سکول والی گلی گاڑیوں کے نیچے دَب چکی تھی۔ نرسری کلاسز کے بچوں کو چھٹی ہوچکی تھی۔ کچھ والدین فٹ پاتھ پر مرکزی گیٹ کی طرف بڑھے چلے جارہے تھے۔ ایک شخص سیل فون پر بات کرتاآہستہ آہستہ جارہا تھا،وہ بے خبرتھا کہ پیچھے خاتون آگے نکلنے کی مسلسل کوشش کر رہی ہے۔ خاتون کا بچہ یقینا ، اُسکا منتظر ہو گا۔ مگر وہ شخص فون پرمگن ،دُنیا و مافہیاسے بے خبر ہو چکا تھا۔ حالانکہ خاتون ’’پلیز راستہ دیجیئے‘‘باربارکہتی رہی۔ مَیںاُن دونوں کے پیچھے کچھ فاصلے پر تھا۔ خاتون کی بے بسی دیکھ کر مجھے اُس شخص پر بے حد غصہ آرہا تھا۔ کچھ دیربعددونوں گیٹ کے سامنے جاپہنچے،مَیں بھی جا پہنچا۔ مَیں رُکاہی تھا کہ پیچھے سے ایک خاتون نے پکارا۔ اُسکی طرف دیکھا،تو غصے سے بولی، ’’پیچھے چیخ چیخ کر کہتی چلی آرہی تھی کہ ’’پلیز راستہ دیجیئے‘‘مگر آپ کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ معلوم نہیں کیسے آدمی ہیں‘‘