رب العالمین نے یہ دن بھی اہل بصیرت کو دکھادیئے کہ جس امریکی ایوان اقتدارنے پوری دنیاپراپنا ’’نیوورلڈآڈر‘‘جاری کردیاتھااس کے نئے مکین جوبائیڈن جب عہدہ سنبھال رہے تھے تو اسے خاردار تاروں،آہنی جنگلے اورہزاروں سپاہی اپنے حصار میں لے ہوئے تھے۔اس صورتحال پرڈیموکریٹک پارٹی کے سیٹھ مولٹن نے ٹویٹ کیا کہ اس وقت واشنگٹن ڈی سی میں جتنے فوجی ہیں اتنے تو افغانستان میں بھی نہیں ہیں اور یہ یہاں ہمیں صدر سے تحفظ دلانے کے لیے ہیں۔دراصل 6جنوری کو صدر ٹرمپ کے حامیوں کے امریکی کیپیٹل ہل پر حملے کے بعد شہر میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔خدشہ تھا کہ ٹرمپ کے مسلح حامی بدھ 20جنوری کوجوبائیڈن کی حلف برداری کی تقریب کو بھی درہم برہم کر سکتے ہیں اورامریکہ کی تمام 50 ریاستوں میں ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے پرتشدد مظاہروں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا اور تمام ریاستی دارالحکومتیں ہائی الرٹ پر تھیں۔ممکنہ صورتحال سے امریکی حکمران اورعوام انتہائی بوکھلاہٹ اور خوف و ہراس کے عالم میں تھے ۔اس صورتحال سے یہ بلیغ پیغام دنیاکومل گیاکہ جو امریکہ ایسی صورتحال سے دوچارہووہ عالمی قیادت کا اہل کیونکر ہو سکتا ہے؟ اس وقت جب میں یہ سطورقرطاس پرمنتقل کررہاہوںتوقصر ابیض میں نیامکین براجماں ہوچکاہے۔مگر جب جوبائیڈن عہدہ سھنبال رہے تھے تو واشنگٹن شہر میں 25ہزار نیشنل گارڈز تعینات تھے جبکہ وائٹ ہائوس کو جانے والی سڑک پر ایسی باڑ لگا دی گئی جس کے نہ تو اوپر چڑھا جا سکتا اور نہ ہی اسے آسانی سے پھلانگا جا سکتا ۔ قصر کی طرف جانے کے لئے مکمل طورپرقدغن عائد تھی ۔قصر کے علاوہ اہم عمارات کے اطراف میں جگہ جگہ باڑیں لگی ہوئی ، سکیورٹی احاطے اور بفر زون بنادیئے گئے۔ لیکن آج کاجواہم سوال ہے اورجس کاجواب دیناازبس ضروری ہے کہ جاتے جاتے، ضدی، ہٹ دھرم اور ، جنونی ٹرمپ کہہ رہاتھاکہ’’ میں وہ صدرہوں جس کے دورمیں امریکہ نے کسی نئی جنگ کاآغاز نہیں کیا‘‘۔کوئی اسے پوچھے کہ اے راہزن، غارتگر، عیار، شاطر، مکار، فریبی تم نے اہل فلسطین کے خلاف ایک ایسی جنگ شروع کی جس کے آغازپرہی اہل فلسطین بے یارومددگارہوگئے ۔توہی توہے کہ جس نے یروشلم کو اسرائیل کاداراحکومت قرار دیا، عرب ممالک سے فلسطینیوں کے تئیں روارکھی جانے والی رہی سہی ہمدردی چھین لی اورعرب سلاطین کو اسرائیل کی خدمت گذاری پر لگا دیا۔ عرب سلاطین سے تم نے اس حد تک فلسطین کازسے دامن چھڑوایاکہ وہ اب سرزمین فلسطین اوراہل فلسطین کواپنے لئے بوجھ سمجھ رہے ہیں اوراس بوجھ کواپنے کندھوں سے اتار پھینکنے کے لئے وہ کھل کرآمادہ عمل ہیں۔ تمہاری نادیدہ اورخفیہ جنگ کے باعث ہی مشرق وسطی بدل رہا ہے اورتم نے اسرائیل سے ایسے عرب ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کروائے جنھوں نے1948ء میں اس کے قیام کے بعد کبھی بھی اسے تسلیم نہیں کیا تھا۔ان سب کے درمیان فلسطین کاز جو سات دہائیوں سے مشرق وسطی کی سیاست کا مرکز و محور رہا اب متروک ہوکر رہ گیا ۔ حتیٰ کہ دو ملک والا ’’فلسطین اوراسرائیل ‘‘حل بھی تم نے دفن کروادیا۔سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر اور دوسرے خلیجی بادشاہت والے ممالک عملی طورپراس بات کوتسلیم کرچکے ہیں کہ فلسطینیوں کے لئے ’’فلسطین‘‘کو الگ ملک بنانے کا مطالبہ اب ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے اور وہ مستقبل میں ایسا ہونے کا امکان بھی نہیں دیکھ رہے ہیں۔کیاتم نے جنوری 2020ء میں سعودی شہزادہ محمد بن سلمان سے نہیں کہلوایا کہ فلسطینیوں کو اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے دی جانے والی امن کی تجاویز کو قبول کرنا چاہیے ورنہ انھیں خاموش رہنا چاہیے۔جس کے بعد2020ء میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ وہ مغربی کنارے کا ایک تہائی حصہ اسرائیل میں ضم کر دیں گے۔ وہ اس میں تاخیر کرتے رہے شاید اس لیے کہ عرب ممالک ایک کے بعد ایک اسرائیل کو تسلیم کر رہے تھے۔ کیاتم نے اسرائیل اوریہودیوں کی لغویات کی توثیق نہیں کی جس میں وہ بتاتے ہیں کہ ’’ خدا کے وعدے کے مطابق یہودیوں کو اس سرزمین پر آباد ہونے کا حق حاصل ہے‘‘۔یروشلم کوتمہارے آڈرپراسرائیل کادارالحکومت قراردینے کے بعدجولائی2020ء میں امریکی یہودی مصنف پیٹر بینارٹ نے نیو یارک ٹائمز میں لکھا: اب وقت آگیا ہے کہ دو ملکوں کے حل کو ترک کیا جائے۔اورایسا اسرائیل قائم ہوجس میں یہودیوں اور فلسطینیوں کے مساوی حقوق کے مقصد پر توجہ دی جانی چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ایساوسیع وعریض اسرائیل ہو جس میں مغربی کنارہ ہو، غزہ اور مشرقی یروشلم سب شامل ہوں۔اس کے بعداسرائیلی اخبار ہارٹز میں مبصر گیڈین لیوی نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایسے کسی حل کے متعلق سوچیں اور ایسی شروعات کریں جس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا گیا کیونکہ دوسرا کوئی آپشن نہیں ہے۔جس کاواضح اشارہ ’’گریٹر اسرائیل ‘‘کے قیام کی طرف تھا۔تمہارے دورحکومت میں فلسطین کو اسرائیل میں ضم کرنے کے متعدد ماڈلز کے بارے میں تم نے اسرائیل کے ساتھ منصوبے بنائے اورجوطے شدہ منصوبہ تھااسے پر آپ نے اگلے دورحکومت میں عمل کرناتھا لیکنآپ سے کرسی چھن گئی ۔ واضح رہے کہ اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے میں 20لاکھ فلسطینی آباد ہیں اور وہ 167مختلف علاقوں میں رہتے ہیں۔ جبکہ تقریبا 20لاکھ افراد غزہ میں رہتے ہیں۔1948ء جب ناجائز ریاست اسرائیل کاقیام عمل میں لایاگیااس دن سے لیکر 1967ء کی جنگوں میں 50لاکھ افراد بے گھر ہوئے اور وہ علاقے کے مختلف کیمپوں میں مقیم ہیں۔جبکہ اسرائیل نے 1967ء کی چھ روزہ جنگ میں مغربی کنارے، گولان کی پہاڑیوں اور غزہ پر قبضہ کر لیا تھاجوبدستورقائم ہے۔مغربی کنارے میں محمود عباس کی ایک غیر تسلیم شدہ حکومت ہے جو اسرائیل اور بین الاقوامی مدد پر انحصار کرتی ہے۔ غزہ میں سیاسی عسکری جماعت حماس کی انتظامیہ ہے جس کو قطر، ترکی اور ایران کی حمایت حاصل ہے۔اسی دوران اسرائیل نے چار لاکھ 63ہزار 353 یہودیوں کو قریبی شہروں میں آباد کیا ہے جنہیں یہودی آباد کارکہاجاتاہے۔یہ کٹر یہودی ہیں اورانہوں نے کھیتوں اور آبی وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اسرائیل نے ان علاقوں میں فوج کی موجودگی میں اضافہ کیا اور مشرقی یروشلم میں تین لاکھ افراد کو آباد کیا۔ (جاری)