ایک چالاک لومڑی نے خونخوار بھیڑیے کو چاند کا عکس دکھا کر کہاکہ وہ دیکھو چربی کا ایک ٹکڑا وہاں پڑا ہوا ہے اور بیوقوف بھیڑیے نے اس ٹکڑے کی طلب میں دریا میں چھلانگ لگا دی ۔ڈوب کے مر گیا بیچارہ۔ مصطفی کمال نے نہ جانے یہ فیصلہ کیوں کیا۔ صبر کا دامن ان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ابھی انہیں لگا ہو گا یا بتایا گیا ہو گا کہ وہ ناکام ہونے جا رہے ہیں اوریہ کہ انہیں آئندہ انتخابات سے بھی کچھ نہیں ملنے والا۔اِس وقت تو حالات واقعی ایسے ہی تھے، مگر مستقل مزاجی ہی کامیابی کی کنجی ہوتی ہے۔ وہ لگے رہتے، انتظار کرتے، حالات یقینا ان کے لیے ایک دن ساز گار ہو جاتے۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے عمران خان مسلسل ناکامیوں سے تنگ آ کر تحریک انصاف کو کسی دوسری جماعت میں ضم کر لیتے تو وزیر اعظم بن پاتے نہ پاکستان کے مقبول ترین لیڈر۔ مصطفی کمال پاکستان کا پرچم لہرا کر، پاک سر زمین کا نعرہ لگا کر بڑے طمطراق سے میدان سیاست میں اترے اورآج مہاجر مہاجر کرتے اسی لسانی جماعت میں لوٹ گئے ناکامی جس کا مقدر بن کے رہ گئی ہے۔ نہ جانے کس کے مشورے سے مصطفی کمال وقت کی ایک نہایت غیر مقبول جماعت کا حصہ بنے اور پھر نہ جانے کس کے مشورے سے اس جماعت نے انتخابات کا بائیکاٹ کر کے اپنے پیروں پہ کلہاڑی مار لی۔ میدان خالی چھوڑنا بھلا کہاں کی عقلمندی ہے۔انتخابات کا بائیکاٹ کر کے ایم کیو ایم نے یہ تاثر قائم کیا کہ اس وقت وہ انتخابی میدان میں اترنے کے قابل ہی نہ تھے،دوسرااپنا میدان کسی اور کے حوالے بھی کر دیا۔ فائدہ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی دونوں نے اٹھایا۔کوئی اسے سمجھائے کہ دوسروں کے مشوروں پہ عمل کرتے کرتے ایم کیو ایم کس نہج پہ پہنچ گئی ہے۔ مجھے وہ پہاڑی آدمی یاد آتا ہے جس کی صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں تھیں۔اسے بیٹے کی بڑی خواہش تھی۔ ہوا یہ کہ اس شخص کو ہر کوئی مشورے دینے لگا کہ یہ کرو تو بیٹا ہو گا اور یہ نہ کرو اگر بیٹا چاہتے ہو۔ اسے لوگوں نے اتنے مشورے دیے کہ مشوروں کی بھرمار سے وہ شخص جھنجلا گیا اور ایک روز چلا اٹھا، ’’ خدا کے لیے میری جان بخش دو ،تم لوگوں نے مجھے اتنے مشورے دیے ہیں کہ اب میں وہ طریقے بھی بھول گیا ہوں جو مجھے خود آتے تھے‘‘۔ یقین کیجئے مصطفی کمال صاحب! مشورے دینے والے مت مار دیتے ہیں ، وہ اپنے خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے دوسروں کو استعمال کرتے ہیں۔ پہلے بھی تو آپ سے یہی کہا گیا ہو گا کہ پاک سر زمین پارٹی بنائو تمھیں قومی سطح کا لیڈر بنا دیں گے اور یہ کہ الطاف حسین کا خاتمہ قوم اور ملک و ملت کی بڑی خدمت ہو گی۔ اور اب کہا گیا ہو گا کہ کب تک پاک سر زمین پارٹی چلانے کی کوشش کرتے رہو گے ، بڑی جماعت میں آ جائو،تمہیں تھوڑے عرصے بعد ایم کیو ایم کا ہی سربراہ بنا دیں گے اور آپ ایک بار پھر اُن کی باتوں میں آ گئے۔ کوئی خود فریبی کو تیار بیٹھا ہو تو کیا کیجئے ۔ ایم کیو ایم ایک ہاتھ میں بیک وقت دو تربوز اٹھائے پھر رہی ہے اور خواہش اس کی یہ ہے کہ ایک بھی نیچے نہ گرے۔وہ عوام میں مقبولیت بھی چاہتی ہے اور تاریخ کی سب سے غیر مقبول حکومت کے اتحاد کا حصہ بھی بنی بیٹھی ہے۔ پیپلز پارٹی کو وہ کراچی کے مسائل کی جڑ بھی سمجھتی ہے اور بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کر کے کراچی پر مسلط ہونے کے لیے اس کی معاونت بھی کی۔ ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کو اردو بولنے والوں کے حقوق کا غاصب بھی سمجھتی ہے اور اسی کے وعدوں پر یقین کر کے تیرہ جماعتی اتحاد کا حصہ بھی بن گئی۔ ایم کیو ایم عمر بھر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ لڑتی رہی اور اب اسٹیبلشمنٹ کی گڑیا بن کے رہ گئی ہے۔ اس وقت ایم کیو ایم کی مقبولیت کا گراف تاریخ کی بدترین تنزلی پر ہے، جانے کیا سوچ کر مصطفی کمال اس کا حصہ بننے پر راضی ہوئے۔ کراچی کے حالیہ انتخابات میں جماعت اسلامی کی جیت کے امکانات خاصے روشن تھے مگر جادو گروں کی جادوگری نے کچھ ایسا کمال دکھایا کہ خود پیپلز پارٹی کو بھی یقین نہ آیا ہو گا یہ کیا ہو گیا۔ پیپلز پارٹی نے کراچی میں یوں اپنی اکثریت کا تصور بھی نہ کیا ہو گا۔جماعت اسلامی والے ہاتھ میں فارم گیارہ اور بارہ لیے پھر رہے ہیں جن پر درج حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کیے گئے نتائج سے مختلف ہے۔مگر اب آپ احتجاج کیجیے یا اپنا سر دیوار پہ ماریے یہاں کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ اگر یہاں شفاف انتخابات ہی نہیں کرائے جا سکتے جس پر سب کو اطمینان ہو تو نظام کیا خاک بنے گا۔ بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف سے البتہ اسی کارکردگی کی توقع تھی۔ عمران خان نے صحیح کہا کہ کراچی میں ان کی تنظیم کمزور ہے۔ فردوس نقوی اور علی زیدی اپنی کمزوری چھپانے کے لیے پیپلز پارٹی کی مبینہ دھاندلی کو مورد ِ الزام ٹھہرا رہے ہیں ۔فردوس نقوی کی یہ دلیل کمزور ہے کہ اسی تنظیم نے محمود مولوی کا الیکشن جتا کے دیا، اسی تنظیم نے نیر بخاری کے مقابلے میں عمران خان کو اٹھاون ہزار ووٹ دلائے اور اسی تنظیم نے 2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف کو چونتیس سیٹیں دلائیں۔ فردوس نقوی کو سمجھنا چاہیے کہ بلدیاتی انتخابات سے نیر بخاری اور محمود مولوی والے انتخابات کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا ، بلدیاتی انتخاب گلی محلے کے مسائل کا انتخاب ہے۔ کراچی میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ گلی محلے کی سطح پر تنظیم یا تو ایم کیو ایم کے پاس ہے یا پھر جماعت اسلامی کے پاس۔ ایم کیو ایم سے لوگ شدید نالاں ہیں اسی لیے انہوں نے جماعت اسلامی کا انتخاب کیا۔ تحریک انصا ف خود فریبی سے نہ نکلی تو اگلے انتخابات میں نقصا ن ہو گا۔ اگر انہیں لگتا ہے کہ تنظیم کو مضبوط کیے بغیر صرف عمران خان کی مقبولیت کی بنیاد پر الیکشن لڑنا ہے تو پھر ہو گئی جیت۔یاد رہے مقابلے میں پیپلز پارٹی ہے جس کی چالوں کو مات دینا آسان نہیں ۔ بعد میں کرتے رہیے گا احتجاج، کسی کو کیا فرق پڑے گا۔