17ستمبر 2019ء کو جب پوری دنیا Patient safty dayمنا رہی تھی‘ خود وطن عزیز میں بھی اس حوالے سے تقریبات ہوئیں۔ عین اس سے ایک دن کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بلڈ کینسر کے سینکڑوں مریض بستر مرگ سے چارو ناچار اٹھ کر سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور تھے۔ ان کا یہ احتجاج حکمرانوں کے نام تھا جنہوں نے جان لیوا مرض میں مبتلا‘ ان مریضوں کی مفت ادویات بند کر کے سفاکانہ قدم اٹھایا۔ اگرچہ بدانتظامی اور حکومتی نااہلی کے مناظر ہمیں روز ہی یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں کبھی استاد تو کبھی ڈاکٹر سڑکوں پر احتجاج کرتے اور پولیس کی لاٹھیاں کھاتے نظر آتے ہیں۔ کبھی لیڈی ہیلتھ ورکرز کو اپنے حقوق کے لئے کئی دن دھرنا دینا پڑتا ہے۔ کبھی نابینا افراد حکومتی پالیسیوں کی سنگدلی پر ماتم کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن بستر مرگ پر سانس سانس جیتے ان کینسر کے مریضوں کا احتجاج ایک عجیب و غریب منظر تھا۔ دنیا کی بدترین حکومتوں میں شاید ایسا احتجاج نہ ہوا۔ اس حوالے سے ہم نے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں اپنا نام درج کروا لیا ہے ‘بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا ۔ اگر ایک طرف دنیا میں مریضوں کے تحفظ اور ان کی صحت کے معاملات کی حساسیت اور اہمیت پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے تحت دن منایا جا رہا ہے اور دوسری طرف پاکستان میں کینسر کے مریض سڑکوں پر آ کر مفت دوائیں بند کرنے کی ظالمانہ پالیسی کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ عمران خان کی ہر تقریر میں اس بات کو دھرایا جاتا رہا ہے کہ انہوں نے اپنی والدہ کو کینسر سے مرتے دیکھا ‘انہیں اس بیماری کی اذیت کا اندازہ ہے۔ پوری سیاسی مہم کے دوران ہم یہی سنتے رہے۔ پشاور کینسر ہسپتال بھی بنایا ‘اب کراچی کے لئے چندہ اکٹھا ہو رہاہے۔ مگر یہ کیسا اینٹی کلائمکس ہے کہ حکومت میں آ کر آپ دوسروں کے عوام دوست قدم پر بھی تبدیلی کا وار چلا دیں۔ تکلیف اور اذیت کی انتہا پر جہاں اس جان لیوا بیماری کی آخری سٹیج پر مریض کے لئے سانس لینا بھی دوبھر ہونے لگے‘ وہ جب احتجاج کے لئے گھروں سے نکلے ہوں گے تو سوچیں حکومت کے بارے ان کا کس طرح غم و غصہ ہو گا۔ حکومت سے وابستہ ان کی امیدیں کس طرح کرچی کرچی ہوئی ہوں گی‘ ان کی تکلیف کا اظہار ان احتجاجی بینروں سے ہو رہا تھا جن پر لکھا تھا۔ کینسر کے مریضوں کی دعائوں سے وزیر اعظم بننے والے نے کینسر کے مریضوں کی مفت دوائیں بند کر دیں۔ ایک بینر چیخ و پکار رہا تھا۔ کینسر مجھے کھا جائے گا خدارا مجھے بچا لو‘ 2014ء میں فری کینسر میڈیسن کے ایک پراجیکٹ کا آغاز ہوا جس میں غیر ملکی فارما سوٹیکل کمپنی نوارٹس کے ساتھ مل کر پنجاب حکومت نے غریب کینسر کے مریضوں کے لئے مفت دوائوں کا بندوبست کیاتھا۔ لاہور کے دو سرے سرکاری ہسپتالوں میو اورجناح سے ہر ماہ مریضوں کو مفت ادویات ملتی تھیں‘ راولپنڈی کا ہولی فیملی ہسپتال اور الائیڈ ہسپتال فیصل آباد میں بھی کینسر کے مریض مفت دوائیں حاصل کرتے تھے حیرت کی بات یہ ہے کہ کینسر کے مریضوں کے لئے اتنا انقلابی کام کرکے ن لیگ نے اس پراجیکٹ کی اخباروں میں تشہیر نہیں کی۔ اس کی خبر مجھ جیسے کالم نگار کو اس وقت ہوئی‘ جب موجودہ حکومت نے مفت دوائیں بند کر کے مریضوں کو بستر مرگ سے سڑکوں پر احتجاج کرنے کے لئے مجبور کیا۔ کم و بیش پانچ ہزار مریضوں کو دو سے تین لاکھ کی ادویات مفت دی جاتی تھیں۔ کینسر ایک موذی مرض ہے ‘اس کا علاج اتنا ہی مہنگا ہے ‘ہزاروں میں کمانے والے لاکھوں کی مہینہ وار دوائیں کیسے لے سکتے ہیں؟ شہباز شریف خود بھی کینسر کے مرض سے صحت یاب ہوئے ہیں شاید اسی لئے انہیں اس مرض کی اذیت کا اندازہ تھا بہرحال یہ ایک ہمدردانہ انسان دوست قدم تھا۔کسی سیاسی جماعت کی وابستگی کا تعصب اس سطح پر نہیں ہونا چاہیے کہ آپ مخالف سیاسی جماعت کے کسی عوام دوست کام کو سراہنے سے گریز کریں۔ کم ازکم میں تو ایسی صحافتی بددیانتی نہیں کر سکتی خیر پنجاب میں جس مٹی کے مادھو کی حکومت ہے۔ ان کی طرف سے اس انتہائی سنگین اور فوری نوعیت کے معاملے پر کوئی ردعمل نہیں آیا۔ مگر پنجاب اسمبلی کے سپیکر سینئر سیاستدان پرویز الٰہی نے اس معاملے کو فوری حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا‘ وزیر صحت یاسمین صاحبہ کو ہدایت کی یہ معاملہ حل ہونا چاہیے۔ یہ سرکاری کارروائیاں بھی بس ایسی ہی ہوتی ہیں۔ خاک ہوجائیں گے ہم تم خبر ہونے تک۔ یاسمین راشد نے بطورو وزیر صحت اسی طرح مایوس کیا جیسے ان کے قائد عمران خان مسلسل حیران اور مایوس کر رہے ہیں۔ صنعتی مافیا کے لئے مزدوروں کے استحصال کو مزید آسان بنانے کے نسخے لائے جاتے ہیں تو کبھی فنڈز کی بچت کرنے کے لئے کینسر کے مریضوں کی مفت دوائوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے خبر کے مطابق مفت دوائوں کے اس پراجیکٹ میں 10فیصد اخراجات پنجاب حکومت برداشت کرتی تھی باقی 90فیصد نوارٹس کمپنی کے ذمہ تھے۔بعض مریض کینسر کی آخری سٹیج پر ہیں دوائیں ان کے لئے آکسیجن کی طرح ہیں‘ میرا گمان ہے کہ عمران خان یہاں پر بھی شوکت خانم ہسپتال کے اصولوں کو لاگو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں کینسر کے آخری سٹیج کے مریض کو علاج سے اس لئے انکار کر دیا جاتا ہے کہ اس کے بچنے کے چانسز کم ہیں اس کے علاج پر پیسے ضائع نہ کئے جائیں۔ اس رویے کا مظاہرہ ان مریضوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ حدیث پاک ہے کہ بیمار کی عیادت کے لئے جائو تو اس سے اپنے لئے دعا کروائو۔ بیمار کی دعائیں اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہیں۔ خوف خدا کیجیے۔ کینسر کے جن مریضوں کی مفت دوائیں آپ نے بند کر دی ہیں وہ اذیت اور تکلیف کے ہر ہر لمحے میں تبدیلی سرکاری کو کوس رہے ہیں۔ مریض دعا کرے تو اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہے اور اگر بددعا کرے تو کیا قبول نہ ہو گی ڈریں اس وقت سے خدا کے لئے مریضوں کی دعائیں لیں۔ مفت دوائوں کے لئے فوری فنڈ جاری کریں۔!