اب وطنِ عزیز کی اسکرینیں کم اور باہر یعنی بی بی سی ،سی این این، این بی سی ۔ ۔ ۔ ذرا زیادہ تفصیل سے بیٹھ کر دیکھتاہوں۔یقین کریں اس میں سے کسی بھی چینل کی اسکرین پر حکومت اور اپوزیشن کے نمائندے دست و گریباں نظر نہیں آتے۔ بی بی سی پرکبھی کورونا وائرس پر،لیبر پارٹی اور کنزرویٹو پارٹی کی قیادت اور نمائندے کو جھاگ نکالتے دیکھا اور نہ ہی سی این این ،این بی سی پر ریپبلکن اور ڈیموکریٹ پارٹی کے سینیٹروں اور ارکان کو صبح وشام پریس کانفرنس اور ایک دوسرے کے مقابل بیٹھ کر الزامات اور جوابی الزامات کی گولہ باری کرتے سُنا۔ ۔ ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بات اور ہے ۔ ۔۔ ہر روز اسکرینوں پر آتے ہیںمگر اُن کی جھڑپیں میڈیا کے ساتھ ہوتی ہیں۔در اصل دنیا کے امیر ترین بزنس مین اور سربراہ کی اصل طاقت بلکہ مارکیٹنگ کا طریقہ ٔ واردا ت ہی یہی ہے کہ ۔ ۔ ۔ بدزبانی بلکہ بدلگامی سے خود کو خبروں میں رکھا جائے۔دنیا کی سب سے بڑی پاور کی سربراہی کا اعزاز بھی انہیں اسی طریقہ ٔ کار سے ملا۔اور اب جو سال رواں کے نومبر میں انتخابات ہونے جارہے ہیںتواُس میںکامیابی کی کنجی بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی یہی بدزبانی اور بدلگامی ہوگی کہ سرخ بھبھوکے چہرے پر بغیر مسکراہٹ لائے اپنوں ،غیروں کو ہدف بناتے رہو۔ ۔ ۔ صدر ٹرمپ اور اُن کا ملک تو چلیں یہ چونچلے اور اسکرینوں پر مارا ماری جھیل سکتا ہے مگر پاکستان جیسے ملک میں جہاں خود وزیرا عظم پاکستان اس با ت کا اعتراف کررہے ہیںکہ ان کا مسئلہ کورونا وائرس نہیں بلکہ کروڑوں دیہاڑی لگانے والے محنت کشوں کو راشن پہنچانا ہے۔اسکرینوں پر جب حکومتی وزیر وں،مشیروں اور معاونین کی فوج ظفرِ موج کو سندھ کے نمائندوں اور ترجمانوں کو تقریبا ً روزانہ ہی گھنٹوں نہیں اب تو منٹوں کے حساب سے پریس کانفرنس اور پھر جوابی پریس کانفرنس کرتے دیکھتا ہوں تو اس بدقسمت غریب قوم پر مزید رحم آتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان ،صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اگر حکومتی اقدامات کے اعلانات اور وضاحتیں کرتے نظر آئیں گے تو یہ بجا طور پر اس لئے بھی جائز اور درست ہے کہ اس سے عوام کا اعتماد بحال ہونے میں مدد ملتی ہے۔مگر ابھی سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ ہاتھ جوڑتے عوام سے لاک ڈاؤن کی اپیل کرنے کے ساتھ ساتھ وفاق پر چند چھینٹے پھینک ہی رہے ہوتے ہیں کہ اسلام آباد کے چینلوں اور اخباروں کے نیوز روم کی گھنٹیاں بج رہی ہوتی ہیں کہ ’’کیمرہ پکڑو،بھاگو دوڑو کہ وزیر اعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ایک بڑی خبر دینے جارہی ہیں‘‘۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وفاق اور صوبہ ٔ سندھ کے میڈیا منیجرز اس بات کو ضرور ملحوظ ِ خاطر رکھتے ہیںکہ جب وفاق یا صوبے کا ترجمان اپنی باری پوری کرلے تو پھر دوسرا آستینیں چڑھا کر نہ آئے کہ میڈیا کی زبان میں ایک کی بریفنگ ،دوسرے کی بریفنگ "kill"نہ کردے۔ ۔ ۔ 25دن تو ہو ہی گئے ہیں۔لاک ڈاؤن کے سبب بیشتر وقت پڑھنے یا اسکرین دیکھنے میں گزرتا ہے ۔مگر اب 25دنوں کے تجربے نے یہ ضرور سکھا دیا ہے کہ ریموٹ کنٹرول پر انگلیاں رہتی ہیں ۔پریس بریفنگ کے ابتدائی جملے سن کر ہی بقول شاعر : خط کا مضمون بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جب دس کروڑ کے قریب روزانہ کی بنیاد پر کماتے اور کھاتے ۔ ۔ ۔ 4کروڑ 20 لاکھ لوگوں کو صاف پانی میسر نہیں ۔ ۔ ۔ 2کروڑ 30لاکھ slumsیعنی پُلوں اور فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں ۔ ۔ ۔ 5کروڑ 10لاکھ بچے سِرے سے اسکول ہی نہیں جاتے۔ہر 5میں سے 2کے پاس ٹوائلٹ کی سہولت نہیں۔ ۔ ۔ اُس پر کورونا وائرس جیسی ناگہانی آفت کا یہ محروم ،مظلوم مخلوق کس طرح مقابلہ کررہی ہوگی ،اس کا سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کراچی میں ایک بستی کا نام ’’مچھر کالونی ‘‘ ہے۔میرے گھر کی ماسی وہیں سے آتی ہے۔پہلی تاریخ آئی تو سو چا اُس تک راشن اور تنخواہ پہنچائی جائے ۔یقین کریں ساحل ِ سمندر سے لگی اس بستی سے جو ٹاور شہر کی طرف جاتی ہے ،مین روڈ پر کھڑا نہیں ہوا جارہا تھا۔ ۔ ۔ ڈرائیور نے بتایا کہ اندر گاڑی بھی نہیں جاسکتی ۔ پندرہ منٹ پیدل جا کر ماسی کا گھر آئے گا۔دہائی پہلے تو اس بستی میں چینل کے لئے ایک رپورٹ بنانے گیا تھا۔مگر عمر کے اس پہر میں ہمت نہیں ہوئی ۔ ۔ ۔ ’’بُو‘‘ لفظ بہت چھوٹا ہے۔یقین سے کہہ سکتا ہوںکہ حکومت کا کوئی وزیر ،مشیر یا اہلکار یہاں دس منٹ کے لئے چلا جائے تو اُسے تمغوں سے نوازنا چاہئے اور پھر اس مچھر بستی پر ہی کیا منحصر ہے ۔کراچی میں کم از کم 50ایسی بستیاں اور محلے ہیں ،جو زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔جہاں انسان اور جانور ایک ہی گھڑے سے پانی اور ایک ہی زمین پر سوتے ہیں۔یقینا ملک کے دیگر صوبوں کے شہروں کی نواحی بستیوں کا حال زیادہ مختلف نہیں ہوگا۔کورونا وائرس کے سبب یقینا حکومت پر کڑا وقت آیا ہوا ہے۔ ۔ ۔ یہ بھی تسلیم کہ کم از کم وزیر اعظم عمران خان اپنی حد تک خلوص ِ نیت سے اس موذی مرض سے لڑنے میں سنجیدہ ہوں گے ۔ مگر ہمارے محترم وزیر اعظم جو اپنے اقتدار کی دو سالہ مدت پوری کر چکے ہیں ،کیا ایسے اعداد و شمار رکھتے ہیں جن سے ان کے علم میں ہو کہ جن دس کروڑ دیہاڑی لگانے والوں کا وہ اٹھتے بیٹھتے ذکر کرتے ہیں،یہ کہاں بود و باش رکھتے ہیں،اور وہاںتک وہ کس طرح راشن پہنچائیںگے ۔نادرا کے ایک ترجمان کے مطابق اس وقت کم از کم ڈھائی سے تین کروڑ پاکستانیوں کے پاس شناختی کارڈ نہیں۔ ہاں ، یہ اپنی جگہ دلچسپ بات ہے کہ مرحوم جنرل ضیاء الحق کی مہربانی سے افغان جنگ کے دوران افغان مہاجرین کی پہلی ہی نہیں تیسری پیڑھی کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ بھی ہے اور پاسپورٹ بھی۔خود ہمارے شہر کراچی میں نادرا کے مطابق کم از کم 20لاکھ افراد کے پاس شناختی کارڈ نہیں۔احساس پروگرام کی مہربانی سے چلیں ایک کروڑ 20لاکھ خواتین تک 12ہزار روپے پہنچ جائیں گے۔مگر یہ جو ڈھائی کروڑ لوگ شناختی کارڈ سے محروم ہیں،انہیں کس مکینزم سے راشن پہنچے گا؟ ہاں،اُن سینکڑوں فلاحی اداروں کو ضرور داد دینی چاہئے کہ جن کے سبب وطن ِ عزیز میںکروڑوں نہیں تولاکھوں خاندانوں تک راشن پہنچ رہا ہے۔اگر یہ نہ ہوتے تو اشرافیہ یعنی ڈیفنس اور کلفٹن میں رہنے والوں کو بلیک مارکیٹ سے اپنے تحفظ کے لئے اسلحہ خریدنا پڑتا۔ ٭٭٭٭٭