پنجاب کے پرانے کلچر کو مدنظر رکھتے ہوئے میاں نواز شریف کے نورتنوں میں سے کسی نے انہیں مشورہ دیا ہو گا کہ جٹ چڑھیا کچہری بلے بھئی بلے کبھی دو چار بندے بھگتا کر یا رسہ گیری کی کوئی بڑی واردات کر کے جس ٹاٹھ باٹھ سے جٹ کچہری میں پیش ہوتا تھا اس پر دیہاتی معاشرے میں بڑی واہ واہ ہوتی تھی۔ مگر میڈیا کی بدولت دیہاتی لوگ شہریوں سے زیادہ باشعور ہیں اور انہیں کھرے کھوٹے کی پہچان ہے۔ آفرین ہے میاں صاحب پر کہ صرف پاکستان کی احتساب عدالت میں ان کی ایون فیلڈ کرپشن نہیں پکڑی گئی بلکہ ڈیلی میل لندن نے بھی تفصیلی سٹوری چھاپ دی جس میں ایون فیلڈ کے علاوہ لندن کی کئی اور جائیدادوں کی بھی تفصیل موجود ہے۔ اس پر میاں صاحب اور شریف فیملی نے چپ سادھ رکھی ہے اور انگلستان کی کسی عدالت میں انہوں نے ہتک عزت کا کوئی دعویٰ دائر نہیں کیا اب ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے یو کے چیپڑ نے برطانوی حکومت سے بھر پور مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایون فیلڈ پراپرٹی کی چھان بین کرے اور اگر ثابت ہو کہ جائیداد ناجائز ذرائع سے خریدی گئی ہے تو اسے قبضے میں لے لے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مزید تفتیش و تحقیق کریں کہ شریف خاندان کی مزید کتنی ناجائز جائیدادیں برطانیہ میں موجود ہیں ۔ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے اس بیان پر شریف فیملی کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا کہ وہ برطانوی حکومت کی طرف سے ایسی کسی بھی تحقیق کو خوش آمدید کہیں گے اور اس میں تعاون کریں گے یا وہ ٹرانسپرنسی کے بیان کو غلط سمجھتے ہیں اور اسے عدالت میں چیلنج کریں گے۔ میاں صاحب اور ان کے صاحبزادے کا سارا زور پاکستان میں چلتا ہے کیونکہ یہاں ہر طرح کے جھوٹ سچ کو کچھ نہ کچھ پذیرائی مل جاتی ہے اور میڈیا کا بھی ایک حصہ ہے کہ اپنے مفادات کی خاطر ایسے سیاسی گلیمر کو بخوشی اچھالتا رہتا ہے۔ میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی یوں واپس آ رہے ہیں جیسے وہ دونوں نوبل پرائز لے کر آ رہے ہوں۔ وہ اپنے سینوں پر کرپشن اور پاکستانی قومی خزانے کو لوٹنے کے تمغے سجا کر آ رہے ہیں۔ میاں صاحب جمہوریت بچانے یا عوام سے اظہار یک جہتی یا دستور کی بالا دستی کے لیے نہیں وہ صرف اور صرف اپنی سیاست دولت اور شہریت بچانے آ رہے ہیں۔ میاں صاحب کی صاحبزادی نے سوشل میڈیا کی فیکٹری حقائق کو مسخ کرنے کے لیے لگا رکھی ہے سپریم کورٹ کا بڑا دو ٹوک فیصلہ آیا تھا کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا‘ سپریم کورٹ میں جھوٹی دستاویزات جمع کرائی گئیں عوام سے جھوٹ بولا اور تضاد بیانی سے کام لیا اس لیے وہ صادق و امین نہیں ہیں ان کے سوشل میڈیا اور ہاں میں ہاں ملانے والے مشیروں نے فیصلے کے بارے میں یہ جملہ چلا دیا کہ مقدمہ پانامہ کا تھا میاں صاحب کو اقامے پر نکالا گیا۔ عدالتی فیصلے کا اپنا ایک میکنزم ہوتا ہے اسے اٹھائے گئے ہر سوال پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے لہٰذا کسی معمولی جزو کو مسخ کر کے پھیلانا ایک اور بددیانتی ہے۔ پاکستانی قوم کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ عدالت میں کیا ثابت ہوا ہے اور کس بنا پر عدالت نے میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کو سزا دی ہے۔ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ 1993ء میں لندن کی پراپرٹی میاں نواز شریف کی بے نامی دار جائیداد تھی جس کے مالک ان کے بچے تھے جن میں حسین کی عمر 20برس مریم 18برس اور حسن کی عمر 17برس تھی پانامہ سے پہلے وہ ان جائیدادوں کی ملکیت تسلیم کرنے سے گریزاں تھے مگر پانامہ کے بعد انہیں تسلیم کرنا پڑا۔ عدالت کا سوال تھا کہ اس وقت ان بچوں کے کوئی ذرائع آمدن نہ تھے اس لیے یہ واضح ہے کہ ان کے والد میاں نواز شریف جو اس وقت وزیر اعظم تھے وہی اس کے مالک تھے حسین نواز کے میڈیا بیان کے مطابق مریم نواز بینیفشل اونر تھیںجبکہ مریم نواز نے ٹیلی ویژن پر کہا تھا کہ ان کی پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر کوئی پراپرٹی نہیں۔ استغاثہ نے ثابت کرنا تھا کہ ایون فیلڈ میاں نواز شریف کی تھی وہ انہوں نے ثابت کر دیا جبکہ میاں نواز شریف نے ثابت کرنا تھا کہ انہوں نے یہ فلیٹس اپنی جائز آمدنی سے خریدے مگر وہ یہ ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے اور نہ ہی وہ کوئی گواہ پیش کر سکے نیب قوانین کے تحت آمدن سے زیادہ اثاثے جرم ہے اور کسی صاحب منصب کی اپنے نام پر ہی نہیں اپنی فیملی کے ناموں پر ناجائز جائیداد بھی قابل مواخذہ ہے۔ مریم نواز کو جعلی ٹرسٹ ڈیڈ دینے اور قدم قدم پر اپنے والد کی ناجائز دولت چھپانے کی بنا پر سزا دی گئی ہے۔ کیپٹن صفدر بیچارا تو مروت میں جعلی ڈیڈ پر دستخط کر بیٹھا اور اسے اسی جعلی گواہی پر ایک سال کی سزا دی گئی۔ مجھے حیرت میاں نواز شریف کی کرپشن اور ان کے سیاسی حربوں پر نہیں حیرت ان دانشوروں پر ہے کہ جو اپنے فلسفیانہ تجزیوں میں کرپشن کو ضرورت قرار دیتے ہیں مگر جب معاملہ ان کی کسی پسندیدہ شخصیت کا آتا ہے تو کبھی میاں نواز شریف کو بھٹو کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں اور کبھی کوئی دانشور فرماتے ہیں’’تاریخ کے فیصلے عدالتی فیصلوں کے پابند نہیں ہوتے‘‘ صاحبو! آپ کو تو چاہیے تھا کہ آپ شخصی وابستگیوں سے ماورا ہو کر میاں صاحب کو بروقت روکتے انہیں انا پرستی اورمن مانی کی آفت سے بچاتے۔ انہیں ملکی معاملات کو سنجیدگی سے چلانے کی ترغیب دیتے اور ملک کے اہم ترین اداروں سے ہر بار تصادم سے باز رکھتے۔ میں صدق دل سے سمجھتا ہوں کہ جب کوئی غیر جانبدار مورخ میاں نواز شریف کے عروج و زوال کی داستان لکھے گا تو وہ چودھری نثار، سید ظفر علی شاہ اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے کردار کو سراہے گا کہ جنہوں نے میاں صاحب کو انا پرستی اور من مانی سے روکا تھا اور خبردار کیا تھا کہ عدلیہ اور فوج سے ٹکرائو کے ہولناک راستے پر جانے کے نتائج ان کے لیے اچھے ہوں گے نہ ملک کے لیے۔ کوئی مانے یا نہ مانے ذوالفقار علی بھٹو کی خوبیوں خامیوں کا سیاسی کلچر ابھی تک ہمارے سیاست دانوں کے دل و دماغ پر چھایا ہوا ہے اور مریم بی بی بھی بے نظیر بھٹو کو اپنا آئیڈیل سمجھتی ہیں۔ میاں نواز شریف اور ذوالفقار علی بھٹو میں کیا مماثلت ہے؟ میں صرف ایک قدر مشترک اور ایک قدر مختلف کا ذکر کروں گا۔ دونوں قائدین میں حد سے بڑھی انا قدر مشترک ہے اور قدر مختلف یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو مطالعے کے بہت شوقین تھے اور ہر نئی کتاب کوشش کر کے حاصل کرتے جبکہ میاں صاحب کتاب کو اپنے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے وہ اسے ایک کار فضول سمجھتے ہیں ان کے خیال میں کتابیں اور فائلیں پڑھنا مشیروں اور افسروں کا کام ہے بادشاہوں اور حکمرانوں کا نہیں۔ میاں نواز شریف کا اصل مسئلہ کیا ہے جس کی بنا پر وہ بار بار فوج اور عدلیہ سے ٹکرا جاتے ہیں؟ اس کا سبب سابق سینیٹر پروفیسر خورشید احمد بتاتے ہیں۔ پروفیسر صاحب دو بار سینیٹر رہے اور اسلامی جمہوری محاذ کی حکومت میں چیئرمین پلاننگ کمشن بھی رہے وہ نائب امیر جماعت اسلامی رہے اور جماعت کے فکری رہنما سمجھے جاتے ہیں وہ جو بات کرتے ہیں مکمل تحقیق سے سو فیصد درست کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ایک تازہ تحریر میں لکھا ہے۔’’ نواز شریف صاحب پہلے دن سے اپنے ہاتھوں میں مکمل اختیارات کے ارتکاز کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ جب بارہویں دستوری ترمیم(28جولائی 1991ئ) میں انہوں نے یہ اختیار حاصل کرنا چاہا کہ وہ دستور کی جس شق کو جب چاہیں اور جتنے عرصے کے لیے چاہیں معطل کر سکتے ہیں تو میں نے اور محترم قاضی حسین احمد مرحوم نے صاف لفظوں میں اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور یہی ہمارے اور ان کے درمیان گہرے اختلاف اور بے اعتمادی کا آغاز تھا۔ لیکن ہم نے اس سلسلے میں مضبوط موقف اختیار کیا حالانکہ وہ اس ترمیم کو کابینہ سے منظور کروا چکے تھے۔ نواز شریف صاحب سے دو دن اس امر کے بارے میں ہمارے تلخ و ترش مذاکرات ہوتے رہے پھر ان کی کابینہ کے ارکان بھی اس میں شریک ہوئے۔ ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ مسلم لیگ کے بڑے بڑے لیڈران کرام نواز شریف صاحب کے سامنے تو اس مجوزہ ترمیم کی تائید کرتے یا زیادہ سے زیادہ خاموش رہے۔ کم از کم تین افراد نے بعد میں مجھ سے کھل کر کہا ’’ہم آپ حضرات کے ممنون ہیں کہ آپ اس پر ڈٹ گئے۔ ہم بھی ناخوش تھے مگر مخالفت نہ کر سکے۔ جنرل مجید ملک نے سب سے پہلے یہ بات مجھ سے کہی پھر وسیم سجاد اور حامد ناصر چٹھہ صاحب نے بھی ملاقاتوںمیں یہی بات دہرائی۔ یہ دونوں حیات ہیں اور انشاء اللہ گواہی دیں گے کہ پنجاب ہائوس میں انہوں نے یہ بات کہی تھی۔ بہرحال صدر غلام اسحق خان صاحب بھی اس کے مخالف تھے۔ اس طرح بارہویں ترمیم سے نواز شریف صاحب کے من پسند حصے نکال دیے گئے۔ اس ثقہ واقعے سے یہ بات عیاں ہو تی ہے کہ میاں نواز شریف پارلیمنٹ اور پارٹی کے اندر مختار کل بن کر رہنا اور من مانی کرنا چاہتے ہیں یہی ان کا مسئلہ ہے اور یہی رویہ بار بار ان کے لیے اور ملک کے لیے بحران کا باعث بنتا ہے۔ میاں نواز شریف وہ واحد وزیر اعظم ہیں جنہوں نے 6فوجی سربراہ مقرر کیے اور ان کے تعلقات کسی بھی فوجی سربراہ سے خوشگوار نہ تھے بلکہ ناگوار ہی رہے جمہوریت کیا ہے؟ دستور کو گھر کی لونڈی اور تمام اداروں کو اپنا غلام بنا کر رکھنے کا نام جمہوریت نہیں ملوکیت ہے۔ سیاست کیا ہے؟ سیاست اپنے ہدف کو بغیر کسی تصادم کے دانش و حکمت سے حاصل کرنے کا نام ہے۔ سیاست یہ نہیں کہ کبھی آپ عدالتوں پر چڑھ دوڑیں اور کبھی آپ براہ راست اور بالواسطہ فوج کی کردار کشی کریں۔ بسم اللہ میاں نواز شریف واپس وطن آئیں مگر وہ یقین کر لیں کہ اول تو ان کا کوئی بڑا استقبال نہ ہو گا اور ہوا بھی تو اس سے انتخابی مہم یا انتخابی نتائج پرکوئی اثر نہیں پڑے گا صوبہ سندھ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کی صورت حال واضح ہے وہاں مسلم لیگ ن کی سیٹیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کو سبقت حاصل ہے۔ ضلع وار سروے اسی بات کی شہادت دیتے ہیں۔ میاں نواز شریف کتنے جمہوری ہیں وہ آپ اوپر کی سطور میں دیکھ چکے ہیں۔ میاں نواز شریف جمہوریت کے لیے نہیں اپنی سیاست اور شہرت کے لیے واپس آ رہے ہیں۔ ان کے پاس واپسی کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا۔