جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر بھارت اور پاکستان کی افواج کے درمیان ہوئے سیز فائر کے100دن مکمل ہو چکے ہیں۔ اس دوران دو معمولی واقعات کے علاوہ عمومی طور پر جنگ بندی پر دونوں افواج نے مکمل طور پر عمل کیاہے۔ جموں ڈوئژن کے اکھنور، بشنہ، سانبہ ، ہیرا نگر اور کٹھوعہ کے علاقوں میں کسان اس سال کھیت جوتتے اور فصلوں کی بوائی کرتے ہوئے نظر آئے۔ سرحدی علاقوں کی آبادی نے دونوں اطراف میں میں مارٹرز اور توپوں کی گھن گرج سے آزادی تو حاصل کرلی، مگر ان 100دنوں میں وادی کشمیر کے اندر 35کے قریب پرتشدد واقعات میں 57افراد جاں بحق ہوگئے۔ اسی دوران سکیورٹی افواج نے آپریشنز کے دوران 20سے زائد مکانات کو زمین بوس کرکے اسکے مکینوں کوبے گھر کر دیا۔ حال ہی میں بھارت کے سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا، سابق معروف بیوروکریٹ وجاہت حبیب اللہ ، بھارتی فضائیہ کے سابق نائب سربراہ کپل کاک،سوشل ورکر شاشوبھا بھاروے او ر سینئر صحافی بھارت بھوشن پر مشتمل’’ فکرمند شہریوں‘‘کے ایک گروپ کے نام سے وادی کشمیر کا دورہ کیا۔ دہلی واپسی پر انہوں نے ایک رپورٹ میں خبر دار کیا ہے کہ خطے میں جاری مایوسی اور ناامیدی کی کیفیت ایک خطرناک رخ اختیار کر سکتی ہے۔ گو کہ شہروں و قصبو ں میں بظاہر حالات معمول پر ہیں، سڑکوں و گلیوں میں فورزسز کے اہلکار نسبتاً کم تعداد میں پٹرولنگ کرتے نظر آئے، مگر احساس شکست اور اسکے خلاف زمینی سطح پر تہہ در تہہ اضطراب سے پریشرککر جیسی صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ یہ خطہ کورونا وبا پھوٹنے سے قبل ہی لاک ڈاون کی زد میں ہے۔ پچھلے دو سالوں سے بزنس و دیگر ادارے تہس نہس ہو چکے ہیں۔ لگتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت اپنا ہر قدم مقامی آبادی کو زیر کرنے اور دہلی میں ہندو قوم پرستوں کو ایک طرح سے لذت فراہم کرنے کی غرض سے اٹھا رہی ہے۔ سول سوسائٹی سے وابستہ افراد نے اس گروپ کو بتایا کہ پچھلے دو سالوں میں انہوں نے اس قدر رسوائی سہی ہے کہ 70سالوں میں بھی کھبی اپنے آپ کو اتنا زخم خوردہ نہیں پایا ۔ یکے بعد دیگر احکامات جیسے روشنی ایکٹ کو کالعدم کرنا، غیر ریاستی باشندوں کو شہریت دینا، اردو زبان کو پس پشت ڈالنا اور اسمبلی حلقوں کی نئی حد بندیاں کرنا ، کشمیریوں کی نفسیات کو چوٹ پہنچانے کاکام کر رہے ہیں۔ان احکامات کی حالیہ مثال ’’ملک دشمن سرگرمیوںــ‘‘ کا نوٹس لینے کے نام پر چھ سرکاری ملازمین کو برطرف کرنا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ لسٹ خاصی لمبی ہے اور اگلے کئی ماہ تک مزید افراد ملازمت سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔سرکاری ملازمین کی سرگرمیوںپر نظر رکھنے کیلئے ایک ٹاسک فورس تشکیل دیا گیا ہے۔ لیفٹنٹ گورنر کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ سرکاری ملازمین کو بغیر کسی تفتیش کے اور بس اپنی صوابدید کا استعمال کرتے ہوئے ملازمت سے برطرف کرنے کے احکامات صادر کرے۔ حیرت کا مقام ہے کہ گورنر صاحب نے اپنی صوابدید کا استعمال تو کردیا، مگر پولیس کا کہنا ہے کہ ان میں کئی افراد کا اس کے پاس کوئی ’’مجرمانہ ‘‘ ریکارڈ نہیں ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ جموں و کشمیر ایک ایسا بدقسمت خطہ ہے، جوقانون و آئین کی عملداری سے مبرا ہے۔ یہاں حکمران لوگوں سے روزی روٹی کا بنیادی حق چھیننے اور ان کے اہل خانہ، ان کے زیر کفالت افراد کو محرومی اور پریشانی کی طرف مجبور کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں۔ حکومت کے کسی بھی قدم سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے۔ صحافیوں کے خلاف تادیبی کاروائیاں کرنے سے جرنلزم کا وجود و اسکی افادیت ہی ختم کر دی گئی ہے۔ مقامی اخبارات کے ادارتی صفحات غیر سیاسی موضوعات پر مقالات شائع کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ، تاکہ کسی پریشانی میں نہ پھنس جائیں۔ فیس بک تو دور کی بات وائٹ از اپ گروپس پر اختلا ف رائے لکھنے پر کئی افراد کو تخت مشق بنایا گیا ہے۔ کئی کے خلاف دہشت گردی قوانین کے تحت مقدمے درج کئے گئے ہیں۔ ایک کشمیری دانشور نے دورہ کرنے والے اس گروپ کو بتایا کہ اس سے قبل کشمیری قوم نے مجموعی طور پر کبھی بھی اپنے آپ کو اس قدر قومی یتیم محسوس نہیں کیاہے، کیونکہ دونوں بھارت نواز اور آزادی نواز خیموں میں لیڈرشپ کی کرائسس ہے۔ کوئی ایسا لیڈر سامنے نہیں آرہا ہے، جو نئی دہلی حکومت کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ بھارت نوا ز یا مین اسٹریم لیڈرشپ کو کنارے لگایا گیا ہے اور بیشتر حریت لیڈران جیلوں یا گھروں میں نظر بند ہیں۔عمومی طور پر بھارت کی لبرل لیڈرشپ نے بھی کشمیریوں کو مایوس کر دیا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ شاید وہ مودی کے اقدامات کے خلاف سینہ سپر ہو جائینگے۔ مگر وہ اپنے اتحادیوں نیشنل کانفرنس یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یعنی پی ڈی پی کی بھی مدد نہیں کر پائے ہیں۔سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے دست راست وحید پرہ کو دہشت گردی سے متعلق دفعات کے تحت حراست میں لیکر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ایک ارب روپے عسکریت پسندوں میں تقسیم کر رہا تھا۔ مقامی طور پر لوگ اس الزام کو بھونڈا مذاق سمجھتے ہیں۔ چند سال قبل تک پرہ بھارتی حکومت اور فوج کی آنکھوں کا تارہ تھا۔ دہلی میں بھارتی حکومت کا دفاع کرنے کیلئے اسکو متعدد سمپوزیم و سیمینارو ں میں بلایا جاتا تھا۔ بھارت کے موجودہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ایک بار اسکو کشمیر ی نوجوانوں کا رول ماڈل اور امید کی کرن بتایا تھا۔ ایک بھارت نواز لیڈر نے اس گروپ کو بتایا کہ اگر یہ سب کچھ وحید پرہ کے ساتھ ہوسکتا ہے ، تو پھرآخر کون بھارت کے ساتھ پینگین بڑھا کر اپنا سر اوکھلی میں دیکر دین و دنیا سے ہاتھ دھو بیٹھنا چاہے گا۔ایک تجزیہ کار نے گروپ کو بتایا کہ 1953کے بعد سے بھارت نے ایک ایسے سیاسی اسٹریکچر کو کامیابی کے ساتھ تشکیل دیا تھا، جو بڑی حد تک کشمیر یوں اور بھارت کے درمیان ایک نفسیاتی پل کا کام کرتا تھا اور آڑے اوقات میں نئی دہلی کی مدد بھی کرتا تھا۔ مگر 5اگست2019کے اقدامات نے اس پل کو ڈھا دیاہے۔ گروپ کے مطابق کشمیر کو پوری طرح نئی دہلی میں موجود افسر شاہی کے رحم و کرم پر چھوڑا گیا ہے۔ پہلے کی حکومتیں بھی کچھ آئیڈلیسٹ نہیں تھیں، مگر ایک سسٹم کے تحت کام کر رہی تھیں۔ کشمیر کو اب فرمانوں کے ذریعے چلایا جا ریا ہے اور ہر نیا حکم ایک نیا زخم لیکر آتا ہے۔ پاکستان اور اسکی پالیسی کے حوالے سے بھی عوام میں خاصی مایوسی ہے۔ کئی افراد نے اس گرو پ کو بتایا کہ ان کو توقع تھی کہ پاکستان کی ایما پر بین الاقوامی برادری یکجا ہوکر بھارت پر نکیل کس کے ان اقدامات کو واپس لینے پراسکو مجبور کردیگی۔ مگر یہ توقعات پوری نہیں ہوسکی ہیں۔ غالب اکثریت کا خیا ل ہے کہ ان کو بے یار و مددگار و اکیلے چھوڑدیا گیا ہے۔ پاکستانی لیڈرشپ کیلئے یہ رجحان لمحہ فکریہ ہے۔ اسکے علاوہ پہلی بار کشمیر ی عوام بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی پیش آنے والے واقعات کا بغور جائزہ لیتے ہوئے دکھائی دیے۔ اسکی شاید وجہ یہ ہے کہ دونوں آجکل ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ (جاری ہے)