صاحب نے کہا ‘ سو دن دے دو اور اتنے دن مجھے کچھ نہ کہنا‘ کچھ بھی نہ پوچھنا‘ سو دن دے دیئے۔ سب نے لب سیئے رکھے۔ دن پورے ہوئے‘ سوال پوچھنے کو لب ہلے ہی تھے کہ صاحب کا تحمل جواب دے گیا۔ چھ مہینے کا ’’سٹے آرڈر ‘‘لے آئے‘ یعنی سو دن میں اٹھارہ سو دن کی توسیع کرا لی۔ اب صاحب کا منشا ہے کہ ان اٹھارہ سو دنوں میں ہر کوئی ہر طرف ہر ا ہی ہرا لکھے۔ ٹھیک ہے‘ ہرا ہی ہرا لکھنے میں مشکل بھی کیا ہے۔ اچھی اچھی خبریں آ رہی ہیں۔ پہلی خبر یہ ہے کہ چیزیں سستی ہونے لگی ہیں۔ روپیہ سے شروعات ہوئی ہے اوروہ اتنا سستہ ہو گیا ہے کہ ٹکا میں ڈیڑھ روپیہ آ جاتا ہے۔ ٹکا یعنی بنگلہ دیشی کرنسی۔ سستائی کی رفتار دل خوش کن ہے‘ کوئی دن جاتا ہے ٹکے میں دو روپے ملیں گے۔ البتہ ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا کا خواب من دیکھئے۔ یہ زمانہ قبل از مسیح کی باتیں ہیں۔ روپے کو ٹکے ٹوکری کہنا غلط ہے۔ ٹکے میں کوئی ٹوکری نہیں آتی۔ سستی سے سستی ٹوکری بھی ڈالروں میں آتی ہے۔ دوسری اچھی خبر ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کو دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا ہے کہ معیشت تباہ کرنے والی شرائط پر مالی امداد قبول نہیں۔ پاکستانی وفد نے آئی ایم ایف کو صاف کہہ دیا۔ کوٹ ان کوٹ کیا کہا‘ یہ تو پتہ نہیں لیکن باہر آنے والا بین السطور خلاصہ یہ ہے کہ میاں‘ جب ہم نے اپنی معیشت کاآپ کے کہے بنا ہی یہ حال کر دیا تو آپ کو زحمت کرنے یعنی شرطیں لگانے کی کیا ضرورت ‘ ایسے ہی ’’بے فضول‘‘ ٭٭٭٭٭ لوگوں نے سو دن سے توقعات باندھیں تو بالکل منطقی بات تھی ۔ گئی گزری حکومت بھی سو دن میں کچھ نہ کچھ کر ہی دکھاتی ہے اور صاحب کی حکومت گئی گزری کہاں‘ یہ تو پہنچی ہوئی ہستیوں کی پہنچی پہنچائی حکومت ٹھہری۔ موسم اچھا‘ پانی وافر‘ مٹی بھی زرخیز‘ سارے قدر دان از حد مہربان‘ ریاست کے جملہ اجزائے ترکیبی پشتیبان‘ ورثے میں 18ارب ڈالر کے ذخائر ملے اور صفر لوڈشیڈنگ‘ بدامنی کا جن بھی قابو میں۔ ماضی کی لوٹ مار کرنے والی حکومت کو ورثے میں 3ارب ملے تھے اور 18گھنٹے کی لوڈشیڈنگ‘ علاوہ ازیں دیگر معاملات کے۔ پھر یہ کیا جادو چلا ۔ آج سے کوئی تیس چالیس سال پہلے کا ایک اشتہار اور اس کی پیروڈی یاد آتی ہے۔ مٹیار سنو۔ یہ نام آج تو کسی کو یاد بھی نہیں ہو گا لیکن تب رات دن ریڈیو ٹی وی پر اس کے اشتہار کی تکرار نے کانوں کی بولتی بند کر دی تھی۔ اشتہار کے الفاظ تھے’’کالے رنگ نوں گورا کر دے‘ گورے رنگ نوں چن ورگا۔ کوئی صاحب اس رات دن کے شور سے اتنا تنگ آئے کہ پیروڈی بنا دی۔ گورے رنگ نوں کالا کر دے‘ کالے نوں سوا ورگا۔ پیروڈی چل گئی اور اتنا چلی کہ پہلے اشتہار بند ہوا‘ پھر سنو کا کارخانہ۔ اب بھی وہی ہوا‘ ٭٭٭٭٭ صاحب نے امریکی اخبار کو انٹرویو دیا ہے۔ دو ہی فقرے حاصل غزل ہیں۔ ایک میں فرمایا‘ اب کرائے کی بندوق نہیں بنیں گے‘ امریکی جنگ مزید نہیں لڑیں گے۔ اسے کیا کہئے؟ اس امر کی رسید کہ اب تک ہم کرائے کی بندوق تھے! اور ’’ہماری جنگ‘‘ دراصل امریکی جنگ تھی؟ ایسا ہے تو یقینا ان سطروں کی اشاعت تک نیٹو سپلائی بند ہونے کی خبر آ چکی ہو گی۔ نہیں تو ایک آدھ دن میں آتی ہو گی۔ مزید فرمایا‘ امریکہ افغانستان سے فوج نکالنے میں جلدی نہ کرے۔ کسی اینکر پرسن کا کہنا ہے کہ صاحب کا لہجہ امریکہ کے بارے میں بڑا سخت تھا۔ بڑا سخت پھر تو یوں انتباہ کیا ہو گا کہ خبردار جو افغانستان سے فوج نکالنے کا خیال بھی دل میں لائے۔ لیکن معاف کیجئے گا‘ اس فقرے سے تو کچھ اور ہی خبر ملتی ہے۔ یہ کہ ہم امریکی جنگ نہیں لڑ رہے‘ واللہ اعلم۔ ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ گزشتہ ہفتے کوئٹہ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے جو کیمپ لگا تھا‘ اس میں آنے والے دو بھائی بھی لاپتہ ہو گئے۔ بڑا بھائی جنید ملتان یونیورسٹی اور چھوٹا حسنین کوئٹہ کالج کا طالب علم ہے۔ ان کی بہن مہ رنگ نے بھائیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ چار سال پہلے کی بات یاد آ گئی۔ نواز حکومت کے شروع کے دن تھے۔ لاپتہ افراد کی تنظیم کی رکن ایک خاتون کا فون آیا اور اس حوالے سے کچھ لکھنے کو کہا۔ ساتھ ہی بولیں‘ اس حکومت سے تو امید نہیں‘ ’’صاحب‘‘کی حکومت آ جائے‘ دعا کرو‘ وہ ضرور یہ مسئلہ حل کریں گے۔ عرض کیا‘ پھر تو مسئلہ ہی لاپتہ ہو جائے گا۔ ان خاتوں کا پتہ نہیں پھر کیا ہوا‘ خیریت سے ہیں یا لاپتہ ہو گئیں۔ بس ایسے ہی یہ واقعہ بھی یاد آ گیا۔ ٭٭٭٭٭ سعد رفیق نے کہا ہے کہ نیب مسلم لیگیوں کو گرفتار کئے چلا جا رہا ہے اور صاحب اس ادارے سے پھر بھی خوش نہیں‘ کہتے ہیں لیگیوں کو پکڑ تو رہے ہو لیکن مزا نہیں آ رہا۔ مزا تو اندر کی کیفیت سے ہے۔ نیب تعمیل فرمائش میں کوتاہی نہیں کر رہا‘ صاحب کو مزا نہیں آ رہا تو نیب کیا کر سکتا ہے۔ مزے ڈبے میں پیک تو ملتا نہیں ‘ورنہ نیب وہ بھی لاحاضر کر دیتا۔ صاحب اس بارے میں بھی کوئی مراقبہ وغیرہ کریں کہ مزا آخر گیا کہاں۔ صاحب کے نجی قصیدہ نگار اپنے کالموں میں گاہے گاہے بتایا کرتے ہیں کہ صاحب دیسی مرغی کے بہت شوقین ہیں کہ بہت مزے کی ہوتی ہے لیکن مزا بھی سلیقے کا متقاضی ہے۔ ٭٭٭٭٭ فیصل آباد میں بھٹہ مزدوروں نے جلوس نکالا اور مر گئے بھوکے ہائے ہائے کے ساتھ ساتھ انڈے مرغی کی سرکار نہیں چلے گی۔ کے نعرے بھی لگائے۔ مزدور بھٹوں کی ناقابل فہم‘ تین ماہ سے جاری بندش پر احتجاج کر رہے تھے۔ بھئی انڈے مرغی کی سرکار تو چل رہی ہے اور چلے گی‘ اس کا نہ چلنا کسی طور پر بھی قرین عین قیاس نہیں۔ البتہ آپ کا اور آپ کے ساتھ یا آپ کے بعد بہت سے دوسروں کا بھوکا مرنا عین قرین قیاس ہے۔ آپ اپنے جاں بحق ہونے کی تیاری فرمائیں‘دوسرے بھی بہت سے پیچھے آتے ہونگے۔