ایک غلط فہمی تسلسل سے پھیلائی جا رہی ہے کہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کوئی حیثیت نہیں۔کیونکہ یہ باب چھ کے تحت پاس کی گئی ہیں اور باب چھ کے تحت پاس کی گئی قراردادیں محض علامتی ہوتی ہیں انہیں قوت سے نافذ نہیں کیا جا سکتا۔قوت نافذہ صرف ان قراردادوں میں ہوتی ہے جو باب نمبر7 کے تحت پاس کی جائیں۔یہ ایک بالکل غلط موقف ہے۔ انٹر نیشنل لاء کی روشنی میں یہ قراردادیں نہ صرف معتبر ہیں بلکہ ان پر عمل کرنا بھی لازم ہے۔ ان قراردادوں میں کہیں نہیں لکھا کہ یہ ’’ نان بائنڈنگ ‘‘ ہیں۔ حتی کہ یہ بھی نہیں کہیں لکھا کہ یہ باب 6 کے تحت پاس کی جا رہی ہیں۔ البتہ چونکہ بھارت اقوام متحدہ کے چارٹرکے آرٹیکل 35 کے تحت کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل میں لے گیا اور آرٹیکل 35 باب 6 میں آتا ہے اس لیے یہی تصور کیا جاتا ہے کہ یہ قراردادیں باب 6 کے تحت پاس کی گئیں اور یہ ’’ نان بائنڈنگ ‘‘ ہیں۔ پاکستان سے قبائل کی جارحیت کی تو بہت بات کی جاتی ہے لیکن اس سوال کا بھی تو کوئی جواب دے کہ اگر پاکستان کی طرف سے جارحیت ہوئی تھی تو بھارت اس معاملے کو ’’ مسئلے کے پرامن ‘‘ حل کے لیے باب 6 کے تحت کیوں لے کر گیا ، جارحیت کی صورت میں تو باب7 کے تحت جانا چاہیے تھا۔خیر یہ ایک الگ اور دلچسپ پہلو جس پر کسی آئندہ کالم میں بات کریں گے کیونکہ ’ مطالعہ ہندوستان‘ کے بہت سے باب ابھی تشنہ ہیں، اور یہ تشنگی پکار پکار کر کہہ رہی ہے : العطش ، العطش۔ بھارت سلامتی کونسل میں اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت گیا تھا۔اور سلامتی کونسل نے اسی چارٹر کی روشنی میں اس مسئلے پر قراردادیں پاس کر دیں۔ سوال اب یہ ہے کہ ان قراردادوں کی حیثیت کیا ہے۔ اس کا جواب اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 میں دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ آرٹیکل 25باب چھ کا حصہ نہیں۔ یہ پانچویں باب میں درج ہے جو سلامتی کونسل کے ڈھانچے اور عمومی دائرہ کار سے متعلق ہے۔اس آرٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی حیثیت کیا ہو گی ا ور ان کے بارے میں ممالک کا رویہ کیا ہو گا۔ ذرا اس مختصر سے آرٹیکل کو پڑھ لیجیے: “The Members of the United Nations agree to accept and carry out the decisions of the Security Council in accordance with the present Charter.” یعنی یہ آرٹیکل کہہ رہا ہے کہ اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک متفق ہیں کہ وہ سلامتی کونسل کے فیصلوں کو قبول کریں گے اور ان چارٹر کی روشنی میں ان پر عمل کریں گے۔ اس میں کہیں نہیں لکھا کہ باب 6 کی قراردادوں پر عمل کرنا ضروری نہیں ہو گا اور صرف باب 7 کی قراردادیں قابل عمل ہوں گی اور صرف انہی کو نافذ کیا جائے گا۔آرٹیکل 25یہ وضاحت کر رہا ہے کہ اس چارٹر کے تحت سلامتی کونسل جو بھی فیصلہ کرے گی اسے قبول کرنا ہی کافی نہیں اس پر عمل کرنا بھی لازم ہے۔اب باب 6 بھی اسی چارٹر کا حصہ ہے اور پاس کی گئی قراردادیں اسی سلامتی کونسل کی ہیں جو اسی چارٹر کے تحت کارروائی کر رہی تھی تو ان قراردادوں کو آرٹیکل 25میں دی گئی وضاحت کے بعد ’’ نان بائنڈنگ‘‘ کیسے کہا جا سکتا ہے۔ انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس کی سابق صدر بیرونس ہیگنز کا موقف بھی یہی ہے کہ چونکہ آرٹیکل 25 نہ باب6 کا حصہ ہے نہ باب7 کا۔ اس لیے اس میں کہی گئی۔بات کو محض باب 7 تک محدود نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کا اطلاق باب چھ پر بھی ہو گا۔امریکہ کے انٹر نیشنل لاء کے پروفیسر سٹیفن زیونس اپنی کتاب "International law, the UN and Middle Eastern conflicts" میں اس بحث کو یوں سمیٹتے ہیں کہ ایسا ہر گز نہیں کہ باب 6 کی قراداد محض مشاورتی نوعیت کی ہے اور ’ بائنڈنگ‘ نہیں ہے۔ باب چھ کی قرارداد بھی اتنی ہی بائنڈنگ ہے جتنی باب سات کی۔ باب چھ کی قرارداد کو کیسے نافذ کرنا ہے صرف اس کا فیصلہ کرنا باقی ہوتاہے۔ لیکن وہ ہوتی اتنی ہی متبر ہے جتنی باب سات کی قرارداد۔ یہ سوال بطروس غالی کے زمانے میں بھی اٹھا ۔بطروس غالی جب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تھے تو انہوں نے یہی سوال اقوام متحدہ کے لیگل ایڈوائزر کے سامنے رکھا۔ انہیں جو جواب ملا اس کے اختتام پر یہ سطر لکھی تھی اور اہم بات یہ کہ ساری سطر ہی ’ کیپیٹل لیٹرز‘ میں لکھی تھی جو معاملے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ آپ بھی پڑھ لیجیے ،کیا لکھا تھا: "NO SECURITY COUNCIL RESOLUTION CAN BE DESCRIBED AS UNENFORCEABLE." یاد رہے کہ یہ کسی دانشور کا موقف نہیں تھا کہ کسی کی ذاتی رائے قرار دے کر نظر انداز کر دیا جائے۔ یہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے سوال پر اقوام متحدہ لے لیگل ایڈوائزر کا جواب تھا۔نیمیبیا کیس میں عالمی عدالت انصاف کا اکثریتی فیصلہ بھی یہی تھا کہ سلامتی کونسل کی تمام قراردادیں ’ بائنڈنگ‘ ہوتی ہیں۔ اس ساری بحث میں اقوام متحدہ کے چارٹر کا پہلا باب بہت اہم ہے۔یہ اقوام متحدہ کے مقاصد اور اصول بیان کرتا ہے۔ اس کے دو ہی آرٹیکل ہیں۔ ذرا دیکھتے ہیںکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 2 کیا کہہ رہا ہے؟آرٹیکل 2 میں واضح طور پر لکھا ہے کہ تمام رکن ممالک اس چارٹرکے تحت عائد Obligations کو پورا کرنے کے پابند ہوں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چارٹر کے تحت عائد Obligations سے کیا مراد ہے؟قوام متحدہ کی Collective measures committee نے اس کی وضاحت یہ کی ہے کہ چارٹر کے تحت عائد Obligations یعنی فرائض اور ذمہ داریوں میں نہ صرف سلامتی کونسل کی تمام قراردادیں آتی ہیں بلکہ جنرل سمبلی کی قراردادیں بھی ان میں شامل ہیں۔ ان سب پر عمل کرنا تمام رکن ممالک کی Obligations میں آتا ہے۔اب جس چیز کو اقوام متحدہ کا چارٹر Obligation قرار دے رہا ہو آپ اسے نان بائنڈنگ کیسے قرار دے سکتے ہیں؟