کہ یہ تمغے بیچنے کو کئی فنکار اور ماضی کے کھلاڑی بازار میں ملے۔ جن کا ایک ہی مطالبہ تھا خریدار جو بھی مول لگائے،قابل قبول ہے۔ تقریبا دو سال قبل خیبر پختون خواہ میں اسی معاملے کو لے کر فنکاروں نے احتجاج بھی کیا کہ کوئی الاؤنس مختص ہونے چاہئیں تاکہ دلجوئی ہو سکے۔ کچھ عرصہ یہ سلسلہ برقرار رہا مگر پھر منقطع کر دیا گیا۔ شکوہ کناں سبھی فنکار ہیں تعلق چاہے کسی بھی علاقے سے ہو۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے، جدت نے پرانے فنکار ہوں یا اداکار، سب کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ جدیدیت مزید بہتری کی جانب جانے کا نام ہے لیکن یہ تو کسی بھی حکومت کی ذمہ داری ہے دلجوئی کرے، ان لوگوں کی جنہوں نے تمام عمر وقف کر دی لوگوں کے لئے۔ جس طور سرکاری ملازمین چاہے ملازمت کوئی بھی ہو ان کے لئے پنشن یا دیگر مراعات کا ایک سلسلہ ہوتا ہے، اسی طرز پرحکومت کو آرٹسٹوں کے لئے بھی ماہانہ بنیادوں پر کچھ وظیفہ مقرر کرنا چاہیے۔ اس سے زیادہ شرمناک کیا ہو گا کہ آرٹسٹ مدد کا طلبگار رہتا ہے۔ وہ لوگوں سے ہو یا پڑوسی ممالک سے۔ مہدی حسن کے بیٹے پڑوسی ملک سے مدد کے طلبگار رہے کیونکہ پاکستانی حکومت نے دلجوئی نہیں کی۔ جو اداکار کچھ حیثیت رکھتا ہے وہ کسی اور دیس کوچ کر جاتا ہے۔ کئی بڑے نام ہیں جنہوں نے اس شعبے کو خیر باد کہہ کر کچھ اور دال دلیا کر لیا۔ جس دم بستر مرگ پر بے یارو مددگار تالیوں کی گونج، چاہنے والوں کے تعریفی کلمات، بس ایک بار بات سے لے کر تصویر اتروانے کے لئے بے تاب عوام،آٹو گراف کے لئے اٹھنے والا شور کانوں میں گونجتا ہو گا، غم سے نمی کی بے قابو بوندیں بھی برستی ہوں گی۔اسی ایک لمحے میں فنکار خود سے کبھی تو سوال کرتا ہو گا۔ کیا میں اتنا ارزاں تھا؟ جواب ملتا ہو گا۔ تو اور تیرا فن تب تک قیمتی تھا، جب تک مجھے تفریح مہیا کرتا رہا۔ ہاں، اب تو اتنا ہی ارزاں ہے۔