قرآن کریم میں اللہ فرماتے ہیں ، ہم نے تمہاری جنس میں باہم جوڑے بنادیے تاکہ تمہاری نسل زمین میں پھیلے (الشوریٰ)،اور اس جوڑے بنانے کوکئی جگہ اپنی نشانی کے طور پر ذکر کیاکیونکہ اس کے ذریعے خدا نے انسان اور دیگر مخلوقات کی زمین میں بقا کا بندوبست کیا ہے۔پھر انسان چونکہ اشرف المخلوقات ہے تو اسے اس تعلق کے لیے نکاح کا پابند کیا ہے تاکہ نئے آنے والے انسان کو محفوظ اور محبت بھرے ماحول کی ضمانت ملے۔قرآن یہ بھی بتاتا ہے کہ خدا نے دو اصناف نر اور مادہ بنائیں (واللیل)یہ بھی بتایا کہ لڑکے اور لڑکی میں فرق ہے(اٰل عمران)۔ سوال یہ ہے کہ پھر تیسر ی جنس کہاں سے آئی؟اس کوسمجھنے کے لیے طبی،معاشرتی،اور نفسیاتی تینوں پہلوؤں کو الگ کرنا ضروری ہے۔ یہ انسان جنہیں تیسری جنس،خنثی ، خواجہ سرا ،ہیجڑایا ایسے ہی دیگر ناموں سے پکارا جاتا ہے،انسانی تاریخ میں ہر معاشرت، ہر خطے میں موجود رہے ہیں،بیشک ان کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم رہی ہو۔ان کی جسمانی ساخت میں جنس واضح نہیں ہوتی تھی۔نبی کریمﷺ کے دور میں یہ نماز پڑھتے ،جہاد اور دیگر امورِ خیر میں شریک ہوتے، جب معاشرت کے احکامات آچکے، محرم نامحرم کی تہذیب انسانیت کو مل گئی،تب یہ اندرون خانہ آتے جاتے تھے یہاں تک کہ اِدھر کی باتیں اْدھر کرنے پر انہیں عورتوں میں بے روک ٹوک آنے سے منع فرما دیا گیا۔اس کے سوا شریعت ان کے انسانی حقوق، معاشرے میں کردارکے لیے کوئی فرق روانہیں رکھتی، یہ کسی بھی انسان کی طرح مکمل، باصلاحیت، ذمہ داراور خدا کو جواب دہ ہیں۔یہ اسی طرح ہیں جیسے پیدائشی طور پہ ماں کے پیٹ میں جنین کے بعض اعضا نارمل طریقے سے نشونما نہیں پاتے اور پیدا ہونے والے بچے کو یا تو اس نقص کے ساتھ جینا پڑتا ہے یا پھر علاج ممکن ہو تو کروا لیا جاتا ہے۔مگر چونکہ یہ نقص جنسی بناوٹ یا تولیدی نظام سے متعلق ہوتا ہے اس لیے ایسے انسان کو خوامخواہ تیسری جنس سے موسوم کردیا جاتا ہے۔ پرانے زمانوں میں بہت سے پیدائشی نقائص کا علاج نہیں ہوتا تھاجو اب میڈیکل سائنس کی ترقی سے سرجری اور علاج سے ٹھیک ہو جاتے ہیں یا نقص کی شدت کم ہو جاتی ہے اورنارمل زندگی کسی حد تک ممکن ہوتی ہے۔ جنسی یا تولیدی نظام کا مسئلہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ میں ڈاکٹر انصر جاوید کا ذکر کرنا چاہوں گی جو اپنے رفاہی ادارے میں ایسے بچوں کا علاج کرتے ہیں اور بیشمار دعائیں لیتے ہیں۔ ایک مقامی چینل پر ان کی گفتگو سنی جس نے بہت سی گتھیوں کو سلجھایا۔ جو بات سمجھ میں آئی وہ یہ ہے کہ یہ انٹر سیکس یا ہیجڑاپن چار قسم کا ہوتا ہے۔ پہلے وہ جو بطور جنین اپنی شناخت رکھتے تھے خواہ لڑکی یا لڑکا، مگر پیدائش کے وقت تک اپنی جنس کے مطابق ان کے اعضا ٹھیک سے نہ بن سکے۔یہ افزائش نسل کے قابل نہیں ہوتے اوران کا معاملہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے دیگر بانجھ مردو خواتین کا ہے، ان کے لیے اپنی جسمانی ساخت کے مطابق اپنی شناخت اختیار کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔یہ اس طبقے کا محض دو فیصد ہیں۔ دوسرے وہ جو دہرے نظام کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ ایک خاص عمر کو پہنچ کر ٹیسٹ کے ذریعے پتہ لگایا جاتا ہے کہ ان کا کارآمد نظام کون سا ہے، اسے رکھ کر دوسرے کمزور نظام کو سرجری اور علاج کے ذریعے جسم سے ختم کر دیا جاتا ہے اور وہ ایک متعین جنس کے ساتھ نارمل زندگی گزارتے ہیں۔ تیسری قسم میں اسّی سے نوے فیصد لڑکیاں ہوتی ہیں جو مکمل تولیدی نظام کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں مگر نسوانی حصے کی بناوٹ نامکمل رہ جاتی ہے۔ سرجری کے ذریعے ان کا نقص بھی دور کرکے ان کو شادی اور ماں بننے کے قابل بنا دیا جاتا ہے۔ چوتھی قسم وہ ہے جس میں پیدائش پر ظاہری اعضا واضح نہ ہونے کی وجہ سے ماں اپنا اندازہ لگاتی ہے اور ایک جنس کی شناخت دے کر بچے کو پالتی ہے۔ بلوغت کے قریب پہنچنے پر جسم میں ہارمونزبنتے ہیں اور اصل جنس واضح ہونے لگتی ہے جو ماں کی دی ہوئی شناخت سے مختلف ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں ٹیسٹ کے ذریعے ایکس وائے کروموسومز کا تناسب جانا جاتا ہے، دو یا تین سرجریاں ہوتی ہیں، کچھ عرصہ ٹریٹ منٹ ہوتی ہے اور بالآخر اس بچے کی اصل جنس واضح ہو جاتی ہے، وہ بھی اس کے بعد نارمل زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ڈاکٹر انصر نے بتایا کہ اب تک ان کے رفاہی ادارے کے تحت ۱۷۱ایسے افراد سرجری کے بعدواضح جنس کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ ہم اکثر لڑکا لڑکی بن گئی یا لڑکی لڑکا بن گیا قسم کی خبر سنتے ہیں، جبکہ ایسے تمام کیسز میں جنس تبدیل نہیں ہوتی ، درست ہوتی ہے یا متعین ہوتی ہے۔جتنا اس معاملے میں آگاہی پھیلے گی اور علاج کے ادارے موجود ہوں گے جو اس مہنگے علاج کوزکوٰۃ فنڈ سے ممکن بنا رہے ہیں،ایسے افراد صحت مند اور نارمل زندگی گزاریں گے اور معاشرے میں ان کا تناسب مزید کم ہوتا جائے گا۔ اس تفصیل کو جان لینے کے بعد ، کہ ہیجڑاہونا بہت سے پیدائشی نقائص کی طرح ایک نقص ہے اور زیادہ تر صورتوںمیں قابل علاج ہے،اور جن کا علاج نہیں ہوتا (جن کی تعداد بہت ہی کم ہے)وہ بھی اپنی ایک صنف متعین کرکے معاشرے کا کار آمدحصہ بن سکتے ہیں ،تیسری جنس کی اصطلاح بے کار معلوم ہوتی ہے اور فطری سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس وقت جو ساری دنیا کو ایل جی بی ٹی نام کا ’وختا‘ ڈال دیا گیا ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟بیرونی دنیا سے کسی بھی معاملے میں اپنا ڈیٹا بھرتے ہوئے جنس کے خانے میں مردعورت کے ساتھ کوئی اور((other یا غیر متعین (unspecified) کاآپشن کیوں آتا ہے؟ اور ہمارے ہاں کچھ لوگ اس معاملے میں بڑھ چڑھ کر کیوں بول رہے ہیں؟اس کے لیے ہمیں ایک اور اصطلاح کے بخیے ادھیڑنے ہوں گے اور وہ ہے ٹرانس جینڈر یا مخنث۔ (جاری ہے)