سب آسانیاں اور سب مفادات تو عوام کے لئے ہوتے ہیں حکومت ان آسانیوں کو فراہم کرنے کا بندوبست کرتی ہے اور حکومت کے تمام کارندے عوام کے خدمت گزار ہوتے ہیں۔ ان خدمت گزاروں کو مراعات اسی لئے مہیا کی جاتی ہیں کہ وہ عوام کے مفادات کا تحفظ کریں دور جدید میں دنیا بہت سے سیاسی اور معاشی نظاموں کی پابند ہے۔ ہر نظام کا دعویٰ ہے کہ وہ عوام کی بہتری اور فلاح کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔وطن عزیز پاکستان مختلف ادوار میں مختلف نظاموں کے نفاذ اور ترویج کی تجربہ گاہ رہا ہے اور اس تجرباتی سفر میں عوام کبھی دکھ اور کبھی سکھ کی وادی بے منزل میں بھٹکتے پھرتے رہے اور ہنوز اس سلسلہ کے پائوں میں گردش ہے۔ بے یقینی اور ہم یقینی کا پہیہ ہے جو قلبی سکون کو کچلتا‘ مسلتا رواں دواں ہے۔حکمران اور ان کے قریبی حواری تبدیلی‘ انقلاب ‘ عوام کے مفادات کے تحفظ کا نعرہ خوب منظم ہو کر بلند کرتے رہے اور کرتے رہتے ہیں اور وقت گزاری کا قانونی جواز تھامے عوام کے درد کو فراوانی کا تحفہ دیتے جاتے ہیں۔ ریاست اور فلاحی ریاست کے فرائض پر کم سوچتے ہیں اور عمل تو بالکل نہیں کم کرتے ہیں۔ بسا اوقات اپنی ساکھ کی خاطر اردگرد کچھ منجمد ذہن صلاح کار جمع رکھتے ہیں۔ ان عبقریوں کو اپنا انداز فکر بتاتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ ان کی ہر فکر کو دلیل و برہان سے ایسا آراستہ کریں کہ دن کو دن کہنے والے بھی دن کو رات کہنے پر مجبور ہو جائیں پھر بہت سے صلاح کار دین میں مہارت کا دعویٰ طویل رکھتے ہیں اور بہت سے مشہورہ باز ثقافت کی کلغی سجائے عوام کے دکھوں کا علاج تجویز کرتے ہیں۔حکومت میلے ٹھیلے سجاتی ہے۔ جوانوں کا لہو وطن کی ناموس کے نام پر گرماتی ہے اور بوڑھوں کو نوید نو سے خوش کرتی ہے‘ بچے تو ویسے ہی بہل جاتے ہیں۔ کسی دور میں کھیلوں کے فروغ کے لئے خوب توانائی خرچ ہوتی تھی‘ تعلیم کی طرف توجہ کم اور کھیل کے میدان کی وسعت زیادہ ہوتی تھی۔ تعلیم سے جی چرانے والے نوجوان کھلنڈرے کلاس میں بیٹھے کھیل سے محظوظ ہوتے تھے یہ سلسلہ اب بھی اس رفتار سے جاری ہے پھر کسی دور کے رنگیلا مزاج حکمران اپنی سب سرکاری مصروفیت کو خیر آباد کہہ کر کھیل کے میدان میں یا کسی پتنگ باز کے کوٹھے پر چڑھے بو کاٹا کی فضائے ہلڑ بازی میں عوامی حقوق کی ادائیگی کر رہے ہوتے تھے۔ یہ پتنگ بازی اتنا عجیب اور وقت مار مشغلہ ہے کہ جسم کی توانائی بڑھانے کی بجائے محض جان و مال اور وقت کو غارت کرنے کا باعث بنتا ہے پتنگ بازی من چلے اور وقت سے بیزار لوگوں کا مشغلہ ہے کچھ بے فکرے لوگ بروقت جیب میں کاغذ اڑسے اور کان پر قلم رکھے کرائے کے کام میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ ہلکی مزدوری قبول کرتے ہیں۔ ہر جائز و ناجائز موضوع پر طولانی بحث کر کے بزعم خود یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے تیر و تفنگ سے ایک نیا معرکہ سر کیا ہے۔ثقافت کا فروغ بجا‘ صحت مند سرگرمیاں قبول مختصر یہ کہ کوئی اجتماعی تفریح جس میں اندیشہ نقصان نہ ہو وہ سب کے لئے قابل قبول ہوتی ہے۔ پتنگ بازی کے نقصانات ایک علیحدہ سے بحث ہے لیکن بسنت کا تہوار ایک خاص خفیہ بے دین ثقافت کا خاموش فروغ ہے۔ برصغیر کی ثقافت میں یقینا بہت سی باتوں میں مسلمان عقیدے کے مطابق قبولیت نظر آتی ہے لیکن وہ انداز اور وہ اطوار جس میں مسلمانوں کے بنیادی عقائد پر براہ راست زد پڑتی ہے وہ بہرحال ناقابل قبول ہیں۔ بسنت کے تہوار کو ثقافت کے لفظی گورکھ دھندے میں لپیٹ کر کسی مسلمان اور اسلام دشمن کے خفیہ اطوار کے فروغ کو دینی اور ملی حوالے سے کسی طرح بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔رہی بات پتنگ بازی کی عمومی ترویج یا اس کو عوامی کھیل اور تفریح کا نام دے کر اسے قانونی تحفظ فراہم کرنا اور حکومت کی حمایتی چھتری فراہم کرنا یہ محض اور محض بھونڈا پن ہے۔اور عوام دشمنی کا حکومتی اجازت نامہ ہے۔ پتنگ بازی میں غیر صحت مندانہ سرگرمیوں سے اربوں کا قومی سرمایہ ہوا میں بکھر جاتا ہے۔پورے محلے‘ یا کسی بھی پوش ایریا کی چھتیں غل غپاڑے کا مرکز بنی ہوئی ہوتی ہیں بچے چھتوں سے بے دھیانی میں گرتے ہیں۔ ہاتھ پائوں تڑواتے ہیں اور مائوں کے کلیجے کا چین غارت ہوتا ہے۔ حیا اور بے حیائی کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ انتہائی ناقابل بیان مناظر ہیں‘ پیشہ ور لوگ اپنی مکروہ بے حیائی کی نحوست‘ قوم کی بیٹیوں کے کردار میں پیوند کرتے ہیں۔ پتنگ باز بے پرواہ‘ حالات سے بے نیاز ہو کر ایسی ایسی ڈوریں تیار کرتے ہیں کہ جو سرعت ساز پھانسی کا پھندا بن کر نامعلوم‘ بے قصور اور معصوم بچوں‘ جوانوں بوڑھوں‘ خواتین کی جان لینے میں اندھی ہوتی ہیں۔ پورا ماحول پتنگ کی ڈور کی لپیٹ میں ہوتا ہے۔ نجانے پتنگ کس کوٹھے‘ کس پارک میں اڑتی ہے اور اس کی ڈور کی موت ساز رسائی کہاں کہاں تک ظالمانہ چھری پھیرتی ہے۔سائیکل سوار‘ موٹر سائیکل سوار‘ پیدل چلنے والے اور بے چھت کی سواری کے سوار سب ہی تو ڈور کی کٹیلی گرفت میں ہوتے ہیں۔گزشتہ ادوار میں خون آشام اس منحوس کھیل پر اس لئے پابندی لگی تھی کہ ہزاروں جانیں ڈور کی تیز دھاری کا لقمہ بن گئی تھیں۔ سینکڑوں بچے اپنی مائوں کے کلیجوں کو سلگتا چھوڑ کر معصوم نیند سو گئے تھے۔یہ پتنگ بازی مزدور کی گردن کو خاموش موت سے ہمکنار کرتی ہے اس کا تو چولہا ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ بیوہ سڑکوں پر بھیک مانگتی ہے۔ بچے مجبور ہو کر جرائم سے رزق لیتے ہیں ریاست مدینہ کا نعرہ بہت خوشنما ہے لیکن اس نعرے کا فہم‘ حقیقت اور برکات کو جاننا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا حضرت عمر فاروقؓ سمجھتے تھے۔ عمل کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ میری سلطنت میں فرات کے اس پار بکری کا ایک بچہ بھی بے خطا مر جائے تو خطابؓ کا بیٹا اس کا ذمہ دار ہے۔ کہ اس کی رعایا میں ہر طرز کی مخلوق ہے۔ اس کی زندگی اور موت حکمران کی ذمہ داری سے اوجھل نہ رہے۔ حکمرانی چند روزہ ہے‘ حساب اور یوم حساب بہت شدید ہے اور طویل ہے پتنگ بازی کی اجازت‘ پروانہ موت کو عام کرنے کے برابر ہے ؎ حکم احتیاط سے دیجیے حکمرانو حساب ہوتا ہے!