کل کے کالم میں ہم نے کوشش کی کہ اپنے قارئین کوکشمیری پنڈتوں’’کشمیری ہندئووں‘‘کی تحریک آزادی کشمیرکے خلاف صف آراء ہونے کے حوالے سے باخبرکریں ۔سچ یہ ہے کہ کشمیری پنڈتوں نے کشمیری مسلمانوں کے ساتھ تحریک آزادی کشمیرمیں ساتھ نہ دے کرجس بھیانک کردارکامظاہرہ کیاتاریخ اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی ۔یہ دوسراموقع ہے کہ جب کشمیری پنڈتوں نے کشمیری مسلمانوں کو دھوکہ دیابلکہ یوں کہاجائے توبہترہوگاکہ یہ دوسراموقع ہے کہ جب کشمیری پنڈت کشمیری مسلمانوں کے خلاف صف آراہوئے۔ اس سے قبل1931ء میں جب ڈوگرہ کی مطلق العنان حکومت کے خلاف اسلامیان کشمیراٹھ کھڑے ہوئے لیکن کشمیری پنڈت اس تحریک میں بھی شامل نہیں ہوئے تھے حالانکہ پنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنے شیخ عبداللہ کے خاطر کشمیری پنڈتوں کے پاس جاکر ان کو مشورہ دیا تھا کہ و ہ کشمیرمیںظالم و مظلوم کی جنگ میں مظلوم کا ساتھ دیں اورمہاراجہ ہری سنگھ کوکسی بھی طورپردست تعاون نہ دیں مگرکشمیری پنڈتوں نے جواہرلال نہروکی بھی نہ سنی اوروہ ڈوگرہ مہاراجہ کا دامن چھوڑنے کیلئے تیار نہیں ہوئے ۔ اتناہی نہیں بلکہ ڈوگرہ کے مطلق العنان دور میں جب چند پڑھے لکھے مسلمانوں کو معمولی سرکاری نوکریا ں ملنی شروع ہوئیں، تو کشمیری پنڈتوں نے اس کے خلاف ’’روٹی ایجی ٹیشن ‘‘شروع کی۔ انہوں نے ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کو ایک میمورنڈم پیش کیاکہ کولگام علاقے میں ان کیلئے ایک علیحدہ وطن بنایا جائے۔ یہ وہی مانگ ہے جو کشمیری پنڈت آجکل ایک علیحدہ ہوم لینڈ یعنی پنن کشمیر کے نام سے کر رہے ہیں۔ انفرادی طور پر ایک پنڈت لیڈرپریم ناتھ کشمیری مسلمانوں کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے ، مگر طبقاتی حیثیت سے کشمیری پنڈت آج ہی کی طرح1931ء کی تحریک کے دھارے سے کٹے ہی رہے۔لیکن طرفہ تماشہ یہ ہے کہ جس ڈوگرہ حکومت کے وہ وفاداربنے ہوئے تھے اسی ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ نے 1947ء میں کشمیرکے ایک حصے’’جسے آج آزادکشمیرکہاجاتاہے‘‘ ڈوگرہ کی سلطنت سے آزادہوتے دیکھ کر خوف کے مارے رات کے اندھیرے میں بھاگ کر ان کشمیری پنڈتوں کو اپنے حال پر چھوڑ دِیا۔ یہ تو کشمیری مسلمان ہی تھے، جنہوں نے ان کی حفاظت یقینی بنائی۔ جس پر برطانوی حکومت کی ایما پر بنائے گئے گلینسی کمیشن کو بتایا کہ مسلمانوں کے مقابلے کشمیری پنڈتوں کی حالت خاصی بہتر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے کشمیری مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کا ناپاک منصوبہ کشمیری پنڈتوں سے مل کر اور ان کے مشورے سے تیار کیا ہے کیوں کہ 19جنوری 1990ء کوجب کشمیری پنڈتوںکوجموں منتقل کیاگیاتواس کے دودن بعد ہی یعنی 21جنوری 1990ء کوسری نگر کے گائوںکدل میں مسلمانوں کا قتل عام کیاگیااور50 مسلمان شہیدہوئے۔ جیساکہ عرض کیاجاچکاہے کہ کشمیرکی کٹھ پتلی سرکارکے اعدادوشمارکے مطابق کشمیرکی تحریک آزادی کے دوران آج تک صرف 209کشمیری پنڈت ہلاک ہوئے واضح رہے کہ کشمیری پنڈتوں کی ہلاکتیں نہایت مشکوک حالات میں ہوئیں ،کشمیری مسلمانوں کاموقف ہے کہ ان ہلاکتوں کے پیچھے بھارتی قابض فوج کاہاتھ تھاکیونکہ وہ مسلمانوں کاقتل عام اورانکی نسل کشی کرنے کے لئے کشمیری پنڈتوں کوخوفزدہ کرکے وادی کشمیرسے بھگاناچاہتی تھی ۔اس سلسلے میںکشمیرکی بھارت نوازتنظیم نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر اور ریاست کے سابق کٹھ پتلی وزیرداخلہ علی محمد ساگر نے1998 ء میں وندہامہ میں23 پنڈت باشندوں کی ہلاکت کے بارے میں جب یہ دعویٰ کیا کہ اس واقعہ میں بھارتی فوج ملوث ہے تو انہیں وزارت داخلہ کے عہدے سے ہٹایا گیا۔کشمیری پنڈتوں سے پوچھا جا سکتاہے کہ تمہارے کل 209ہندئووں کاقتل اگر تمہاری نسل کشی ہے تو کشمیری مسلمانوں کی زائد از ایک لاکھ نفوس کے قتل کو تم ایک پوری انسانی آبادی کاقتل کیوں نہیں سمجھتے۔ کشمیری مسلمانوں نے بہت کوشش کی کہ کشمیری پنڈت وادی چھوڑ کرنہ جائیں مگر ان کی باتوں کو یکسر مسترد کر دیا گیا۔ بدھ6 جولائی 2005ء کوکشمیرکی حریت کانفرنس نے کشمیر سے تعلق رکھنے والے کشمیری پنڈتوں کو19 جولائی2005 ء کو سرینگر میں ملاقات کی دعوت دی ۔ اس ملاقات کا مقصد کشمیری پنڈتوں کی علاقے میں واپسی پر بات کرنا ہے۔حریت کانفرنس کے ترجمان کاکہناتھاکہ یہ ملاقات جسے کشمیری پنڈتوں اور حریت کانفرنس کے درمیان رابطے کا آغاز سمجھا جا رہا ہے، علاقے میں رہنے والے کشمیری مسلمانوں اور کشمیری ہندئووں کے لیے ایک پیغام ہے کہ انہیں اکٹھا ہو جانا چاہیے۔کشمیری پنڈتوں کاکہناتھاکہ ابھی انکی واپسی کے لئے حالات سازگارنہیں۔ دراصل بھارتی حکومت ، قابض بھارتی فوج اور ’’را‘‘ہرگزیہ نہیں چاہتی کہ کشمیری پنڈت اپنے آبائی گھروں کو لوٹ آئیں کیونکہ اس سے ان کی وہ پراپیگنڈے کی مہم دم توڑ جاتی جس کے ذریعے سے وہ کشمیری مسلمانوں کی شبیہ مسخ کرنے کی کوششوں میں لگاتارجڑے ہوئے ہیں۔جبکہ بھارت نوازجماعتوں نیشنل کانفرنس اورپی ڈی پی نے کشمیری پنڈتوں کی باربار منت سماجت کی کہ وہ واپس آئیں بلکہ 2017ء میں انہوں نے کٹھ پتلی اسمبلی میں اس حوالے سے ایک قراردادبھی پاس کی لیکن کشمیری پنڈت کشمیرواپسی پر آمادہ نہ ہوسکے ۔ کشمیری پنڈتوں کاکشمیری مسلمان کے ساتھ جورویہ رہاہے وہ انتہائی ظالمانہ اورجابرانہ تھاجس کی گواہی انگریزمصنف اور بندوبست آراضی کے کمشنر سر والٹر لارنس کے مطابق ڈوگرہ حکومت میں ساری قوت کشمیری پنڈتوں کے ہاتھوں میں تھی۔ 19ویں صدی کے اواخر میں جب پنجاب سے آنے والے ہندو اور کشمیری نژاد مسلمانوں نے ڈوگرہ دربار میں نوکری حاصل کرنی شروع کی ، تو کشمیری پنڈتوں نے کشمیر ، کشمیریوں کیلئے اور اسٹیٹ سبجیکٹ کا نعرہ بلند کرکے علیحدہ شہریت کا مطالبہ کیا۔ اب ایک صدی کے بعد کشمیری پنڈتوں ہی نے اسی قانون کی مخالفت میں زمین و آسمان ایک کر رکھی ہے۔ 1931ء میں جب تحریک کشمیر کا باقاعدہ آغاز ہوا، تو ڈوگرہ حکمرانوں نے کشمیری پنڈتوں کو ڈھال بناکر پراپیگنڈہ کیا کہ یہ دراصل ہندو مہاراجہ کے خلاف مسلمانوں کی بغاوت ہے۔ شاید یہی تاریخ اب دوبارہ دہرائی جا رہی ہے۔ پورے بھارت میں ظالم و مظلوم کی جنگ کو کشمیر مسلمان بنام پنڈت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔