کب کہا کہ مجھے فخر ہے اس جینے پر روز اک داغ چمکتا ہے مرے سینے پر مجھ سے اشکوں کی نہیں بات کرو دریا کی میں تو اک دشت ہوں آ جائوں اگر پینے پر کیا کریں بات تو کچھ ایسی ہی ہے دل بھی گویا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں۔ کیا کریں جلنا تو ہے جینا تو ہے اور سچ کا زہر پینا تو ہے بہت سنجیدہ لکھ کر نہ کڑھنا چاہتا ہوں اور نہ آپ کو پریشانی میں مبتلا کرنا چاہتا ہوں۔ پہلے ایک دو خبروں پہ بات ہو جائے وگرنہ یہ غیر اہم چیزیں اوجھل ہو جائیں گی اور آپ محظوظ ہونے سے رہ جائیں گے۔ خبر ہے نوکری کا جھانسہ دے کر لوٹنے والا گروہ گرفتار۔تفصیل دیکھی تو ہنسی آئی کہ وہ گروہ نوجوانوں سے اینٹی کرپشن کے محکمے میں نوکری دلوانے کا وعدہ کرتا تھا نوجوان سوچتے ہونگے کہ اس سے زیادہ محفوظ نوکری اور کون سی ہو گی کہ انہیں ملک سے کرپشن ختم کرنے کا موقع بھی ملے گا۔ ملک میں کرپشن ہی تو واحد چیز ہے جس پر ہزاروں لوگ پل رہے ہیں‘رشوت لیتا پکڑا گیا اور رشوت دے کر چھوٹ گیا۔ یہ گروہ تو چوروں کو مورر والے محاورے کے مصداق ٹھہرا۔ ہو سکتا ہے کہ اس گروہ میں کچھ اینٹی کرپشن والے بھی ہوں۔ نوکریوں کے جھانسے سے دل بہت دھڑکا کہ یہ بے چارے غریب اگر نوکریوں کا وعدہ کر کے کچھ کما لیں تو مجرم ٹھہرے۔ وگرنہ انہی نوکریوں اور مکانوں کا وعدہ کر کے تو پوری حکومت حاصل کر لی جاتی ہے۔ ہاں ہو سکتا ہے آپ ان وعدوں کو سیاسی وعدہ کہہ کر حکمرانوں کی طرفداری کریں کہ نواز شریف نے بھی تو اسمبلی کے فلور پر اعتراف کو سیاسی بیان کہہ کر جان چھڑا لی تھی۔ آپ کو یاد تو آیا ہو گا کہ وہ ثبوت جو بلف تھے ۔ یہ روٹی کپڑا اور مکان کا وعدہ بھی ووٹ ہتھیانے کے لئے تھا۔پھر لوگوں کے کپڑے بھی اتر گئے یہ اینٹی کرپشن کیا ہے؟ایک مثال ہے آپ سمجھ لیں۔ ایک دوست نے سگریٹ پیتے ہوئے دوست سے کہا یار سگریٹ کم کر دو۔ دوست نے کش لگاتے ہوئے کہا کیسے؟پہلے دوست نے کہا ایک سگریٹ مجھے دو: میرے ہاتھوں میں جل بجھا سگریٹ داغ ہاتھوں پہ آ گیا دل کا دوسری خبر یہ کہ ٹرمپ کے اثاثوں میں کمی آ گئی ہے جو کم ہو کر اڑھائی ارب ڈالر رہ گئے ہیں جبکہ یہ چار ارب تھے۔اب غلطی تو ٹرمپ کی ہے کہ وہ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے۔ کاش وہ پاکستان کے وزیر اعظم بنتے تو ان کے وارے نیارے ہو جاتے۔ان کو خود بھی پتہ نہ چلتا کہ اثاثے خود بخود کیسے کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ امریکہ کا صدر بننا تو سراسر گھاٹے کا سودا ہوا۔ لگتا ہے کہ ٹرمپ کا اپر چیمبر خالی ہے۔ حیرت کی بات تو یہ کہ ٹرمپ باقاعدہ کاروباری آدمی مگر اس نے حکومت کے وسائل کو کاروبار میں نہیں جھونکا۔ ہمارے ہاں تو پوری پوری سڑکیں اور پورے پورے سبزہ زار بادشاہ گاہ میں شامل ہو جاتے ہیں: تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاج تنگیٔ داماں بھی تھا تیسری خبر جو اصل میں پہلی خبر تھی مگر اس پر لکھنے سے اجتناب کرتا ر ہا۔اتفاق ایسا کہ میں پہلے ہی ایک کالم میں لکھ چکا ہوں کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں سبزے کا پائمال ہونا فطری۔یہ کوئی پیشین گوئی نہیں تھی اب سپریم کورٹ نے کہہ دیا ہے کو دو ہیوی ویٹس کی لڑائی ہے بھگت عوام رہے ہیں۔ ان ہیوی ویٹس کی وضاحت موجود نہیں۔ ایک بلیغ اشارہ اس میں ضرور ہے کہ دوسری طرف کون ہے۔ ویسے تو پہلا ہیوی ویٹ بھی تنہا نہیں۔ساتھ ہی ملحقہ بات ایک اور ہے کہ کیا ڈسکہ کے پورے الیکشن ہی دوبارہ ہوں جس پر پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا ہے کہ امن و امان کی صورت حال پر انتخابات ملتوی نہیں ہو سکتے۔ عدلیہ مگر حیران ہے کہ بیس جگہ پر عملہ غائب تھا اور پولیس بھی۔ اس میں مگر پریشانی والی کیا بات ہے۔پولیس ہی تو عملے کو لے کر غائب ہوئی تھی۔ کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ عملے کے ساتھ پولیس بھی غائب ہوئی پھر بھی یہ منظم دھاندلی نہیں مانی جا سکتی۔ ایک اور دلچسپ بات یہ کہ انہیں حیرانگی ہوئی۔ شاید یہ لفظ زیادہ حیرانی کیلئے استعمال ہوتا ہو گا۔ ویسے لغت میں صرف حیرانی موجود ہے: ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو کیا یہ کافی نہیں ظالم تری حیرانی کو شعر میں آپ حیرانی کو پشیمانی کے معنی بھی لے سکتے ہیں۔ایک آخری خبر تعلیم کے حوالے سے ہے کہ حکومت تعلیم سے زیادہ اقتدار بچانے کی فکر ہے ان کا زور صرف تعلیمی اداروں پر چلتا ہے۔ ہم تو ان کی نیت پہلے ہی بھانپ چکے تھے کہ تعلیمی ادارے نہیں کھولیں گے۔ میں تو اپنا فرض نبھاتے ہوئے لکھتا آیا ہوں کہ یہ کوئی پراسرار ایجنڈا ہے۔ ہمارے بچے برباد ہو رہے ہیں۔ اس شعبے سے وابستہ لوگ برے حالوں میں ہیں۔ میری بات کی تائید آپ اساتذہ اور والدین کے ردعمل میں دیکھ سکتے ہیں۔ گیارہ اپریل تک تعلیمی ادارے بند رکھنے کی کیا تک ہے کہ کیا پھر کرونا ختم ہو جائے گا۔ امریکہ اور برطانیہ میں بھی تو کورونا کے باوجود تعلیمی ادارے کھلے ہیں۔ دیکھیے نجی شعبہ میں اداروں نے بندش کا فیصلہ مسترد کر دیا ہے۔ اعلان ہوا ہے کہ اساتذہ لانگ مارچ کریں گے ۔شفقت محمود کو کیا پتہ کہ اساتذہ پر کیا گزر رہی ہے۔ کس قدر مضحکہ خیز ہے کہ سکول بند رہیں گے مگر امتحان وقت پر ہونگے۔تعلیمی دشمنی ایک بڑا جرم ہے۔ آپ ایس او پیز پر زور دے سکتے ہیں۔آصف شفیع کا شعر سامنے آ گیا: آسماں تھا میری زمین میاں کوئی کرتا نہیں یقین میاں ڈاکٹر اصغر یزدائی سے بات ہو رہی تھی تو بتانے لگے کہ تعلیمی اداروں کے اپنے رہنمائوں میں بھی اتفاق نہیں۔سارے فوٹو سیشن کے شوقین ہیں۔ یہ سرکاری ملازمین کا متفقہ ایجنڈا بھی ہے کہ وفاق کی طرح ان کی تنخواہیں بڑھائی جائیں۔ سول سیکرٹریٹ کے گھیرائو کے بعد بات وعدے تک پہنچی ہے۔ راجہ بشارت نے 25فیصد تنخواہوں میں اضافہ اور ریگولر کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ بہرحال خاص طور پر اس وقت تعلیمی نظام کو بچانا ضروری ہے۔پیچھے کوئی جناتی طاقت ہے جو قوم کو تعلیم سے محروم کرنا چاہتی ہے۔ آپ میری بات سے بے شک اتفاق نہ کریں مگر اب عالمی جنگ میں حملے اسی طرح کے ہونگے کہ کسی بنیادی ادارے کو برباد کر دیا جائے۔ مکمل بے چینی پھیلا دی جائے۔ بچوں کو یہ کیوں نہیں سکھایا جا سکتا کہ ان حالات میں کیسے جینا ہے۔ وہی بچے جو صبح سکول نہیں جاتے شام کے وقت محلوں میں اودھم مچاتے ہوئے کھیل رہے ہوتے ہیں۔ میں اپنے گھر کے قریب سبزہ زار کو بھرا ہوا دیکھتا ہوں۔جب جلسوں جلوسوں کا وقت تھا تو سب کچھ چلتا رہا۔ اب نیب کے باہر جو مجمع لگے گا!یہ تو آپ کو معلوم ہے کہ ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں سیز فائر ہو گیا ہے اور وہ 26مارچ کو پاور شو میں اکٹھے ہونگے: گلے سے لگتے ہی جتنے گلے تھے بھول گئے وگرنہ یاد تھیں ہم کو شکایتیں کیا کیا