’یونیورسٹی آف یارک’ کی تازہ تحقیق میں انسانی رویے کے آسانی سے واضح ہونے والے پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اِس سروے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ مختلف صورتوں میں انسان اپنا رویہ کیوں بدلتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی شخص اُس وقت اپنا رویہ یا مزاج اچانک بدل لیتا ہے جب وہ ایسے شخص یا اشخاص کے درمیان موجود ہو جسے وہ متاثر کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات ایک سادہ مثال سے سمجھتے ہیں، جب آپ اپنے باس کے سامنے ہوتے ہیں تو اِس بات کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ وہ آپ کے بارے میں مثبت نظریہ قائم رکھیں۔ ایسا کیوں ہے کہ انسان اُس وقت اپنا رویہ بدل لیتا ہے جب اُسے دیکھا جا رہا ہو؟ انسان کا طرزِ عمل کیوں بدل جاتا ہے؟ اِس حوالے ’یونیورسٹی آف یارک‘ کی تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں۔ اِس تحقیق میں 300 افراد نے شرکت کی۔ مذکورہ افراد کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا گیا اور ہر گروہ کا الگ سے مشاہدہ کیا گیا۔ ہر گروہ میں محققین نے ایک گمنام شخص کو بھی شریک کیا۔ گروپ میں شامل افراد کو ایک مخصوص رقم دی گئی اور اِسے آپس میں برابر تقسیم کرنے کی ذمہ داری تمام لوگوں پر عائد کر دی گئی۔ جب ایک گروہ کو اُس کمرے میں بٹھایا گیا جہاں کیمرہ تھا، تو وہاں لوگوں نے ایک دوسرے سے خوش کلامی کی اور بآسانی پیسے تقسیم کر لیے۔ اور جب اِسی گروہ کو ایک ایسے کمرے میں بٹھایا گیا جہاں کیمرہ موجود نہ تھا تو اِن لوگوں کے مزاج میں خودغرضی کا عنصر غالب پایا گیا۔ یعنی جب بھی انسان کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُسے کوئی دیکھ رہا ہے تو وہ کچھ اچھا کرنے کی کوشش کرتا ہے، جبکہ دوسری صورت میں اِس کا رویہ برعکس ہوتا ہے۔ اس مطالعے کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ نسل، جنس، طبقے یا انسانی شناخت کا رویے میں تبدیلی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ سادہ لفظوں میں ہر قسم کے لوگ ایسی صورتحال میں کہ جب اُنہیں دیکھا جا رہا ہو ایک سا رویہ رکھتے ہیں۔ اکثر تو لوگ اُس جگہ پر بھی اپنا رویہ بدل لیتے ہیں، جہاں یہ لکھا ہو کہ ’کیمرے کی آنکھ آپ کو دیکھ رہی ہے‘ حالانکہ وہاں کوئی کیمرہ موجود نہ ہو۔