عظیم شاعر علامہ محمد اقبالؒ نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے جو ملک بنایا تھا۔یہ ملک وہ تو نہیں ۔صرف نام وہ ہے ۔باقی جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے ۔ملک کی موجودہ حالت دیکھ کر ہر محب وطن خون کے آنسو روتا ہے ۔سیاستدان ملک و قوم نہیں اپنے مفاد کیلئے کام کر رہے ہیں۔سیاستدانوں کی آپسی لڑائی نے پہلے ملک کو دولخت کیا ۔اب باقی ماندہ کے درپے ہیں ۔ اے قائد! ہم شرمندہ ہیں۔آپ کے ملک پر چند خاندانوں، جاگیرداروں اوراقتدار کے رسیہ لوگوں نے قبضہ جما رکھا ۔ یہاں سیاست کے نام پر غریبوں کی نسل کشی جاری۔ پروٹوکول کے نام پر غریبوں کو کیڑے مکوڑے سمجھ کر پائوں تلے روند ا جا رہا۔ قائد آج بھی اس ملک میں ہزاروں لوگ پہاڑیوںکی چوٹیوں اور ڈھلوانوں پر بے یارومددگار ڈیرے جمائے ہوئے ہیں، ہسپتالوں میں غریبوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح دھکیل کر ہانکا جاتا ہے۔سیلاب متاثرین خوراک کے انتظار میں سولی پر لٹکے ہوئے ۔ ذاتی کمیشن کے لیے سیاستدان سڑکیں ادھڑ دیتے ہیں ۔ غریب کا کوئی پرسان حال نہیں۔ قائد آج ہم شرمندہ ہیں۔ آپ جس شہر میں آرام فرما ہیں وہاں پر اقتدار سے چمٹے رہنے کے لالچ میں عوام کو بھیڑیوں کے سامنے پھینک دیا گیا۔ کھوکھلے، بے روح اور بے ثمر وعدوں سے تنگ عوام آپ کے مزارکے سامنے جا کر اشکباری کرتے ہیں ،اس نظام سے مایوس ہو کر عوام پھر ایک مرتبہ ایڑیاں اٹھا کر آپ کے مزار کی طرف دیکھتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ آج موقع ہے کہ میں اپنے احساس کے افق پر ابھرنے والی کرنوں کو الفاظ کے پیراہن میں ڈھال کر آپ کو خراج تحسین پیش کرسکوں اورآپکے احسانوں کا شکریہ ادا کرسکوں۔ محترم قائد: میں یاد کرتا ہوں اس دور کو جب بر صغیر کے مسلمان پستی کا شکار ہوکر بے یارو مددگار غلامی کے اندھیروں میں بھٹک رہے تھے،منزل کی جستجو تھی، آرزو تھی مگر کوئی میرِ کارواں نہ تھا۔ حالات و واقعات نے محرومیوں اور مایوسیوں کی ایسی بھیانک دلدل میں دھکیل دیا ،جس سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہ دیتا تھا،تقریر و تحریر پرپابندیوں اور بے جا ظلم وستم نے جینا محال کر رکھا تھا، کھل کر عبادت کی بھی ا جازت نہ تھی ،زندگیاں غلام بن چکی تھیں۔عقل و شعور ،فہم و فراست اور سوچوں کو زباں عنایت کرنے والے تک خاموش تھے ، ایسے حالات میں خواب غفلت میں سوئی قوم کو بیدار کرکے آپ نے جس طرح لفظ آزادی کے مفہوم اور اسکی اہمیت کا احساس دلایا، سوئے ہوئے نیم مردہ ذہنوں کو ایک نیا شعور عطا کرتے ہوئے انہیں نئی زندگی کی رمق عطا کی۔ جس طرح مسلمانان ہند کو جرات اور جواں مردی سے متحد و منظم کرکے سہارا دیا ،وہ قابل تحسین ہے۔ مسلمانان ہند کے اس غیر منظم کارواں کو جس طرح منظم کرکے آپ نے منزل مقصود تک پہنچایا ،وہ ساری دنیا کیلئے مثال ہے۔جس محنت اور لگن سے آپ نے اپنی صحت کی پرواہ کئے بغیر دن رات ایک کر دیا اس جذبے کو جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔ محترم قائد:اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ آپ کی ولولہ انگیز قیادت کی بدولت بر صغیر کے مسلمانوں کو اپنی منزل ملی، ہمیں پیارا ملک پاکستان ملا آج ہم جو آزادی سے سانسیں لے رہے ہیں سب آپ کی انتھک محنتوں کا ثمر ہے۔ ہماری تہذیب و ثقافت اسی آزادی کی بدولت آج اپنی پہچان بر قرار رکھے ہے ورنہ ہندو اور انگریز ہماری تاریخ کو، تہذیب و ثقافت کو، ہمیں، ہماری پہچان کو مسخ کر دیتے۔ محترم قائد:آزادی کتنی بڑی نعمت ہے یہ تو کوئی مظلوم اورمحکوم قوموں سے پوچھے یا کسی ایسے پرندے سے جسکی آزادی سلب کرلی گئی ہو۔ آج ہم آزادی کی نعمت حاصل ہونے کے باعث کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں، ہم آزاد ہیں ،غلام نہیں، کسی کے محکوم نہیں ،ہماری اپنی تہذیب و تمدن ہے، طرز معاشرت ہے ،اپنی تاریخ ہے ،آج ہمارا سر ساری دنیا کے سامنے اگر بلند ہے تو فقط آزادی کی بدولت ہے،ہم آج دنیا کی چھٹی اور عالم اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت ہیں تویہ سب آپ کی بدولت ہے۔ پنجہء اغیار سے کیسے آپ نے ہمیں چھڑایا؟ کیا کیا ستم اٹھائے؟ کیا کچھ برداشت کیا ؟کتنی لازوال قربانیاں دیں ؟اے قائد اگر آپ نہ ہوتے تو ہم اپنی پہچان کھوچکے ہوتے، ہم غلامی کے اندھیروں میں بھٹک رہے ہوتے۔آج جب ہم آزادی کے لئے کوششیں کرنے والے ممالک بالخصوص فلسطین،کشمیر میں ہونے والے ظلم وستم اور انکی بے مثال قربانیوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ آزادی کے حصول کے لئے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے ،کتنی نسلیں جدو جہد کرتی ہیں، قومیںلازوال قربانیاں دیتی ہیں تب کہیں جاکہ کسی قوم کو آزادی نصیب ہوتی ہے۔لفظ آزادی میں کتنی خوشیاں ،مسرتیں اور شادمانیاں پنہاں ہیں ،آزادی قدرت کا کیسا انمول تحفہ ہے ؟ بیان نہیں کیا جاسکتا۔ آزادی کی خصوصیات اور اسکے ثمرات اگرلکھنے بیٹھ جائیں تو شاید سیاہی کم پڑ جائے مگر آزادی کے لفظ الف کی بھی تعریف مکمل نہ ہوسکے۔آج جب ہمیں آزاد ہوئے 75برس بیت گئے ہیں ہم آج بھی روز اول کی طرح آپ کے احسانوں کو یاد کرتے ہیں۔آزادی کی شکل میں ہمیں ہماری پہچان دینے والے اے قائد اعظم ،ہماری زندگی کا ہر سکھ اور قرار آزادی کا ہی مرہون منت ہے جو آپکی بدولت ہمیں ملی ہے۔ آج ہمیں زندگی کے ہر میدان میں جو ترقی کے مواقع میسر ہیں سب آزادی کی وجہ سے ہیں ،آزادی۔۔۔اگر یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ آزادی کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔ہمیں آزاد سانسیں لینے کا اختیار دلوانے والے ہماری روحیں تیری قرض دار رہیں گی۔جس نعمت خداوندی سے تیری بدولت ہم سرفراز ہوئے اس کا جتنا چرچا کریں کم ہے۔ ہم آج تجھ سے وعدہ کرتے ہیں تیرے ہر فرمان پر دل و جان سے عمل کریں گے۔استحکام پاکستان اور قومی یکجہتی کے فروغ کے لئے اور تیرے حب الوطنی کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے وطن عزیز کو عظیم سے عظیم تر بنانے کے لئے تیرے فرمان کے مطابق دن رات کام کام اور صرف کام کریں گے۔آج جب ہم اپنے گردو نواح میں دیکھتے ہیں ،سیاستدانوں میں اقتدار کی ہوس ،ملکی سلامتی کے ساتھ کھلواڑ ،تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ہمار ادل گواہی دیتا ہے کہ یہ وہ ملک نہیں جس کا اقبال ؒنے خواب دیکھا ۔اور آپ نے بنایا ۔لیکن آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اس ملک کو قابض سیاستدانوں سے آزاد کروائیں گے۔