سپہ گری جذباتی وابستگی، نظم، ایک مخصوص شناخت اور دوسروں کو خود پر فوقیت دینے کے فن کا نام ہے۔ سیاسی ٹریننگ کے دوران ایک ہی کمرے میں دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی تربیت دی جاتی ہے جو جنگ امن یہاں تک کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایک سپاہی کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ تربیت کے دوران جس قسم کی کھٹنائیوں کا سامنا ایک فوجی کو کرنا پڑتا ہے معاشرے کے دیگر شعبوں سے وابستہ افراد کو ان سختیوں کا سامنا نہیں ہوتا۔ ایک سپاہی کی آدھی سے زیادہ زندگی اپنے گھروالوں بچوں اور خاندان سے دور گزرتی ہے یہاں تک کہ جب ایک سپاہی دنیا میں نہیں رہتا تب بھی اس کے خاندان کو متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ خاص انفرادیت ایک فوجی کو معاشرے کے دیگر طبقات سے منفرد بناتی ہے۔ نوعمری میں ایثار کا جذبہ جوانی میں ایک پر وقار زندگی، تعظیم اور ادارے سے گہری وابستگی ایک تکریم اور احترام کی متقاضی ہوتی ہے۔ آپ ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جہاں آپ کو انگریزی طریقہ تدریس میں چین کی زبان پڑھائی جا رہی ہے بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس طرز عمل نے نئی نسل کو ایک عجیب ذہنی بیماری اور بے یقینی کا شکار کر دیا ہے میری نسل کے لوگوں نے ایک ایسے عہد میں آنکھ کھولی جب ملک بحران کا شکار تھا ہم بتدریج ان بحرانوں سے نکلنے کی سعی کرتے رہے۔یہ بحران ہی کچھ ایسے تھے کہ تمام پاکستانیوں نے یکسو ہو کر ان کا مقابلہ کیا ہر مشکل گھڑی میں پوری قوم متحد اور منظم انداز میں آگے بڑھتی رہی۔ ہماری نسل کے پختہ ذہن افراد تھے جن میں جج اور جرنیل دونوں ہی شامل تھے انہوں نے ایان فلیمنگ ایرل سٹینلے گارڈنر اور رابرٹ لڈلیم(Ludlum)کو پڑھا جن کی تحریریں تھرل پر مبنی ہوتی تھیں۔ لڈلیم کی تحریریں کو تو خاص طور پر ایک ایسے ہیرو یا گروہ کے گرد گھومتی تھیں جس کے مدمقابل طاقتور گروہ ہوتا تھا اور ہیرو کو اس کے خلاف جدوجہد کرنا پڑتی تھی۔ اس طاقتور اشرافیہ یا مافیا کے عزائم نہ صرف برائی پر مبنی ہوتے تھے بلکہ یہ سیاسی اور معاشی نظام کو بھی خوف ناک حد تک اپنی خواہش کے مطابق ڈھالنے کی قدرت رکھتے تھے ۔ان کہانیوں میں میرے اور مجھ ایسے بہت سوں کے لئے تجسس یہ ہوا کرتا ہے کہ آخر کہانی کا ہیرو کون ہے؟ اگر اس وقت ہم لوگ بھی یہ جاننے کے لئے میڈیا اور تجزیہ کاروں پر انحصار کرتے کہ کہانی کا اصل ہیرو کون ہے تو یقینا میڈیا اور تجزیہ کار اپنی خواہش کے مطابق ہی کہانی کے ہیرو اور ولن کے بارے میں فیصلے صادر کرتے جس کا نتیجہ بھی ایسا ہی نکلتا جیسا کہ چند بصارت سے محروم افراد کو ہاتھی کی تفصیلات بتانے کا کام سونپ دیا جائے تو یقینا ہر بصارت سے محروم شخص ہاتھی کی تصور کشی ایسی ہی کرے گا جیسا کہ اس کا تجربہ ہو گا یا ہاتھی کے جس حصے کو اس کے لمس سے محسوس کیا ہو گا وہ ہاتھی کو ویسا ہی بتائے گا ۔ہمارے بعض جج اور حکومتی اٹارنیز بھی تعلیم بالغاں کے بیانیہ سے بخوبی واقف ہوں گے ۔برطانوی طرز کے ہمارے پاکستانی آئین میں ریاست کا ڈھانچہ بھی مقننہ انتظامیہ اور عدلیہ کے تین ستونوں پر استوار کیا گیا۔ اس آئین کو ایک بے مثال، لاجواب، بہترین تحریر کہا جا سکتا ہے مگر زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ریاستی ڈھانچے میں ان تین ستونوں کے علاوہ کچھ مقتدر حلقے ہیں جو ریاستی امور پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں ان کی مداخلت بسا اوقات نہ صرف ناقابل تصور بلکہ تکلیف دہ بھی ثابت ہوتی ہے۔ ایسے عناصر پیرا سائٹس کی طرح ریاستی ڈھانچے کا خون چوس رہے ہیں بلکہ اقتدار کے ایوانوں میں رسائی کے لئے ان میں باہم دوڑ بھی لگی ہوئی ہے۔ حالات اس نہج تک آن پہنچے ہیں کہ پاکستان میں قوانین کی توبھر مارہے مگر عمل بہت ہی کم قوانین پر ہوتا ہے۔ قانون سازی کے اس کھیل میں بدقسمتی سے ریاست کو ہمیشہ نقصان ہی اٹھانا پڑا ہے جبکہ ہر نئے قانون سے اس قسم کے لوگ زیادہ مستفید ہوتے ہیں۔ آرمی چیف کے معاملے میں بھی اس طرح بے بنیاد شور و غوغا پیدا کیا گیا۔ ان حالات میں ریاست کے تمام اداروں پر لازم ہے کہ وہ اس قسم کے بیانیہ کی مل کر سختی سے تردید کریں اور تمام ریاستی ادارے اس حوالے سے ایک مشترکہ بیانیہ تشکیل دیں ۔اسی طرح ملٹری کلچر اور سماجی ڈھانچے کے بارے میں نیا بیانیہ تشکیل دینے کی بھی ضرورت ہے، اگر ریاست کی بقا کے ضامن اداروں کے حوالے سے معاملات کو اس انداز سے ہینڈل کیا جاتا رہا تو پھر پاک فوج کو تباہ کرنے کے لئے کسی بیرونی دشمن کی ضرورت ہی باقی نہ رہے گی۔ پاکستان میں قانون کی عملداری اور گورننس مسلسل انحطاط کا شکار ہیں۔ ان حالات میں اگر ایگزیکٹو اور جوڈیشری میں بھی فوج کے حوالے سے غیر ضروری کشمکش شروع ہو جاتی ہے تو اس سے بحیثیت فوج ادارے کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے اگر ایساہوتا ہے تو پھر ملک میں ایک کے بعد ایک بحران سر اٹھائے گا۔ ماضی میں اس قسم کے بحرانوں سے ملک کو پہلے ہی بہت نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ آج بھی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ یہ فوج ہی ہے جو ملک میں جمہوریت کی نہ صرف پشت پر کھڑی ہے بلکہ ہر مشکل وقت میں جمہوریت کو بھر پور سپورٹ کر رہی ہے۔ ریاست کے تین ستونوں کو اب یہ سیکھنا پڑے گا کہ کس طرح مل کر پاک فوج اور ملکی سکیورٹی کو مضبوط بنانے کے ساتھ ملک کو تعمیر و ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو کوئی اس لحاظ سے غلط نہیں کہہ سکتا کہ جب انہوں نے پاک فوج کے کمانڈ اور سٹرکچر کو تسلیم کیا تھا ذوالفقار علی بھٹوفوج کو مضبوط اور حربی صلاحیتوں سے لیس قوت دیکھنا چاہتے تھے ان کے اپنے الفاظ تھے کہ وہ فوج کے کلچر اور سماجی حیثیت کو بہتر سمجھتے ہیں۔ کیا یہ کم تھا کہ ایک مجرم علاج کے لئے ملک سے باہر چلا گیا ہے کہ اب آرمی چیف ایسے اہم عہدے کو تماشا بنا دیا گیا ہے۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت کے حوالے سے جو رویہ اختیار کیا گیا اس کو نرم ترین الفاظ میں ناشائستہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اس مسئلہ کو ایک پٹیشن کے ذریعے اٹھایا گیا اور معاملہ قومی مفاد میں قانون سازی پر منتج ہوا۔ مگر اس سے پہلے اس معاملے کو جس طرح اچھالا گیا اس سے فوج کے خلاف ہائی برڈ وار کا تاثر ابھرا یہ عمل یقینا اب دوبارہ نہیں دہرایا جانا چاہیے۔