ستمبر جسے ستمگر مہینہ بھی کہا جاتا ہے ، سفارت کاری کے اعتبار سے مملکت خداداد پاکستان اور اس کی شہ رگ کشمیر کی تحریک ِ آزادی پر کتنا بھاری پڑا ،اس کی بہت زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔۔ ۔ کہ ایک تو یہ ابھی جاری ہے۔ ۔ ۔ پھر ہمارے وزیر اعظم عمران خان کا پہلی بار اقوام ِ عالم کے بے حس نمائندوں کے سامنے خطاب بھی ہے۔ورنہ 5اگست کے بعد سے ہماری وزارت خارجہ کے بابوؤں، خاص طور پر اقوام ِ متحدہ اور واشنگٹن میں برسوں سے پر تعیش مشاہرہ لینے والوں کی جو کارکردگی رہی ہے ،اُس پر تو اُن کی اکثریت کو اب تک گھر بھیج دینا چاہئے تھا۔ واشنگٹن میں جمعہ جمعہ آٹھ یا سولہ دن سے آئے ہوئے سفیر ِ پاکستان کو زیادہ دوش نہیں دیا جاسکتا ۔مگر لگ بھگ دو دہائی سے اوپر ہماری دوست صحافی کبھی سفیرِ پاکستان کی حیثیت میں ،تو کبھی اقوام ِمتحدہ کی مستقل مندوب کے عہدۂ جلیلہ پر جو براجمان ہیں ،5اگست کے بعد سے خاص طور پر کشمیر کیس کے حوالے سے روایتی دشمن ملک تو چھوڑیں ،روایتی دوست ممالک کی حمایت حاصل کرنے میں جس طرح ناکام نظر آرہی ہیں، اُس پر ایک مثال یاد آرہی ہے۔ ۔ ۔ اگرلکھ بیٹھا تو غیر سفارتی جملے میں آئے گی ۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ اُن کے اور اُن کے باس تیز و طرار وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بلند و بانگ بیانوں اور چھلانگوں کے نتیجے میں سلامتی کونسل نے بھارت کے خلاف مسئلہ ٔ کشمیر پر کوئی مذمتی قرار داد تو چھوڑیں، اقوام ِ متحدہ کی ایک ذیلی تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن کے 58میں سے سولہ کو بھی وہ اس بات پر راضی نہ کر سکے کہ کم از کم وہ ایک ایسی قرارداد ہی پر دستخط کر دیتے جس میں 46روز سے جاری بھارتی مظالم اور کرفیو کی مذمت کی جاتی ۔چلتے چلتے اپنی محترم دوست ،اقوام ِ متحدہ میں مسلسل اور مستقل نمائندہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی کو اس بات کی داد دینا پڑے گی کہ سفارت کاری میں نہیں ،تو سیاست میں وہ اتنی درک حاصل کرچکی ہیں کہ ایک دوسرے کے بدترین دشمن یعنی وزیر اعظم میاں نواز شریف ہوں یا بے نظیر بھٹو ،یا پھر ان دونوں کے کٹر مخالف ،سابق صدر جنرل پرویز مشرف ہوں ،حتیٰ کہ ان تینوں کے مخالف وزیر اعظم عمران خان ہی کیوں نہ ہوں، داد دیجئے کہ انہوں نے کچھ اتنی خوبصورتی سے شیشے میں اتارا ہے کہ داخلہ،خارجہ وزارتوں ،محکموں میں کتنی ہی اکھاڑ،پچھاڑ ہو۔ ۔ مگر ہماری ملیحہ لودھی: زمین جنبد نہ جنبد گل محمد۔ ۔ ۔ یہاں تک لکھ تو بیٹھا ۔کہ درد ذرا سِوا ہے ۔مگر اس پر کتنی ہی آہ و بکا کم ہے۔کہ ہمارے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی 11ستمبر کو جنیوا میں یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ اقوام ِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں پچاس سے زیادہ ممالک کی حمایت سے ایک مشترکہ بیان تیار کرلیاگیا ہے۔جس میں بھارت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی بند کرے ۔بھارت اگلے ہی دن ہمارے وزیر خارجہ کے اس بیان کی تردید کردیتا ہے۔یقینا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے پیغام پر ہی وزیر اعظم عمران خان اگلے دن ان 50سے زائد ممالک کا شکریہ ادا کرتے نظر آتے ہیں،جنہوں نے کشمیر کاز پر پاکستانی موقف کی توثیق کی۔بھارتی ترجمان ایک بار پھر فوری طور پر اس بیان کو بھی مسترد کردیتے ہیں۔اب ان دعووں اور تردیدوں کی ذرا حقیقت بھی سن لیں: کہ پاکستان کو اقوام ِ متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں 19ستمبر تک بھارت کے خلاف ایک قرار داد پیش کرنا تھی۔تاکہ اس کی روشنی میں جموں و کشمیرکی سنگین صورتحال پر انسانی حقوق کونسل کا خصوصی اجلاس بلایا جائے۔قرار داد کو پیش کرنے کے لئے پاکستان کو کونسل کے صرف 16رکن ممالک کی حمایت درکار تھی۔ 19ستمبر دوپہر ایک بجے کی ڈیڈلائن تھی۔مگر ڈیڈ لائن کا وقت آیا اور گزر گیا۔جنیوا اور اسلام آباد میں وزارت خارجہ کے بابوؤں سے میڈیا سوال کرتا رہا ۔جواب صرف اتنا ملتاکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ہی سوال کا جواب دے سکتے ہیں۔اب شاہ صاحب کے پاس اس شرمندگی کا کوئی جواب ہوتا تو دیتے۔کہ جنیوا ، زائرین کی درگاہ تو ہے نہیں کہ ہاتھ باندھے سرجھکا کر سن لیا جاتا۔اب ذرا اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے ارکان کی تعداد پر بھی نظر ڈال لیں: اس میں چین،سعودی عرب ،عراق،بحرین،تیونس ،صومالیہ ،افغانستان،بنگلہ دیش ،سنیگال، نائجیریا جیسے ممالک شامل ہیںجن میں اکثریت کا تعلق امتِ مسلمہ سے ہے۔سوال یہ ہے کہ ایک بین الاقوامی فورم پر اتنا بڑا جھوٹ کیوں بولا گیا؟ یہ کوئی اپنا پیارا پاکستان اور اُس کا میڈیا تو نہیں کہ آپ کے منہ سے جھڑتے پھولو ں کو شہ سرخی بنانے پر راضی بہ رضا ہوتا ہے۔ اقوام ِ متحدہ کے ایک ذیلی ادارے سے ،جہاں اسلامی ممالک کی اکثریت ہے، اور جن میں سے بیشتر آپ کے مطابق ہمالیہ سے اونچی آپ دوستی رکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ جب اِن سے محض ایک ہمدردانہ قرار داد کشمیر میں ہونے والے مظالم پر منظور نہیں کروائی جاسکتی ۔تو پھر سلامتی کونسل میں تو جھونکنے کو بھاڑ ہی رہ جاتی ہے۔ امریکی تاریخ کے بدترین نسل پرست صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیساتھ بیٹھ کر ،ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ، بانچھیں کھلانے سے چالاک و مکار مودی کے بھارت کی سفارت کاری کو شکست نہیں دی جاسکتی۔ثالثی اور اُس کی بھی توقع ٹرمپ اور مودی سے رکھنا۔ ۔ ۔ ایسا ہی ہے جیسے بھیڑوں کی رکھوالی بھیڑیوں پر چھوڑ دی جائے۔ یقینا 27ستمبر کو ہمارے وزیر اعظم کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اقوام ِ عالم کے سامنے کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم کا پردہ چاک کریں ۔پہلے بھی لکھ چکا ہوں ۔ ۔ ۔ اور کوئی زیادہ مشکل بھی نہیں ہے کہ ہمارے وزیر اعظم اپنے خطاب کے دوران سلائیڈز پر کرفیو زدہ کشمیر اور وہاں سے اٹھنے والی چیخ و پکار ہی چند منٹوں کے لئے دکھا دیں۔اور پھر اقوام ِ متحدہ کے ارکان سے سوال کریں کہ کیا یہ انسانی حقوق کی پامالی نہیں؟کیا اس پر وہ اپنی آواز اور ہاتھ بلندنہیں کریں گے؟اگر پھر بھی اقوام ِ عالم ماضی کی طرح اپنی مجرمانہ خاموشی کا مظاہرہ کرے تو پھر ’’خدا حافظ ‘‘کہہ کراُن کا اقوام متحدہ سے واپس آنا اتنابڑا احتجاج اور مظلوم کشمیریوںسے اظہار ِ یک جہتی ہوگا کہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس پر وہ اپنے بدترین مخالفین سے بھی داد و تحسین پائیں گے۔