پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی جبکہ یہ ایکٹ صریحاً آئین سے متصادم ہے،بلکہ اصولی اور تکنیکی طور پرٹرانس جینڈر کا نام ہی آئین سے متصادم ہے۔نون لیگ کی حکومت میں پیپلزپارٹی کے سید نوید قمر نے یہ بل پیش کیااور سارے ہاؤس نے منظور کیا۔اس ایکٹ میں ٹرانس جینڈر کی تعریف میں تین اقسام درج ہیں:۱)انٹر سیکس یا ہیجڑا (جسمانی طور پہ)،۲)یونک(حادثاتی یا رضاکارانہ نامرد)اور۳)ٹرانس جینڈر یاخواجہ سرا کوئی بھی ایسا شخص جس کی صنفی شناخت یا صنفی اظہارمعاشرتی اقداراورکلچر کی توقعات کے برعکس ہو، اس بنا پر کہ اس کی پیدائشی صنف کوئی اور ہے۔اب ذرا دوسری اور تیسری قسم پرغور کریں! ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ قانون محض ہم جنس پرستی کے حامیوں کی خاطر بنایا گیا ہے ورنہ آئین پاکستان پہلے ہی ہر شہری کو بلاتفریق تمام بنیادی انسانی اور شہری حقوق کی ضمانت دیتا ہے، اور2011کی رولنگ خاص ہیجڑا کمیونٹی کے لیے حقوق کی مزید ضمانت دیتی ہے۔تعزیرات پاکستان میں ہم جنس پرستی جرم ہے۔سینیٹر مشتاق خان نے ترمیمی بل پیش کیا کہ جنس کی تبدیلی کے لیے طبی اور نفسیاتی ماہرین کے بورڈ سے سند لینا ضروری ہو، اور جینڈر ڈس فوریا کے مریض جنس تبدیل نہ کراسکیں،اس پر شیریں مزاری صاحبہ نے مخالفت کی۔چار سال ہوگئے،عوام کو تو ابھی تک علم نہیںکہ ایک ایسا قانون پاس ہؤا ہے جس پر نہ صرف خود پاکستان کے نام نہاد ’لبرل‘طبقے حیران ہوئے کیونکہ یہ ان کی توقعات سے بھی بڑھ کر’پروگریسو‘ تھابلکہ بین الاقوامی میڈیانے بھی اس کو ایک ’’قدامت پسند‘‘معاشرے کے لیے حیران کن اور تاریخی قرار دیا۔ایمنسٹی نے یہ کہہ کر بغلیں بجائیں کہ پاکستان ایشیا کا پہلا اوردنیا کے چند ممالک میں سے ہے جس نے خودساختہ صنفی پہچان کو قانونی طور پہ تسلیم کرلیا ہے۔یہ ہے وہ رویہ جو ابھی مغربی ممالک کے باشندوں کو بھی ہضم نہیں ہورہا اور کئی ادارے اور تنظیمیں اپنے طور پہ بے چینی کا اظہار کرتے رہتے ہیں، اس کابیج پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک میں لگانے کی سر توڑ کوششیں جاری ہیں۔انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے پاکستان میں اس ایکٹ کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی قانون کی پابندی کے لیے بنا۔دراصل ایسی کوئی مجبوری نہیں تھی، یہ محض ایل جی بی ٹی پلس ہم جنس پرستی کی عالمی تحریک کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے بنایا گیا۔ اہلِ مغرب میڈیکل سائنس کی تمام تر ترقی کے باوجودجینڈر ڈس فوریا کے مریضوں کے بہانے اس انتہا کو پہنچے۔پہلے پیدائشی ابنارمل قسم کونفسیاتی قسم کے ساتھ ملا کر ایک کلب بنا دیا اور پھران کے جنسی حقوق کی تحریک چلا دی۔ الہامی مذاہب کے اثرات کی بنا پرجدید دنیا میں بیسویں صدی کے آغاز تک ہم جنس پرستی کو ایک معاشرتی برائی سمجھا جاتا تھا اور یہ ایک قابلِ سزاعمل تھا۔1895 میں مشہور ڈرامہ نگار آسکر وائلڈ کے مقدمے نے یورپ اور امریکہ میں بے حد شہرت پائی تھی۔اس کے بعد رفتہ رفتہ پہلے اس کے لیے معاشرے میں قبولیت پیدا کی گئی، پھر ایک طویل جدوجہد کے بعد اس کوجرم قرار دینے والے قوانین سے چھٹکارا حاصل کیا گیا۔ امریکہ میںیہ سلسلہ2003 تک مکمل ہؤا۔ اس کے باوجود ایسے لوگوں کو اسّی کی دہائی کے آغاز تک جسمانی یا نفسیاتی مریض کے زمرے میں رکھا جاتا تھابلکہ امریکی نفسیات دانوں کے نزدیک یہ آج بھی صنفی شناخت کی خرابی پر مبنی رویہ ہے۔پھراسّی کی دہائی میں برطانیہ اور امریکہ میں ان پر ٹی ویsoapsچلانے کا آغاز ہؤا۔ اس کے بعد شور مچنے کے باوجود اس سلسلے نے رکنے کا نام نہیں لیایہاں تک کہ میڈیا کی برکات سے یہ مغرب میں نہ صرف لائف سٹائل بن گیا، بلکہ اس طرزِ زندگی کی حمایت کرنا آپ کے موڈرن ا ور روشن خیال ہونے کی علامت ٹھہرا۔اب جب اپنی ہی جنس سے تعلق کوقانونی بنا دیا گیا تو پھر جینڈر ڈس فوریا ہی کے مریض کیوں ،سب کو اس سے موقع دستیاب ہونے لگا ۔ چنانچہ اس قبیح عمل کی خاطر ٹرانس جینڈر سے بڑھ کر مزید نام گھڑے گئے جو پچھلے دس برسوں میں دیکھتے ہی دیکھتے دو چار سے کوئی دس بارہ ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے، اس دروازے کو کھلا رکھنے کے لیے ان اقسام کو گنوانے کے بعد otherیعنی کوئی اور کا بھی اضافہ کردیا جاتا ہے تاکہ یہ بھی تشنہ نہ رہ جا ئیں۔پھر فطری طور پہ اگلا قدم خاندان کی نئی تعریف تھا۔ سروے میںآد ھے امریکیوں نے یک صنفی ’’شادی‘‘ کو قانونی حیثیت دینے کی حمایت کی جبکہ مخالفت کرنے والوں کی اکثریت اسے مذہبی اور اخلاقی بنیادوں پر غلط اور خاندانی نظام کی جڑیں کاٹنے کے مترادف سمجھتی تھی۔بہرحال امریکہ یورپ،اور آسٹریلیا کے تقریباً تمام ملکوں میں ایک صنفی شادی کو قانونی حیثیت دے دی گئی البتہ جاپان کے وزیرا عظم ابھی بھی تک ڈٹے ہوئے ہیں، جس پر انہیں قدامت پرستی کا طعنہ ملتا ہے۔قوانین بن گئے، کلچر ڈھال دیا گیا، ہر جگہ صنف کی ورائٹی کا اندراج کردیا گیا، جینڈر دو نہیں بلکہ پورا سپیکٹرم ہو گیا یعنی قوسِ قزح، اور علامت بھی قوسِ قزح مقرر ہوگئی۔دو پھیلے ہوئے پر آزادی بلکہ آزاد روی کی علامت کے طور پہ ساتھ شامل ہو گئے۔ Heteronormativity اور ہوموفوبک جیسے الفاظ کاطعنہ بنا کر دنیا بھر کو ان مٹھی بھر افراد کی خاطر مجرم ڈکلیئر کردیا گیا۔ ہم جنس پرستی کوایک نارمل بلکہ پسندیدہ عمل سمجھنے کے اس رجحان نے جدید مغربی معاشرے کوتمام تر جدت پسندی کے باوجود قدیم عذاب یافتہ قوموں سے جوڑ دیا ہے۔انسانی حقوق کے نام پر بننے والا معاشرہ انسانی ہوس کے ہاتھوں کس قعر مذلت میں گر سکتا ہے یہ اس کی بہترین مثال ہے اوراس آیت کی جیتی جاگتی تفسیر کہ’’ہم نے ان کے برے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے‘‘۔انسانی عقل کتنی بھی ترقی کرلے، الہامی ہدایت کی کمی پوری نہیں کرسکتی کیونکہ: ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں! دعا کریں اور دوا بھی کہ ہم جو الہامی ہدایت سے سرفراز ہیں عذابِ الٰہی کی گرفت میں نہ آئیں آمین۔(ختم شد)