سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹرپروزیر اعظم عمران خان نے ایک مذہبی تنظیم کی سرگرمیوں پرپابندی اور اسے کالعدم قراردینے کے فیصلے کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ریاست کی عملداری کو چیلنج کرنے، پرتشدد راستہ اختیار کرنے ، شہریوں اورقانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے کرنے کی پاداش میںاس کے خلاف کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت کارروائی کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ کوئی بھی قانون اور آئین سے بالاتر نہیں ہے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ ہم مسلمان نبی کریم ﷺ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ ان کی شان میں کسی قسم کی گستاخی برداشت نہیں کر سکتے۔مغرب میں دائیں بازوں کے سیاست دانوں سمیت آزادی اظہار کی آڑ میں مذہبی منافرت پھیلانے والے انتہا پسندوں کو اپنے اس رویے پر ایک ارب 30 کروڑ مسلمانوں سے معافی مانگنی چاہیے۔ انہوں نے ایک بار پھر اپنا مطالبہ دہرایا کہ جس طرح مغربی حکومتوںنے ہولوکاسٹ پر منفی تبصروں کو غیر قانونی دیا ہے۔ اسی طرز پرنبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کے مرتکب افراد کو مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا نے کے جرم میںسزاد ی جائے ۔ حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کو برداشت نہ کرنے کے معاملے پرپاکستان ہی نہیں بلکہ پوری مسلم دنیا میں مکمل یکسوئی اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ یہ ایک ایسا ایشو ہے جہاں کسی فرقے یا ذات کی کوئی تمیز باقی نہیں رہتی۔ مذمت، احتجاج اور پرتشدد واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے لیکن اس کے باوجود کوئی نہ کوئی شخص نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایسی حرکت کر گزرتاہے کہ مسلمانوں میں غم اور غصے کی ایک لہر اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔عمومی طور پر مسلمان مغرب کے ان فتنہ پرداروں کا کچھ بگاڑ نہیں پاتے لیکن غصے میں اپنی ہی جائیدادوں کو بھسم کردیتے ہیں اور ہم وطنوں کو ایذا پہنچاتے ہیں۔ ریاستی اداروں پر حملے اور عام شہریوں کو زدوکوب کرتے ہیں۔چنانچہ قانون نافذ کرنے والوں اداروں اور احتجاجی ہجوموں کے درمیان مڈبھیڑ ہوتی۔ہم اپنے جسم اور روح پر زخم لگاتے ہیں ۔ دنیا یہ مناظر دیکھتی ضرور ہے لیکن ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ اہل مغرب مسلمان معاشروں کو عدم برداشت کا شکارہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔عالمی میڈیا میں تلواریں لہراتے لوگوں کی تصویریں چھپتی ہیں تو دنیا مسلمانوں سے خوف کھا جاتی ہے۔مسلمانوں کا پیغام محبت محدود سے محدود تر ہوجاتاہے۔ وہ اپنا مقدمہ بیان ہی نہیں کرپاتے۔وزیراعظم عمران خان نے توہین رسالت کے مقدے کو دلیل اور جرأت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ محض اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہی اس کا ذکر نہیں کیا بلکہ جہاں بھی انہیں موقع ملاانہوں نے دنیا کو سمجھانے کی کوشش کی کہ رسالت ماب ﷺسے عقیدت اور محبت کا رشتہ ایک معمولی ہے اور عقائد کا حصہ ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اسے قربان نہیں کیا جا سکتا ہے۔ حکومت پاکستان کی کوشش سے مسلمانوں کی سب بڑی تنظیم او آئی سی کے پلیٹ فارم سے بھی یہ مسئلہ اٹھایا جاتارہاہے اور اب مزید شدت کے ساتھ اجاگر کیا جارہاہے۔ یہ مسئلہ محض پاکستان یا کسی ایک گروہ کا نہیں بلکہ ایک ارب 30کروڑ مسلمانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔اس کے حل کے لیے مشترکہ کوششوں اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان مسلم ممالک کے دیگر حکمرانوں کے اشتراک سے عالمی سطح پر ایک ایسا قانون بنوانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، جو ہمیشہ کے لیے توہین رسالت کے مسئلہ کو حل کردے۔ کسی سفیر کو ملک بدر کردینے یا اس ایک مغربی ملک کے ساتھ تعلقات کے خاتمے سے یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید الجھ جائے گا۔ مغرب کے اندر اسلامو فوبیا کی ایک بہت بڑی لہر اٹھی ہے۔ سفید فام اکثریت کے اندر یہ احساس جاگزین ہوچکا ہے کہ مسلمانوں کی مغربی ممالک میں مسلسل آمد اور سفید اقوام کی آبادی میں سست اضافے کے باعث وہ اقلیت میں بدل سکتے ہیں۔مسلمان یاا سلام مغرب کا سب سے بڑا مذہب بن سکتاہے۔لہٰذا مغربی ممالک میں ایسی جماعتوں کی تعداد اور حمایت میں مسلسل اضافہ ہورہاہے جو مسلمانوں کے خلاف منظم انداز سے نفرت پھیلاتے ہیں۔فرانس میں اسلاموفوبیا کی پذیرائی غیر معمولی حد تک پہنچ چکی ہے کیونکہ وہاں چالیس لاکھ کے قریب مسلمان آباد ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں ایک لاکھ کے قریب مقامی نو مسلم بھی شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب کون سا طریقہ اختیار کیا جائے کہ مسلمان اپنے جذبات کا اظہار بھی کرسکیں اور اپنی املاک کو نقصان پہنچانے یا قانون توڑنے سے بھی بازرہیں۔یاد رہے کہ متحدہ ہندوستان کے زمانے میں لوگ پرتشدد مظاہرہ اس لیے کرتے تھے کہ انگریز حکومت ان کے مطالبات پر دھیان نہیں دیتی تھی۔شہریوں کے خلاف تشدد کا راستہ اختیار کرتی تھی۔اب حالات اس کے برعکس ہیں۔ پارلیمنٹ اور حکومت میں موجود لوگ بھی حب رسول ﷺ سے سرشار ہیں۔ وہ ان مطالبات کے مخالف ہیں اور نہ انہیں ناجائز تصور کرتے ہیں لیکن مظاہرین اور ان کی لیڈرشپ جو طریقہ کار اختیار کرتی ہے وہ شہریوں کے لیے مشکلات پیدا کرتاہے۔ ہجوم کنٹرول سے باہر ہوجاتاہے ۔اپنے ہی ہم وطنوں پر تشدد پر اترآتا ہے۔ قانون کی دھجیں اڑاتاہے۔حالانکہ پرامن طریقے سے بھی احتجاج کیاجاسکتاہے۔ مخصوص راستوں پر دھرنا دیاجاسکتاہے۔ دنیا میں عدم تشدد کے طریقوں کے ذریعے بھی اپنی آواز بلند اور منوانے کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پراحتجاجی آرٹ ، شاعری، لابنگ، رضاکارانہ طور پر مصنوعات کابائیکاٹ ، قانونی / سفارتی کوششیں وہ پرامن طریقے ہیں جنہیں آزمایا جاسکتاہے۔ مغربی ممالک میں لابنگ کے ایسے ادارے موجود ہیں جو ان حساس موضوعات پر رائے عامہ ہموار کرنے کے کام کرسکتے ہیں۔مقامی عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایاجاسکتاہے۔ عالم گیر شہرت رکھنے والی شخصیات اس طرح کے موضوعات پر اظہار خیال کرسکتی ہیں تاکہ توہین رسالت کے مرتکب افراد یا ان کی پشت پناہی کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو۔ لہذا انھوںنے جو طریقہ کار اختیار کیا وہ معاشرے میںتشدد پیداکرنے اور ریاستی اداروں سے پنجہ آزمائی کا تھا۔ ریاست کے ساتھ مقابلہ سیاسی طریقوں سے تو کیا جاسکتا ہے طاقت کے زور پر نہیں۔اسے یہ ادراک ہی نہ تھا کہ پاکستان کی سیاسی اورتزویراتی فکر میں نوے ڈگری کی تبدیلی آچکی ہے۔ ایسے گروہ جو پرتشدد ذرائع سے حکومت کو گراتے تھے یا پھر مطالبات منواتے تھے رفتہ رفتہ غیر فعال اور بے اثر کردیئے گئے ہیں۔کئی ایک کے لیڈر جیلوں میں ہیں یا پھر گھروں میں نظربند ہیں ۔گلیوں اور بازاروں میں افغانستان یا کشمیر کے نام پر عطیات جمع کرنے کا سلسلہ تمام ہوچکا ہے۔ ریڈیو، ٹی وی چینلز اور اخبارات میں ایسے عناصر کی تصور تک نہیں چھپتی ،جن کا گزرے سالوں میں فاتحین جیسا استقبال کیا جاتاتھا۔ ریاست نے الطاف حسین تک کو لگام دینے میں تاریخی کامیابی حاصل کی۔ان کامیابیوں پر کسی کو پانی پھیرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔لہٰذا جو بھی گروہ قانون اپنے ہاتھ میں لے گا وہ نہ صرف اپنی راہ کھوٹی کرے گا بلکہ اپنے لاکھوں حامیوں کے لیے بھی مشکلات پیدا کرے گا۔