امریکہ کی معاشی و سائنسی طاقت کو فکری دیوتا بنانے والوں نے کبھی سوچا بھی تھا کہ ایک دن ایسا آئے گا جب مذاکرات کی میز پر بیٹھے امریکی مذاکرات کار افغانستان کے ملاؤں سے چھ ماہ کی سیز فائر بھیک مانگیں گے ؟ جب آپ علم کو علم کے بجائے دو وقت کی اچھی روٹی اور طاقت کے حصول کی نیت سے ڈھونڈنے کی ترغیب دیں تو پھر لازم ہوجاتا ہے کہ یہ سائنسی طاقت سر نگوں نہ ہو۔ لیکن یہ دوسری بار ہے جب سائنسی عظمت درویشوں کے قدموں میں پڑی جان کی امان چاہ رہی ہے۔ حربی و سیاسی میدان میں اس کے اثرات کی تفصیل اپنی جگہ لیکن یہ اثرات صرف ان دو میدانوں تک نہیں رہیں گے۔ یہ مناظر علم اور شعور کی بحث تک کو اپنی لپیٹ میں لیں گے۔ مثلا ہمارے ہاں مدارس کو جدت کی جانب راغب کرنے کے لئے یہ بیانیہ پیش کیا جاتا ہے کہ ترقی سائنس سے وابستہ ہے، اگر ملا سائنس نہیں پڑھے گا تو ترقی کیسے کرے گا ؟ طاقتور انسان سے طاقتور سماج اور طاقتور سماج سے طاقتور ملک کا سفر کیسے طے کرے گا ؟ علم کو علم کے بجائے طاقت کے لئے حاصل کرنے کا یہ لالچی اور گھٹیا تصور اب گفتگو میں یوں مار کھائے گا کہ ہر ملا آپ سے کہے گا، کیسی سائنسی ترقی اور کونسی طاقت ؟ سائنس نے ہمیشہ حربی میدان میں سب سے زیادہ ترقی کی ہے، اور اس میدان کی دو عظیم سپر طاقتوں کا ڈی این اے تو جب چاہو ہمارے پھٹے جوتوں سے اٹھالو !جسے آپ طاقت اور عظمت کہتے ہیں وہ تو ایک بار جنیوا میں ہمارے قدموں میں آگری تھی اور اب کبھی دوحہ تو کبھی دبئی میں پیر پکڑے نظر آتی ہے۔ اگرچہ پاکستان کی حد تک وقت ایسا آگیا ہے کہ خود ملا بھی اب قال اللہ و قال الرسول کا علم اچھی روٹی کے لئے ہی حاصل کرنے لگا ہے مگر جب سوال ترقی کا آئے گا تو جواب تو شکست و ناقابل شکست کی صورت ہی طے ہوگا، اور اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ بیسویں صدی کے اختتام پر سوویت یونین کی ساری ترقی افغان ملاؤں کے قدموں میں بکھر گئی جبکہ اکیسویں صدی کا آغاز اس امریکہ کی افغان ملا کے ہاتھوں عبرتناک شکست سے ہوا، جس نے اکیسویں صدی کو اپنی صدی قرار دے رکھا ہے۔ ہم بہت جلد دیکھیں گے کہ جنگوں کے صرف بارودی اثرات ہی نہیں بلکہ علمی و فکری اثرات بھی پڑوسیوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ سو ملا کے اس طنز کے لئے تیار رہئے کہ وہ سائنسی شکم سیری کس کام کی جسے ہمارے فاقے سے مات ہوجائے ؟ اگر آپ نے اچھی روٹی کے بجائے شعور کو بیانئے میں اہمیت دی ہوتی تو نہ یہ سوالات پیدا ہوتے اور نہ ہی بیانیہ خطرے سے دوچار ہوتا۔ ذرا ایک نظر افغانستان کے منظرنامے پر ڈالئے جو عین وہ شکل اختیار کرچکا جس کی پیشنگوئی جنرل حمید گل نے کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا، امریکہ افغانستان سے کسی گائے کی طرح رسی تڑا کر بھاگے گا، اگر اسے بھاگنے دیا گیا تو یہ ایک المیہ ہوگا۔ ہمارے انٹیلی جنس ادارے اس سال جنوری میں بھانپ گئے تھے کہ افغانستان میں گائے رسی تڑا کر بھاگنے کو ہے۔ یہ عین وہی حرکت ہے جو 1986ء میں سوویت یونین بھی کر چکا۔ وہ افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ کر بھاگا تھا جس کے نتیجے میں افغانستان بدترین خانہ جنگی کا شکار ہوگیا تھا۔ محمد خان جونیجو اور ان کے وزیر خارجہ زین نورانی اس معاملے میں عالمی طاقتوں کے سہولت کار ثابت ہوئے تھے۔ میں نہیں جانتا کہ اس میں صداقت کتنی ہے لیکن اسلام آباد اور راولپنڈی کے کچھ باخبر حلقے بتاتے ہیں نواز حکومت کو غیر مستحکم اور پھر چلتا کرنے کا مقصد 1986ء والی صورتحال کے اعادے سے بچنا تھا۔ نواز دور میں صورتحال جونیجو دور سے یوں بھی زیادہ نازک رہی کہ وزارت خارجہ کا قلمدان نواز شریف نے رکھا بھی اپنے ہاتھ میں تھا۔ جبکہ آج کی تاریخ میں وزارت خارجہ کا قلمدان راولپنڈی کے نقطہ نگاہ سے ’’محفوظ ہاتھوں‘‘ میں ہے۔ دوسری جانب امریکہ بہادر مذاکرات کی میز پر مشکل میں ہے، وہ چھ ماہ کا سیز فائر مانگ رہا ہے اور طالبان جانتے ہیں کہ یہ چھ ماہ کی مہلت وہ رسی تڑا کر بھاگنے کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس مطالبے کو طالبان مسترد کرچکے ہیں، وہ امریکہ سے کہہ رہے ہیں کہ پہلے افغانستان میں عبوری سیٹ اپ بنایا جائے جس کا سربراہ طالبان کا نامزد کردہ شخص ہو اور اس عبوری حکومت میں کم از کم بھی ساٹھ فیصد نمائندگی طالبان کی ہو۔ افغانستان کا مستقبل کیا ہو ؟نظام جمہوری ہو یا کچھ اور ؟ یہ وہ عبوری سیٹ اپ ہی طے کرے۔ اس سیٹ اپ کے قیام کے ساتھ ہی امریکہ افغانستان سے اپنے مکمل انخلاء کی تاریخ کا اعلان کرے اور چلتا بنے۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ یہ سیٹ اپ اس کی منشاء کے مطابق تشکیل پا جائے اور اگر ایسا نہ ہو تو کوئی سیٹ اپ تشکیل دیئے بغیر بھاگ جائے تاکہ پیچھے افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی سے دوچار ہوجائے اور طالبان بطور دہشت گرد ہی باقی رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 14 ہزار میں سے نصف فوج نکالنے کا اس نے پہلے ہی اعلان کردیا ہے تاکہ ہنگامی حالت کے لئے ’’بوجھ‘‘ ہلکا رہے۔ اس دوران امریکہ انس حقانی سمیت اہم ترین طالبان قیدیوں کو بھی رہا کر چکا۔ یعنی جس حقانی نیٹ ورک کا ہمیں سہولت کار کہا جاتا تھا اب خود امریکہ اس کی سہولت کاری فرما رہا ہے۔ اگر کسی کو یاد ہو تو گزشتہ برس ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت کو افغانستان میں اپنا سب سے اہم پارٹنر قرار دیا تھا۔ کیا موجودہ حالات میں بھارت کا نام تک کہیں نظر آتا ہے ؟ یہ خارجہ محاذ پر ایک بڑی کامیابی ہے جو پاکستان نے حاصل کی ہے۔ خود اشرف غنی حکومت کا یہ حال ہے کہ’’ طالبان امریکہ مذکرات‘‘ میں تماشائی کی حیثیت سے شریک ہونے اس کا جو وفد گیا اسے اس ہوٹل میں داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں ملی جہاں مذاکرات ہو رہے تھے۔رد عمل میں افغان کھسیانی بلی نے امراللہ صالح کو وزیر داخلہ اور اسد اللہ خالد کو وزیر دفاع مقرر کیا ہے جن کی پاکستان دشمنی اور بھارت نوازی مسلم ہے۔ یہ وہی حرکت ہے جو ڈاکٹر نجیب اللہ نے بھی کابل پر اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے کی تھی مگر پھر اسی کابل کے یو این کمپاؤنڈ میں پناہ گزین ہو کر بھی عبرتناک انجام سے نہ بچ سکا تھا۔ سو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر امریکہ عبوری سیٹ اپ بنائے بغیر افغانستان سے بھاگ گیا تو بعید نہیں کہ اس بار کابل میں ایک نہیں تین لاشیں لٹکی نظر آئیں۔ ایسے میں یہ سوال بہت اہم ہوجاتا ہے کہ کیا گائے بھی ریچھ کی طرح بھاگ جائے گی ؟