بیماری، دستاویزات،مقدمے ، فیصلے، ویڈیوز ،ووٹ،مینڈیٹ ، حکومت، احتجاج، دھمکیاںاور ادارے ۔ کیا یہاں سب کچھ جعلی ہے؟ اخلاقیات توخیر پہلے ہی عنقا ہو چکی ہیں ، الزامات عائد کرنے کا چلن بھی نیا نہیں،سیاسی فائدے کی خاطر اداروں کو رگیدنے کی کہانی بھی پرانی ہے لیکن جو کچھ اب ہو رہا ہے اور جتنی شدت سے ہو رہا ہے ، اس نے سیاستدانوں سے امیدیں باندھنے والوں کو شدید ہیجان اور بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے ۔ سیاستدانوں کی جانب سے بہت تیزی کے ساتھ یہ تصور معاشرے میں پروان چڑھایا جا رہا ہے کہ پاکستان کے ادارے غیر جانبدار نہیں ہیں۔ فواد چودھری نے ہمیں بتایا کہ الیکشن کمیشن اپوزیشن کا آلہ کار ہے ، اپوزیشن نے یہ منترا بار بار سنایا کہ نیب عمران خان کے گھر کی لونڈی ہے۔ نواز شریف یہ کہتے تھکتے نہیں کہ انہیں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار سے بے دخل کیااور یہ بھی کہ عدالتیں اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر چلتی ہیں ۔یہ کہانی بھی گھوم گھام کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ بیوروکریسی میں ن لیگ کے حمایتی بیٹھے ہیں اس لیے کام نہیں کرتے ۔ سیاستدان ہمیں بتاتے ہیں کہ اپنی مرضی کے افسر لگانے کے لیے حکومت کے اتحادیوں میں جھگڑا رہتا ہے۔ پولیس افسر لگاتے ہوئے خیال رکھنا پڑتا ہے کہ وہ پچھلی حکومت کا حمایتی تو نہیں ۔ کونسا ادارہ بچا ہے جس کی غیر جانبداری کے تاثر کو مسخ نہ کیا گیا ہو۔ شاہد خاقان عباسی ، مریم اورنگزیب، احسن اقبال ، رانا ثناء اللہ اور عطاء اللہ تارڑ ہر پریس کانفرنس اور ہر ٹاک شو میں ’’نیب نیازی گٹھ جوڑ ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جو بلا روک ٹوک نشر ہوتی ہے ۔کوئی انہیں بلا کر نہیں پوچھتا کہ پاکستان کے ایک اہم ترین ادارے کا تشخص مسخ کرنے کاجواز فراہم کریں ،اس گٹھ جوڑ کے ثبوت دیں ورنہ الزام کی ایک سزا ہوتی ہے۔ قوم کو آج تک یہ بھی معلوم نہیں کہ نواز شریف کے پلیٹ لیٹس واقعی کم ہوئے تھے یا محکمہ صحت بھی کٹھ پتلی ہے ۔ ہمارے سیاستدانوں نے ہی ہمیں بتایا ہے کہ نوازشریف کے پلیٹ لیٹس کم ہو گئے اور ان کی جان کو خطرہ تھا، پھر ہمارے سیاستدانوں نے ہی ہمیں بتایا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا بلکہ سب جھوٹ تھا، گویا محکمہ صحت منصوبہ سازوں کے ساتھ مل گیا تھا۔ سوشل میڈیا پرایک بڑے صوبے کی عدالتوں کے خلاف ایک مہم چلا کر عوام کے ذہنوں میں بٹھا دیا گیا ہے کہ یہ عدالتیں ایک خاص خاندان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں ۔اب اگر کوئی غیرجانبدار جج خالصتا آئین و قانون کی روشنی میںبھی فیصلہ دے اور وہ فیصلہ ایک خاص خاندان کے حق میں جاتا ہو تو بھی سماعت اور فیصلے کے مندرجات دیکھے بغیر تاثر قائم کر لیا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ کسی کو فائدہ پہنچانے کے لیے دیا گیا ہے۔ ان سب باتوں سے عوام میں یہ تاثر تقویت پکڑ گیا ہے کہ کچھ بھی حقیقی نہیں ، سب کچھ یہاں جعلی ہے۔ ادارے ، بیماری، دستاویزات،مقدمے ، فیصلے، ویڈیوز ،ووٹ ، حکومت، احتجاج اور دھمکیاں۔یہاں سب کچھ جعلی ہے۔ کیا کسی کو ادراک ہے کہ سیاسی مفادات کے لیے اداروں کے تشخص کو مسخ کرکے پاکستان کو کتنا نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ کونسا ادارہ بچا ہے جس کا عوام میں یکساں احترام باقی ہو۔ کونسا ادارہ بچا ہے جو دشنام طرازی کی زد میں آنے سے رہ گیا ہو۔اگرعدلیہ اور مقننہ سمیت واقعی سب ادارے کٹھ پتلی ہو گئے ہیں تو کیسا ملک، کونسا نظام اور کاہے کی قوم۔ اب تازہ کہانی میں ایک سابق چیف جج ایک دوسرے سابق چیف جسٹس پر الزام عائد کرتے ہیں۔ یہ الزام وہ صرف سابق چیف جسٹس پر ہی عائد نہیں کرتے بلکہ ایک حاضر سروس جج پر بھی عائد کرتے ہیں۔ اس الزام کی حقیقت جانے بغیر ہماری سیاسی جماعتیں اپنی اپنی مرضی کے فیصلے کشید کرنے لگتی ہیں خاص طور پہ وہ جماعت جو اس میں براہ راست ایک فریق ہے ۔ اداروں کی عزت کو بلا سوچے سمجھے پامال کیا جا رہا ہے۔ اتنے بڑے الزام کے عدالت میں ثابت ہونے سے پہلے رنگ رنگ کے تبصرے کر کے عدلیہ کے تشخص کو پامال کیا جا رہا ہے۔ مجال ہے کوئی چند دن کو ٹھہر جائے اور حقیقت کو پوری طرح سے سامنے آنے دے۔ پاکستان کی تمام ہی سیاسی جماعتوں کا یہ وطیرہ معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی مفاد ترجیح ہے چاہے وہ ریاستی اداروں کے تشخص کی پامالی کی قیمت پر ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے نتیجے میں ایک رائے عامہ تخلیق پا چکا ہے ۔ عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے یہاں سب کے سب سیاسی مفادات کی دوڑ میں ہیں ، پولیس کو سیاستدانوں نے گھر کی باندی بنا لیا ہے ، پولیس کرپٹ اور طاقتور کی غلام ہے۔ تاثر قائم کر دیا گیا ہے کہ ہمارے ہاں جج خریدے جا سکتے ہیں ، تاثر قائم کر دیا گیا ہے کہ یہاں کوئی حکومت عوام کے ووٹ سے وجود میں نہیں آتی ۔ تاثر ہے کہ رشوت سے سب کام ہو جاتے ہیں ، بیوروکریسی کرپٹ ہے ۔ فائل کو پہیے لگانے پڑتے ہیں ۔ تاثر ہے کہ جو کرتی ہے اسٹیبلشمنٹ کرتی ہے ، تاثر ہے کہ حکومتیں تو یہاں کٹھ پتلی ہیں ۔ اس طرح کے تاثر قائم کر کے شاید سیاستدان اپنی سہولت کا ایک کمزور ملک چاہتے ہیں جہاں ادارے کمزور ہوں اور ان اداروں کو اپنی انگلیوں پر نچایا جا سکے ۔ تبھی تو وڈیروں نے نجی جیلیں بنا رکھی ہیں۔ کمزور کو تشدد کر کے مار دیا جائے تو پولیس کارروائی کی جرأت نہیں کرتی۔ ایف آئی آر کٹانے کے لیے لاش سڑک پر رکھ کر احتجاج کرنا پڑتا ہے۔ اداروں کے کمزور ہونے کا تاثر قائم کر کے ہی ادارے کمزور کیے جا رہے ہیں۔ شاید سیاستدانوں کے یہی فائدے میں ہے ۔