کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون۔ مجھے تو آج معلوم ہوا کہ یہ کائنات بھی ابھی ناتمام تھی۔ پوری قوم ایک عجیب مخمصے میں ہے کسی کو گمان بھی نہ تھا کہ ہمارے قانون اور آئین میں یہ طے ہی نہیں ہے کہ ہمارے ملک کا سب سے مضبوط منصب دار کتنے سال کے لئے ہوتا ہے۔ عملی طور پر تو یہ درست ہے کہ ایک بار جو آ گیا‘ اس کا جانا اس کی مرضی اور حالات کی منشا کے مطابق ہوتا ہے۔ ایوب خاں ہمارے پہلے آرمی چیف تھے وہ تب تک رہے جب تک حالات نے اس کی اجازت دی۔ پھر ہم نے اس پر سوچنے یا تردد کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ مگر ہمارا خیال ہے کہ اگر قانون پر عمل کیا جائے تو یہ تقرری تین سال کے لئے ہوتی ہے۔ آج معلوم ہوا کہ ہمارا آئین اور قانون دونوں اس بارے میں خاموش ہیں۔ بس یہ ایک روایت ہے یاللعجب ‘ کیا ایسا ہے‘ مقدمہ ابھی چل رہا ہے اور کارروائی کے درمیان اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا ہے کہ اس کے بارے میں قانون کی جو کتاب ہے وہ بھی دستیاب نہیں ہے۔ اس کا ایک حصہ ملا ہے۔ عدالت نے اسے دیکھا تو بتایا کہ یہ تو ریٹائرمنٹ کے بارے میں ہے۔ جواب آیا جرنیل کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ کچھ سمجھ آیا ہم کیا بحث کر رہے ہیں۔ میں صبح سے ٹی وی کے ساتھ لگا بیٹھا ہوں۔ شاید بہت عرصے کے بعد قانونی موشگافیوں کا لطف آ رہا ہے۔حیرانی بھی ہو رہی ہے کہ ہم کس دنیا میں رہ رہے ہیں۔ بعض مقدمات ایسے ہوتے ہیں جن کی کارروائی سننے کا مزہ آتا ہے۔ میں نے ایسے مقدمات سنے جن میں وکیل نے جج کو لاجواب کر دیا یا فاضل جج نے وکیل کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ اچھے وکیل کو سننے کا بھی مزہ آتا تھا اور اچھے جج کو عدالت چلاتے دیکھ کر بھی طبیعت خوش ہوتی تھی۔ اندازہ ہوتا تھا کہ قانون کی دنیا کے کتنے بڑے دماغ الجھی ہوئی گھتیاں سلجھا رہے ہیں لیکن لیجئے آج بہت عرصے کے بعد اندازہ ہوا کہ قانون دانی کتنا مشکل کام ہے۔ہم اپنے فقیہوں کو امام کیوں کہا کرتے تھے۔ ان کے الگ الگ دبستان بن جاتے تھے تو اس کی وجہ کیا تھی۔ اختلاف کے باوجود امام ابوحنیفہ امام اعظم کیوں تھے اور امام شافعی کا اتنا بڑا مقام کیوں تھا۔ بہت عرصے بعد اندازہ ہوا کہ فقہ اور قانون ہوتا کیا ہے۔ میں بعض اوقات کہہ دیتا تھا کہ یہ جو بعض وکیلوں کے حوالے سے یہ خبر آ رہی ہے کہ یہ اتنے کروڑ فیس لے رہے ہیں تو ان میں ایسی کیا بات ہوتی ہے۔ جس کے انہیں یہ دام دیے جاتے ہیں۔ اس سے بہتر دلائل تو ہر شعبے کا آدمی اپنے شعبے کے حوالے سے دے سکتا ہے۔ اب جا کر پتہ چلا کہ دقیقہ رسی کیا ہوتی ہے اور قانون جب بولتا ہے تو کتنی گہرائی میں جاتا ہے۔ ہم نے ماضی میں آ کر بعض مقدمات کو سیاست کی نظر نہ کیا ہوتا تو اس وقت نجانے ہماری کتنی الجھنیں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتیں۔ اوپر میں نے دو لفظ الگ الگ استعمال کئے ہیں۔ موشگافی اور دقیقہ اس سے بات اہم ہوتی ہے کہ آپ کس بات کو کس زاویے سے لیتے ہیں۔ ایک ہی بات کی کئی تعبیریں ہوتی ہیں۔ فرق اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ آپ کس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں مگر آپ کو اپنے مکتبہ فکر کے حوالے سے دلائل دینا ہوتے ہیں یا یہ بھی ثابت کرنا ہوتا ہے کہ مخالف نکتہ فکر اپنی اصل ہی میں غلط ہے۔ ہم نے غورو فکر کا یہ انداز ترک کر رکھا ہے۔ میں بنیادی طور پر ادب کا طلب علم ہوں اور اس زمانے میں آنکھ کھولی ہے جب مختلف مکاتب فکر کا ٹکرائو اپنے عروج پر تھا۔ مثال کے طور پر ترقی پسند ادب والے ایک مضبوط فلسفے کی پشت پناہی کے بل بوتے پر بات کرتے تھے۔ ہم یا تو اس سوچ ہی کو غلط ثابت کرتے تھے یا متبادل سوچ کی مضبوطی اور عظمت کو بیان کرتے تھے۔ یہ بات صرف اصولی اور نظریاتی سطح ہی پر نہیں ہوتی تھی۔ ٹیکنیکل سطح پر بھی چلتی تھی۔ آج دکھ اس بات پر ہو رہا ہے کہ ہم نے تو زندگی کے بنیادی معاملات پر بھی غور نہیں کیا۔ ہم نے تاریخ کے اس مرحلے پر آنا ہی تھا۔ جب سب سوال پیدا ہونا ناگزیر تھے۔ ہم بہت سوال کریں گے۔ بعض باتیں ہماری بے خبر نکلیں گی جیسے ابھی ابھی بتایا جا رہا ہے کہ مدت ملازمت کا تعین نہ ہونا ہماری بے خبری ہے۔ بعض باتیں ہماری بے نیازی ہیں کہ ہم نے پروا ہی نہ کی کہ ہمارے ادارے کیسے چلتے ہیں۔ یہ درست بات ہے کہ یہ کسی فرد کا مسئلہ نہیں بلکہ اصولی بات ہے۔ یہ ملک کیسے چل رہا ہے۔ کس ادارے کا کیا کردار ہے۔ ہم فوج پارلیمنٹ عدلیہ انتظامیہ ہر ایک کے بارے میں بات کرتے ہیں سب کی حدود کا ذکر کرتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ ان حدود کا کیا مقصد ہے۔ اس وقت جو بحث ہو رہی ہے اس میں یقینا بہت سے نکتے ابھر رہے ہیں۔ ہر نکتے پر نئے نکات پیدا ہو رہے ہیں۔ نئے سوال اٹھ رہے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حکومت میں کسی کو اندازہ ہی نہ تھا کہ اس معاملے پر اتنے سوال اٹھ سکتے ہیں۔ مجھے تو اٹارنی جنرل پر ترس آ رہا ہے۔ لگتا ہے ان کے خواب و خیال میں نہ تھا کہ اس طرح کے اعتراضات اٹھ سکتے ہیں عام طور پر گمان یہ کیا جاتا ہے کہ فوج کے بارے میں فوج کی رضا سے جو قانون بھی پاس کیا جائے گا اس پر کوئی اعتراض کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ اس کی ایک مثال جنرل پرویز مشرف کی خودسری تھی جسے ایمرجنسی پلس کہتے ہیں یہ سوچ کر پاس کیا گیا کہ یہ ان کی بحیثیت صدر تو اختیار نہیں ہیں مگر وہ آرمی چیف کے طور پر یہ حکم نامہ جاری کر رہے ہیں۔ گویا اس کو چیلنج کرنے کی کسی میں ہمت نہ ہو گی۔ تاریخ کے مختلف مراحل ہوتے ہیں۔ پرویز مشرف کے بعد ہم مسلسل ان مراحل سے گزر رہے ہیں۔ اس وقت ہم ایسے نازک دور سے گزر رہے ہیں کہ ان کا بے لاگ تجزیہ کرنا بھی مصلحت ملّی کے موافق نہیں سمجھتا۔ اس وقت یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ ہم احمقوں کی جنت میں رہ رہے تھے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بھی کوششیں ہو رہی تھیں اور اپنی حدود سے تجاوز بھی کر رہے تھے۔ میں جب قلم روک رہا ہوں ‘ یہ وہ مرحلہ ہے کہ عدلیہ نے بھی کارروائی کل تک کے لئے معطل کر دی ہے۔ یہ پوری صورت حال موجودہ حکومت کی نااہلی ہی نہیںتاریخ کا ملبہ بھی ہے جو ہم خاموشی سے اٹھاتے چلے آ رہے تھے اس حکومت کی حماقت یہ ہے کہ اس نے ذرا زیادہ ہی بے احتیاطی سے کام لیا ہے۔ یہ اندازہ بھی ہوا کہ ہمارے قانون ساز اور قانون نویس دونوں ہی کتنے بے احتیاط ہیں۔ ایک بات البتہ مثبت دکھائی دیتی ہے کہ بہت سے معاملات آئندہ کے لئے طے ہو جائیں گے۔ ویسے مرا تعلق بھی ان خوش فہم لوگوں میں ہیں جو ہر ایسے مرحلے پر ایسا سوچتے ہیں عدلیہ نے کل تک کا وقت دیا ہے۔ اٹارنی جنرل کو تو اس سے پہلے ہی آرام اور ایک کپ گرم کافی کی ضرورت پیش آئی تھی۔ ہمیں یہ بھی اندازہ ہو جائے گا کہ ہم نے کیسے کیسے لوگوں کو کیسی کیسی ذمہ داریوں پر لگا رکھا ہے۔مجھے اس نامکمل بحث کو یہیں پر ختم کرنا ہے۔ اللہ پاکستان کو سلامت رکھے۔ ویسے تو کئی دن سے ہنگامہ تھا کہ کچھ ہونے والا ہے۔ بات کوئی سازشی تھیوری کی نہیں لگتا ہے کہ کسی کو پاکستان سے محبت نہیں۔