یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے، ایک قوم جو گوناگوں صلاحیتوں سے مالامال ہے، جذبات رکھتی ہے اور جذبات کا اظہار کرنا جانتی ہے کچھ کر جانے کی توانائی سے لبریز ہے ، بے سمت ہے۔ایک کھیل ہے بلے اور گیند کا جس کا نام کرکٹ ہے بس یہ اسی کھیل پر متحد ہوتی ہے ورنہ یہ آپس میں مسلکی، مذہبی نظریاتی، ثقافتی اختلافات پر دست و گریباں رہتی ہے جب میرے ہم وطن اپنے جذبات کے قیمتی خزانے کرکٹ جیسے کھیل کی نذر کر دیتے ہیں تو مجھے رائیگانی کااحساس ہوتا ہے۔ سوچتی ہوں کہ کرکٹ کی جگہ کوئی ایسا مقصد بھی ہوسکتا تھا جس پر قوم واقعی اس انداز میں اکٹھی ہوتی جس طرح سے کرکٹ پر اکٹھی ہوتی ہے تو پھر ہمارا یہ جذباتی ہونا اور اس طرح سے ایک جگہ متحد ہونا کہیں نہ کہیں بحیثیت قوم ہماری قسمت ضرور سنوار جاتا ۔لیکن نا صاحب نا یہ قوم جذباتی ہے تو کرکٹ کے بارے میں اکھٹی ہوتی ہے تو اس کھیل پر، اپنے سارے اختلاف مٹاکر ایک قوم میں ڈھلتی ہے تو اسی ایک کھیل کے نام ورنہ اختلافات کا دما دم مست قلندر پبا رہتا ہے۔گھر سے لے کر باہر تک اونچے نیچے رویوں کے عدم برداشت کے اور قول و فعل میں تضاد کے ان گنت مسائل نے ہمارے معاشرے کی صورت کو بدصورت کر رکھا ہے مگر مجال ہے کہ ہم کبھی اپنے رویوں کو سدھارنے کے لیے بھی ایسی یکجہتی کا مظاہرہ کریں۔ اور اتنی ہی یکسوئی کے ساتھ اپنی زندگیوں سے ان رواجوں اور رسموں کو ختم کرنے کی کوشش کریں جو زندگیوں کو بوجھل کرتے ہیں یا اتنی ہی قومیت میں ڈھلی ہوئی جذباتیت کے ساتھ سوچیں کہ آخر ہم اپنی گلیوں بازاروں اور پارکوں کو کیوں صاف نہیں رکھ پاتے ۔کس طرح ہم خود کو،اپنے بچوں کو صفائی پر کاربند رہنے والا بنائیں۔ کل سبزی کی دکان پر گئے تو اس کے پاس بھی لوگ جمگھٹا لگائے بیٹھے تھے ۔ موضوع بحث وہی کرکٹ۔ ہائے ہائے کیچ چھوٹ گیا۔۔ پاکستان کے ہارنے کا قلق تھا کہ کم نہیں ہورہا لیکن میں دیکھ رہی تھی کہ دکان کے آس پاس کوڑے کے ڈھیر لگے ہیں ۔کیا یہ دکاندار کبھی آپس میں اکٹھے ہوکر اس مسلے پر بھی ایسے ہی غوروغوص کرتے ہیں جیسے کرکٹ میں ایک کیچ چھوٹنے پر یہاں غورو فکر ہورہاہے ۔ کبھی اس مارکیٹ والوں نے سوچا کہ بھاڑ میں جائے حکومت کیوں نہ آپس میں مل کر کوئی ایسا نظام بنا لیا جائے کہ ہماری دکانوں کے آس پاس کوڑے کے ڈھیر نہ لگیں لیکن نہیں ہم صرف کرکٹ کے موضوع پر اکٹھے ہوسکتے ہیں۔کرکٹ کے علاوہ ہر موضوع، ہر مسلے پر ہمارا اختلاف ہے۔کرکٹ کا بخار چڑھے تو پھر ہر چیز اسی رنگ میں رنگ جاتی ہے ۔ٹی وی لگاؤ تو خبریں ،ٹاک شوز، مارننگ شوز، اس کے اشتہارات میں بھی کرکٹ ہی کرکٹ نظر آتی ہے۔بڑے بڑے تجزیہ کار پرائم ٹائم کے پروگراموں میں ہاتھ سے گیند چھوٹنے کے مضمرات اور اگر کیچ نہ چھوڑا جاتا تو پھر اس کے اثرات پر اپنی کل عقل اور دانش وری نچھاور کرتے دکھائی دیتے ہیں۔بلے کے ایک ایک گھماؤ پر اور ہر ہر گیند کے اٹھاؤ پر سیر حاصل گفتگو، تبصرے اور تجزیے کیے جاتے ہیں۔پرائم ٹائم صرف سیاست اور کرکٹ کے موضوعات کو ملتا ہے اور دونوں پر بحث و مباحثے کا حاصل کیا ہے؟ کیا اس سے بے سمت قوم کی ذہنی تربیت ہوتی ہے ؟کیا ایسی لا حاصل بحثیں سن کر ہماری قوم کے سماجی رویوں کی تہذیب ہوتی ہے؟ کئی کئی گھنٹوں کے پروگرام، تجزیے اس مہنگائی کی ماری قوم کو کیا دیتے ہیں؟ کرکٹ وہ کھیل ہے جس نے ہمارے دوسرے کھیلوں کو نگل لیا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارا قومی کھیل ہاکی بھی ابھی اس کی نذر ہو چکا ہے۔دوسرے کھیلوں کے ساتھ لاوارثوں کا سلوک ہوتا ہے۔ان کے کھلاڑی عالمی مقابلے بھی جیت لیں تو انہیں چند لاکھ دے کر ٹرخا دیا جاتا ہے۔کرکٹ کے علاوہ دوسرے تمام کھیلوں میں دلچسپی لینے والے کھلاڑی کبھی بھی قومی ہیرو نہیں بناتے۔کرکٹ کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ کیا صدر کیا وزیراعظم کرکٹ کی باریکیوں پر تبصرہ کرتے اور ٹوئٹس کرتے نظر آتے ہیں۔کرکٹ میں پیسہ انوالو ہے اور پیسہ بھی بے تحاشا۔ کبھی لگتا ہے کہ یہ بھی سیاست کا دوسرا روپ ہے۔جہاں پیسے کو مرکزی حیثیت حاصل ہوجائے وہاںکرپشن کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس دور میں وہی چیز مرکز نگاہ رہے گی جس میں پیسہ انوالو ہے۔ پیسہ بنانا پیسہ کمانا پیسہ لگانا جہاں پیسہ آجائے وہاں اور بہت کچھ شامل ہو جاتا ہے۔جہاں پیسہ راج کرتا ہے وہاں اخلاقیات کمزور ہونے لگتی ہے ماضی میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ بڑے بڑے کرکٹرز میچ فکسنگ کرنے میں ملوث رہے ہیں۔ پاکستان کا نام صرف اور صرف پیسے کی خاطر انہوں نے بد نام کیا ،کرکٹ کا سیزن عروج پر ہو تو ساتھ ہی کھیل میں جوئے کے کاروبار پر بہار آ جاتی ہے۔ بڑے بڑے انٹرنیشنل جواری اپنی پسندیدہ ٹیموں کی ہار جیت پر شرطیں لگاتے ہیں جس میں کروڑوں لاتے اور کروڑوں اڑاتے ہیں۔بطور کھیل کرکٹ کی مخالف نہیں ہوں۔کھیل صحت مند زندگی کے لیے ضروری ہے مگر چھوٹی اور بڑی سکرینوں پر بیٹھ کر صرف کھیل دیکھنے پر اکتفا کرنا آپ کو وہ فائدہ نہیں دیتا جو آپ جسمانی طور پر سرگرم رہ کر یا اپنی عمر اور بساط کے مطابق ہلکا پھلکا کھیل کر حاصل کرتے ہیں۔ یہ مشہور مثل مرے دل کو لگتی ہے کہ اچھا کھیل دیکھنے سے بہتر ہے کہ برا کھیل خود کھیل لیا جائے۔کرکٹ کو بس ایک کھیل کی حدتک رہنے دیں۔ ایک کھیل پوری قوم کو نفسیاتی طور پر یرغمال بنالے اور اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں پر قابض ہوجائے تو پھر اس پہ سوال اٹھانا بنتا ہے۔ہم عجیب لوگ ہیں کھیل کو زندگی سمجھ بیٹھتے ہیں اور زندگی کو کھیل سمجھ کر غیر سنجیدہ رویہ رکھتے ہیں۔کھیل زندگی نہیں۔۔زندگی بھی کھیل نہیں"