کیا یہ جنگ ہے؟جو یوکرین میں لڑی جانے والی ہے؟نہیں یہ بعض توآموز اور کچے شکاریوں کی ایک پارٹی ہے جو تیتر‘بٹیر‘ مچھلی کا شکار کھیلتے کھیلتے‘شیر کے شکار کے لئے نکل کھڑی ہوئی۔یہ ہمارے ہائی سکول میں تعلیم کا زمانہ تھا ‘جب مقبول اور مشہور اردو ڈائجسٹ میں مقبول جہانگیر شکاریات کے عنوان سے کہانی لکھا کرتے تھے‘جو ہم لوگ بڑے شوق اور تسلسل سے پڑھا کرتے‘مشرقی پاکستان میں ’’سندر بن‘‘ کے گھنے جنگلات میں خطرناک اور قد آور ٹائیگر کی خبر پا کر جوش جوانی میں ایک انگریز افسر اس شیر کو شکار کر کے اپنی محبوبہ پر مہارت اور بہادری کا رعب جمانا چاہتا تھا‘مقامی بنگالی اہلکاروں نے اسے لاکھ سمجھایا کہ یہ جلد بازی کا کام نہیں۔ماہر شکاریوں کا انتظام کر کے دوچار دن میں نکلیں گے مگر جوانی کی امنگ ‘بندوق کی ڈھارس اور محبت کا جنون نوجوان کو انتظار کا یارا نہ تھا‘چنانچہ دن کی روشنی میں پولیس کی حفاظت چند مزدوروں کو ہشیار بنگالی اہلکار کے ساتھ جنگل کے بیچوں‘بیچ ایک اونچے درخت پر مضبوط ’’مچان‘‘بنانے کے لئے بھیج دیا‘خود ایک بکری بطور ’’چارہ‘‘ لے کر ان کے پیچھے روانہ ہوا‘شام سے پہلے مچان تیار ہو گئی‘مناسب فاصلے پر ایک جھاڑی کے ساتھ بکری کو باندھ دیا گیا‘انگریز بہادر درخت میں بندھی مچان میں بیٹھ گئے اور مزدور پارٹی کو ضروری ہدایات کے ساتھ پیچھے محفوظ مقام پر بھیج دیا گیا‘اندھیرا پھیلتے ہی بکری نے چلانا اور شور مچانا شروع کر دیا‘انتظار کی کوفت‘جنگل کی ہیبت‘اندھیرے کے خوف نے شکاری کے دل کو جکڑ لیا‘رات گزرتی رہی بکری کی خوفزدہ پکار بڑھتی چلی گئی‘آدھی رات کے بعد بہت دور سے شیر کی پہلی دھاڑ سنائی دی وقفے وقفے سے شیر دھاڑتا رہا۔اس کی آواز قریب سے قریب تر ہوتی گئی‘بکری کی آواز‘رسی تڑانے کی کوشش شکاری اپنی بندوق تانے ہوشیار بیٹھا تھا کہ اچانک قریب کے جھاڑیوں کے پیچھے سے تن آور خوبصورت ٹائیگر شاہانہ رعب و جلال کے ساتھ نمودار ہوا۔بکری کے قریب پہنچ کر‘شیر نے گردن اٹھائی‘مچان کی طرف دیکھ کر زور سے دھاڑا تو مچان سے گولی چلنے کی بجائے‘ ’’دھپ‘‘ کی ہلکی سی آواز کے ساتھ بندوق بکری کے قریب آن گری۔صبح مزدور پارٹی واپس آئی تو تھوڑے ہی فاصلے پر جھاڑیوں میں بکری کی آدھی کھائی باقیات اور بندوق کے ساتھ مچان میں بے ہوش انگریز بہادر بھی موجود تھے‘جنہیںبڑی دقت سے درخت سے نیچے لایا گیا اور کندھوں پر اٹھا کر مزدوروں نے ہسپتال پہنچایا۔سنا ہے کہ وہ انگریز نوجوان پہلے دستیاب بحری جہاز میں واپس لندن لوٹ گیا‘پھر کبھی لوٹ کر نہیں آیا۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی(Zelensky)بکری کی طرح چارے کے طور منصب صدارت سے بندھے تھے‘اناڑی اور خوفزدہ امریکی شکاری کے ہاتھ سے نیٹو کی بندوق دھپ سے گری زمین پر گری پڑی ہے۔اس گری بندوق کو اٹھانے اور خوفزدہ شکاری کو کندھا دینے والا کوئی مزدور بھی دستیاب نہیں۔ جنگ کے لئے پرعزم قیادت‘قوم کا ارادہ‘ افواج کی تیاری‘ یہ عناصر موجود ہوں‘ دشمن کا پہلا وار قوم اپنے سینے پر لے‘مزاحمت کرے‘ لڑنے کا ارادہ ظاہر کر کے تو تب کوئی دوست‘ہمدرد ‘ اتحادی مدد کو شاید تیار ہو جائے‘جس طرح امریکہ کے خلاف ویت نام کی مدد کی گئی ۔روس کے افغانستان کی‘کبھی ایسا بھی ہوتا کہ سب دوست‘ہمدرد‘اتحادی بھی خوف میں مبتلا ہو کر بھاگ نکلتے ہیں‘پھر قوم کا ارادہ اور نوجوانوں کا گرم خون ہے جو اپنے کی حفاظت اور قوم کی آبرو کے آمادہ پیکار ہو کر شہادت کے منصب یا فتح کی خوشیوں اور آزادی کی نعمتوں سے سرفراز ہوتا ہے‘تاریخ انسانی کے حالیہ ایام میں افغانستان اس کی نمایاں مثال ہے!یوکرین کے صدر کی تقریر‘شیر کی دھاڑ نہیں‘کھونٹے سے بندھی بکری کی لاچار ممناہٹ ہے۔جرمن فوج کے سپہ سالار کا بیان ڈھارس دینے والوں کی بے چارگی کا کھلا اظہار ہے۔یہ عبرت ہے سب کے لئے جو امریکہ پر اعتبار رکھتے اور نیٹو کا سہارا چاہتے ہیں۔2020ء امریکہ کی عالمی طاقت مانے جانے والا آخری سال تھا۔افغانستان سے انخلا اس کی شکست اور یوکرین سے وعدہ خلافی اس کا اعلان عام ہے کہ امریکہ عالمی قیادت کے منصب سے معزول کر دیا گیا ہے۔اس کے سابقہ بہی خواہ ‘دوست‘ ہمدرد اور اتحادیوں کو اپنے مستقبل کی آپ فکر کرنا پڑے گی۔امریکی طاقت کا بھرم اور نیٹو کی قلعی کھل گئی‘اب یوکرین کو وہی کرنا ہے جو روس چاہے گا‘روس نے اپنا کھویا مقام حاصل کرنے کے لئے بڑی زقند بھری ہے‘وسط ایشیا ہی مشرق وسطیٰ‘جنوبی ایشیا اور مشرق بعید کی راہوں کے متلاشی ہیں۔ اندلس کا آخری حکمران عبدالرحمن شکست کے بعد جلاوطن ہونے کے لئے محل سے نکلا تو اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس کی ماں نے بڑے تاریخی الفاظ کہتے تھے‘جو ہر زبان کے لئے ضرب المثل بن گئے۔شکست خوردہ عبدالرحمن کو مخاطب کر کے کہا: جس وطن کی تم مردوں کی طرح حفاظت نہیں کر سکے‘اس پر اب عورتوں کی طرح آنسو کیوں بہاتے ہو؟ خود کردہ را علاج نیست۔یوکرین کی قیادت نے اپنی قوم کی کشتی کو خود ڈبویا ہے‘باہر سے کوئی آفت نہیں آئی۔شکست و ریخت کے بعد روس سے آزاد ہونے والی‘مشرقی یورپ اور وسط ایشیائی ریاستوں کی تعداد ایک درجن سے زیادہ ہیں‘ان آزاد ریاستوں میں یوکرین دولت‘ ثروت ‘افرادی قوت‘ قدرتی وسائل اور فوجی طاقت میں سب سے نمایاں تھا۔1991ء میں یوکرین امریکہ اور روس کے بعد سب سے طاقتور ایٹمی قوت تھا‘برطانیہ‘ فرانس‘ چین ‘بھارت‘ اسرائیل‘ پاکستان سب کے ایٹمی ہتھیار جمع کئے جائیں تب بھی وہ یوکرین کے ایٹمی اثاثوں کا دسواں حصہ بھی نہیں بنتے تھے۔یوکرین کے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد 3000تین ہزار سے 5000ہزار کے درمیان تھی۔افواج کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر جدید جنگی ہتھیار بنانے کی صلاحیت‘یوکرین کے عسکری ماہرین ‘دانشوروں اور بعض سیاستدانوں حتیٰ کہ بعض قریبی دوستوں نے بارہا مشورہ دیا کہ اپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کریں انہیں تلف کریں نہ روس کو واپس دیں مگر یوکرین کی قیادت نے دیرینہ دشمن امریکہ‘حریص ہمسائے روس اور دنیا کے سب سے بڑے مکار برطانیہ کے بہکاوے اور باتوں میں آ کر سارے کے سارے ایٹمی ہتھیار روس کے حوالے کر دیے۔برے دنوں میں کام میں لانے کے لئے جو پانچ بچائے اور چھپائے جا سکتے تھے وہ بھی نہیں کیا۔ ’’اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیاں جگ گئیں کھیت‘‘۔ موجودہ حالات اور حالیہ روس ‘یوکرین تنازعہ میں روس کا موقف صحیح اور اس کے دلائل مضبوط ہیں‘انصاف ‘عالمی قوانین‘ دوسری قوموں کی آزادی کا احترام یہ سب جوابات اور خیالات قابل عزت ہونے کے باوجود قوت و طاقت خصوصا عالمی قیادت کے دعوے دار ریاست کے قوانین‘خدشات‘ خطرے اور ان کے بچائو کے طریقے بھی اپنے ہیں۔عالمی طاقت کو اپنی حریف عالمی طاقت سے نمٹنے کے لئے ہر وقت چوکس اور ہوشیار رہنا ہی پڑتا ہے۔روس کو بہت بڑی شکست کھائے اور ہزیمت سے گزرے زیادہ وقت نہیں ہوا۔وہ پہلے ہی اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لئے موقع کی تلاش میں ہے تاکہ وہ اپنا کھویا مقام اور وقار پھر سے حاصل کر سکے۔ان حالات میں کیا وہ ٹھنڈے پیٹوں یہ گوارا کر سکتا ہے کہ وہ اپنے سب بڑے اور دیرینہ دشمن امریکہ اور اس کے اتحادی نیٹو ممالک اپنی سرحدوں اور دائرہ اثر کے اندر آن اور اس کے خلاف جال بچھانے کا موقع فراہم کرے۔ بہت بڑے بااثر اور طاقتور دشمن کا اپنی سرحد کے ساتھ بیٹھ جانے کے نتائج کو ہم پاکستانیوں سے زیادہ کوئی سمجھ سکتا ہے۔جس کے ہمسائے میں ایک طرف بھارت جیسا بڑا دشمن ہے جس سے بچائو کے لئے ہمیں ہزار جتن کے ساتھ ہر وقت ہوشیار اور خبردار رہنا پڑتا ہے۔اپنی آزادی اور وقار کے لئے ہم اپنے دفاع پر اپنے وسائل سے کہیں زیادہ خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔انہی حالات میں 1979ء روس افغانستان گھس آیا پھر 2001ء امریکہ تب افغانوں نے کیا کیا؟اور ہمارا ردعمل کیا تھا؟