دانش کو صیقل کئے بغیر الفاظ کا استعمال مہمل ہوا کرتا ہے۔ اخلاص کا جوہر عنقا ہو تو شیطان زبان پر جھولتاہے۔ پرانی عادت ہے خود کو خدائی لہجے کا نمائندہ سمجھنے والوں کی کہ ہمارا فرمودہ فرمان امروز ہے۔ نشہ کیا ہی ہو‘ ہر وقت ڈانواڈول کئے رکھتا ہے۔ بد نشہ قوم سے مذاق کر رہے ہیں کسی کو کیا پرواہ کہ رات کسی غریب کا چولہا ٹھنڈا ہوا کرے‘ مزدور بھوک کے بھوت کا لقمہ بن جائے اور بچوں کے گلے کاٹ کر خود زہر پی لے۔ جوا بازوں کا نشہ اترنے میں نہیں آ رہا ہے۔ ڈھیٹ ہیں ایک دفعہ ہارتے ہیں دوبارہ پھر دائو لگاتے ہیں۔ پیسہ پرایا ہے کسی کے نام پر ادھار لیا‘ کسی کو گروی رکھا کسی کو نیلامی پر اٹھایا ۔ بے شرمی کا چشمہ بے حیائی کی آنکھ پر چڑھائے پوری قوم کو بری نظر سے دیکھنا جواریوں کا مشغلہ ہے۔ کوئی روکے تو اپنی مظلومیت‘ شرافت اور خاندانی ہونے کے حوالوں پر اتر آتے ہیں سب حوالے جھوٹے اور سب دھائیاں شور شرایا محض ڈھونگ۔ بچے بچائے شطونگڑے کرائے پر دستیاب ہیں۔ لباس بدلتے ہیں اور پارٹیاں بدلتے ہیں۔ کسی نے پوچھا کہ تم ہر بارات میں موجود ہوتے ہو۔ پارٹی ڈیلر نے جواب دیا کہ دولہا اور دلہن دونوں کی طرف سے رشتہ داری ہے۔ بارات چلے یا اترے ہمارا ہونا بہت ضروری ہے۔ جلال بادشاہی میں بھی ان کے لئے خانہ وزارت مستقل خالی ہے اور جمہوری تماشے میں بھی غیر منتخب کرسی‘ مشاورت تو خیرات میں مل ہی جاتی ہے۔ ایک اقتداری قبیلہ ہے جس کو تعلقات جوڑنے اور پیڑھی پر بیٹھنے کا فن فطرت نے ودیعت کیا ہے۔ خوشامدی اور مکرو فریب کے ماہر‘ بڑی کرسی کو پیچھے لگانے کا کلیہ بتاتے ہیں۔ کٹھ پتلیاں نچانے والوں کے گروہ سے تربیت لے کر آتے ہیں۔ خوشامد پسند حکمران تلاش کر کے انہیں اپنی سنگت میں بٹھاتے ہیں۔ انہیں حکم ہے کہ ہم صر صرکو صبا کہیں تو تم میرے بیان کو نسیم جاں سے تعبیر کرو۔ ایک کہانی کا سرنامہ تو یہی خوشمدانہ جبلت ہے۔ خوشامدی کہتے ہیں کہ حضور بندہ نواز رونق تخت مرد مر گئے بس آپ ان خستہ اور پسماندہ حالات میں مرد دوراں بچ گئے ۔آہن قوت آپ کو خراج دیتے ہیں اور ممدوح اپنی ترنگ میں اور پھیل جاتے ہیں۔رائٹر گلڈ کے وظیفہ خوار تو ذلت و خواری کا ادبی شمارہ کہلاتے ہیں۔ بدتہذیبی کا فروغ اب گلی کوچے میں پٹاخے بجانے والے شہدے نہیں کرتے‘ عوام کے خون سے سرخرو ہو کر ازخود معصوم سیاستدان اور ان کی اُوٹ میں پلنے والے وہ خوشامد گر بدتہذیبی کو فروغ دیتے ہیں جن کاسیاسی نسب بہت طرح دار ہوتا ہے۔ جن کی فکری آبیاری میں سات کنوئوں کا پانی کسی ساحر دوراں نے تجویز کیا ہوتا ہے۔ پاک وطن کی ہر سرحد پر چھیڑ چھاڑ ہے۔ کون چھیڑتا ہے؟ کون آزاد کشمیر‘ سیالکوٹ‘ چونڈہ کی سرحدات سے متصل معصوم‘ بے گناہ دیہاتی پاکستانی مسلمانوں پر بے جا گولے داغتا ہے۔ ہمارے اخبارات اور بین الاقوامی ذرائع اطلاعات ان خبروں کو طشت ازبام کرتے ہیں پھر وہ بدکردار پاکستان دشمن بھارتی حکمران بد قماشی اور علاقائی تھانیداری کو ایسے استحقاق سے ثابت کرتے ہیں کہ شیطان بھی انگشت بدنداں رہ جائے۔ ابھی تک مودی کی بالاکوٹی کذب بیانی کی شرمندگی کے داغ بھارت کے وجود پر انمٹ ہیں۔ اندر باہر سے مذمت اور شرم شرم کے آوازے رکنے میں نہیں آ رہے ہیں لیکن ہمارے حکمران بے جا امن کا راگ نجانے کیوں الاپتے آ رہے ہیں بھارت مسلمان برادری میں پھوٹ ڈالنے کا مکروہ دھندہ کر رہا ہے‘ وہ کسی آن ایران سے لڑوانا چاہتا ہے۔ افغانستان میں اس کا رسوخ سر چڑھے جادو کی طرح بول رہا ہے۔ ہماری سرحدات پر بھارت کی اشیر آباد سے شبخون مارنے والے افغانی پاک افواج کو دعوت مبارزت دے چکے۔ ایرانی سرحد سے ملحق علاقوں میں کئی مرتبہ سرحد پار سے عجب رنگ دہشت گردی ہوتی ہے۔ امریکہ بہت آہستگی سے سعودی ایران پنجہ آزمائی کے عمل کا اہتمام کر رہا ہے۔ پاکستان کو وہ پھر سے میدان جنگ بنا کر قلعہ بند لڑائی کروانا چاہتا ہے۔ پاک فوج پاکستان کی رکھوالی قوت ہے۔ عالم اسلام کی محافظانہ امانت ہے۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ جانبازی اور فدائیت کا صدقہ آج پاکستان کے اندرونی مخالف دہشت گرد سسک رہے ہیں لیکن تاریخ کے اس جاری سفر میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف بے جا مباحثات کی لفظی مشقیں کر رہی ہے۔ دل جلے ہیں، جلی کٹی سنانے کی مہارت کا مظاہرہ روز دیکھنے اور سننے میں آتا ہے۔ پرانے سکرپٹ کو پرانے اداکار نئے انداز سے دھرا رہے ہیں۔ چوروں کے لئے امان ہے۔ چور کو سزا ہوتی ہے۔ تحفظ دینے والے ایسا معصوم ثابت کرتے ہیں کہ محتسب منہ تکتا رہ جاتا ہے۔نظریہ پاکستان کو لفظی کھیل کا موضوع بنایا ہوا ہے۔ اقلیت کے حقوق دینے کے نام پر بھارتی ایجنڈے پر عمل کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں دین کی اشاعت پر ضرب کاری لگانے کا ہر موقع ان کے نزدیک کارآمد ہوتا ہے۔ اسمبلیاں‘ وزارتیں‘ اعلیٰ مناصب گردش میں ہیں۔ لیکن منزل سے بے خبر‘ جن کے ہاتھ میں اختیار ہے۔ نشہ قوت ان کو بھی اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے ہے۔ ملک کی ہمدردی ، غریب سے یگانگت کا اظہار ان کی تقریر کی لذت زبانی ہے۔تاجر ٹیکس نہیں دیتا۔ پارٹیوں کو چندہ دیتا ہے۔ اندھی اور کالی کمائی سے جتھے سازی کا ایک نیا فن ایجاد ہوا ہے۔ مال قوم کا ہے۔ غریب کا بچہ بے سبب ہی مقروض پیدا ہوتا ہے۔ ان کی قرض خوری کی نحوست شکم مادر تک جا پہنچی ہے۔ قوم ہے یا سادہ لوح بھیڑیں ہیں۔ منمناتے ہیں اور بے سمت ہانکے جاتے ہیں۔ بھیڑوں کو باڑے میں نہیں کابک میں بند کرنے کے منصوبے ہیں شفاف اور سلیقہ مند لوٹ مار سے امیر ہونے والے زرعی زمین کو بنجر کرکے قلعہ نما محلات ایکڑوں میں بناتے ہیں اور غریب غربا پر احسان جتانے کے لئے آشیانہ سکیم‘ گھونسلا سکیم‘ تین مرلہ سکیم‘ اشتہاری بازی پر کروڑوں خرچ کر کے بے مکانوں کو ترغیب دیتے ہیں۔ رقم لوٹ کر بھاگ جاتے ہیں۔ کرائے پر سب دستیاب ہے۔ گارڈز کی کمپنیاں موجود ہیں۔ ہر طرز اور معیار کا فادر گارڈ بھی میسر آ جاتا ہے۔خالصتان سے متعلق فہرستیں دشمن کو تھما دیں ایک وہ دور تھا ایران میں بیٹھ کر اپنے وطن پر الزام دھرا کہ ایران میں دہشت گردی پاکستانی لوگ کرتے ہیں۔ زبان ہے‘ اعتماد ہے‘ نشہ اقتدار کی ترنگ ہے عوام بھولی ہوئی بے سمت قوم۔