آئن سٹائن کا کہنا تھا کہ Words are things ’’لفظ اشیا کی طرح ہوتے ہیں‘‘۔ ان کی اچھی ترتیب ابلاغ کا سبب بن جاتی ہے۔ ورنہ مفہوم اور ابلاغ دُھندلا جاتے ہیں۔ بات مشکل ہے … ہوسکتا ہے ابلاغ ہوجائے۔ ہمارے ہاں جمہوریت، سیاست، سول انتظامیہ اور لیڈرشپ پر مسلسل سوالیہ نشان مارک ہورہے ہیں۔ ماضی کے اسباق … حال کے تجربات۔ مرکزی سطح پر دو ادارے آج کل بڑا موثر پرفارم کررہے ہیں۔ NCOC نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر اور NLCC نیشنل لوکسٹ سنٹر۔ ہمارے وزیراعظم 4 جولائی کے دن NCOC میں گئے اور 10 جولائی کے دن NLCC میں۔ پچھلے چار ماہ میں یہ دونوں ادارے اچھے نتائج دے پائے۔ NCOC کو وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کنٹرول کرتے ہیں اور NLCC کو وزیر خوراک جناب فخر امام کنٹرول کررہے ہیں۔ دونوں اداروں کی کیمسٹری کچھ یوں ہے۔ NCOC کے چیف کوآرڈی نیٹر لیفٹیننٹ جنرل حمود الزمان ہیں او رانہیں اسسٹ میجر جنرل آصف محمود گورایا کر رہے ہیں۔ دونوں کا تعلق پاکستان آرمی کی ایئرڈیفنس کور سے ہے۔ NLCC کے چیف کوآرڈینیٹر لیفٹیننٹ جنرل معظم اعجاز ہیں اور ان کی معاونت میجر جنرل سعید اختر کررہے ہیں۔ ان دونوں کا تعلق پاک فوج کی انجینئرنگ کور سے ہے۔ اس کے علاوہ NCOC کے لیے 70 سے زیادہ آرمی آفیسرز کام کررہے ہیں۔ NLCC کے لیے انجینئرنگ کور کے بہت سارے افسران بھی۔ اس کے علاوہ ان دونوں اداروں میں سٹریٹجک اعتبار سے جو فیصلہ سازی ہوتی ہے اس میں وزیراعظم کے علاوہ چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد اسے سپروائز کرتے ہیں۔ ان دونوں کی پرفارمنس اور پالیسی کو دیکھتے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کے بعد ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن میجر جنرل نعمان زکریا ان دونوں اداروں کی بھی مدد کرتے ہیں اور مجموعی اعتبار سے سول انتظامیہ کی مدد بھی۔ یہ معاملات اور انتظامات اعلیٰ ترین سطح سے کافی نیچے تک سفر کرتے ہیں۔ یاد رہے جب کورونا نے پاکستان میں پنجے گاڑے تو پاکستان کا ہیلتھ سسٹم مکمل جواب دے گیا۔ NCOC نے اس ایمرجنسی میں جنگی بنیادوں پر اسے سنبھالا بھی اور سہارا بھی دیا۔ اور پھر لاک ڈائون کو موثر بنانے کے لیے فوج کو پھر سول انتظامیہ کی مدد کے لیے آگے آنا پڑا۔ ہزاروں فوجی جوان آگے بڑھے اور لاک ڈائون پر عمل درآمد کرایا۔ بات تو بن گئی مگر اس ہائبرڈ گورننس ماڈل نے بہت سے سوالات کو جنم بھی دے دیا۔ تفصیل میں جانا مناسب نہیں۔ مگر پاکستان کے مسائل کافی گہرے ہیں۔ انہیں حل کرنا کسی ایک سیاسی جماعت یا شخصیت کے بس کی بات نہیں۔ نتیجہ؟ فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کے لیے خود آگے آکر اس خلا کو پُر کرنا پڑتا ہے۔ ملک کے اندر بھی اور باہر بھی۔ اس کی دو حالیہ مثالیں NCOC اور NLCC ہیں۔ مسئلہ کیا ہے؟ سول لیڈرشپ یا سول انتظامیہ کے ساتھ؟ کیا سیاست دان نااہل ہیں یا بیوروکریسی کا ڈھانچہ برباد ہوگیا ہے؟ یہ ہائبرڈ ماڈل آف گورننس کب تک چل سکے گا؟ ماشاء اللہ … ہمارے ملک کی عمر 73 برس ہوچکی۔ شاید ہی سیاست کی کتاب میں کوئی ایسی حکومت کا ماڈل ہوگا جسے ہم نے نہیں ٹرائی کیا۔ گورنر جنرل سے صدر تک … پارلیمانی نظام سے مارشل لاء تک … ایوب ماڈل کا صدارتی نظام … ضیا ماڈل کا صدارتی نظام پارلیمانی نظام… مشرف ماڈل کا ملا جلا نظام … کیانی ماڈل اور اب ہائبرڈ گورننس۔ کیوں؟ ایسا کیوں ہے؟ کیا ہماری سول انتظامیہ مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے؟ کیا بیوروکریسی کا پرانا نظام کھوکھلا ہوچکا ہے؟ کیا ہماری سیاسی لیڈر شپ (ماضی، حال سمیت) اس ملک کے مسائل کو سمجھنے میں ناکام ہوگئی ہے؟ کیا اس کے ہاتھ سے سرا سرک گیا ہے؟ کیا سول سیاست دان اور سول افسران مکمل نااہل ہیں یا مکمل کرپٹ؟ کیا آلِ شریف اور بھٹو زرداری قبیلے کے بعد اسٹبلشمنٹ کو عمران کی شکل میں ایک بار پھر مکمل مایوسی یا عدم اطمینان کا سامنا ہے؟ ہر بار گورننس کی نئی عمارت نئے سرے سے ترتیب دی جاتی ہے۔ سیاستدان اور بیوروکریسی مل جل کر ایک Mess پیدا کرتے ہیں اور پھر؟ ایک نئی امید … نیا نعرہ … نیا خواب … نیا سفر … نئے چہرے… نئی بوتل … شاید پرانا مشروب اور تعبیروں کی تلاش شروع! اس کا کیا حل ہے؟ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ جتنے تھنک ٹینک اتنے حل۔ جتنے دانشور، اتنے نظریئے۔ کیوں نہیں مان لیتے کہ لنڈے کے کپڑے اور لنڈے کی جمہوریت مقامی باسیوں کو ذرا مشکل سے پورے آتے ہیں۔ جمہوریت ہوتی ہے سو فیصد عوام کی سو فیصد نمائندگی۔ اپنا ایوان دیکھو۔ سو فیصد کی نمائندگی صرف دو فیصد کے پاس ہے۔ لکیر ہے کہ اسے پیٹے جارہے ہیں۔ تفصیلی بات پھر سہی۔ ضرورت ہے ایک روڈ میپ کی۔ ایک نئے نظام کی۔ جس میں جنگی بنیادوں پر مستقل بنیادوں پر کچھ رولز آف گیم ترتیب دیئے جائیں۔ سب سیاستدانوں کو ایک میز پر بٹھایا جائے۔ پاکستان کے بنیادی مسائل کی ایک فہرست تیار کی جائے۔ سیاستدان سے حلف لیا جائے کہ تم اپوزیشن میں ہو یا حکومت میں ان بنیادی ایشوز پر سیاست نہیں کھیلو گے۔ خواہ وہ ڈیم ہو یا تعلیم، صحت ہو یا خارجہ پالیسی۔ بیوروکریسی کو اوورہال کرکے اسے دوبارہ ترتیب دیا جائے۔ چھوٹے ایشوز پر، علاقائی ایشوز پر، مذہبی ایشوز پر سیاست کرنے والوں کو آشکار کیا جائے۔ سیاسی جماعتوں کو پابند کیا جائے کہ آپ اپنے اندر بھی حفظان جمہویت کا سپرے کریں۔ مگر یہ سب کون کرے گا؟ یہ صرف اور صرف پاکستان کی اسٹبلشمنٹ کرسکتی ہے۔ ہر ملک کے مفادات کی نگہبان اسٹبلشمنٹ ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں بھی اسٹبلشمنٹ کو ملک کے وسیع تر مفاد میں کہیں سے ابتدا کرنا ہو گی ایک نئے روڈ میپ کی۔ ورنہ مستقبل کو دیکھنا ہو تو ماضی اور حال پر اک نگاہ کافی ہے!