کاغذی ریکارڈاورانتظامی کارروائی میں کشمیر کو بھارت کا علاقہ دکھانے کے باوجودیہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ کشمیر کے مقبول جذبات میںبھارت کے روّیے اور وابستگی کے خلاف ہمیشہ کی طرح آج بھی وہی دم خم ہے۔ کشمیر میں بھارت کاطلسم ٹوٹ چکاہے ۔تاہم افسوس سے کہناپڑتاہے کہ5اگست سے 5اکتوبرپورے دوماہ تک حکومت پاکستان کاکشمیرپر’’ہاہو‘‘بڑے زورشورسے جاری رہااوراس کے بعد حکمران ٹھنڈے پڑگئے ۔یہ صرف آج کی ہی بات نہیں بلکہ ماضی میں بھی ایساہی ہوتارہاہے۔ارباب پاکستان کے بشمول پاکستان کاالیکٹرانک میڈیابھی اس تاک میں رہتے ہیں کہ کب کشمیرمیں جنازے اٹھیں اوروہ ان پربین کرناشروع کردیںحالانکہ یہ صریحاََغلط سوچ ہے کیونکہ اسلامیان کشمیر کی بے بسی اورلاچارگی لگاتارجاری ہے اور وہ بھارتی رام راج کی طرف سے ذلت آمیز، جنسی اور نسلی تعصب کے شکارہیں اورمودی کے تیورسے کشمیری مسلمانوں کوصاف صاف پیغام جارہاہے کہ چند ماہ میں ہی خطے کا آبادیاتی تناسب بگاڑ کر کشمیری عوام کو اپنے ہی گھرمیں اجنبی بنا دیاجائے گا۔ کشمیرکی مزاحمتی تحریک کے جوفکری راہنما تھے عشروں قبل انکی آنکھیں یہی کچھ دیکھ رہی تھیں جو 2019ء میں روبہ عمل آیا۔1990ء کوکشمیر میں مزاحمتی تحریک شروع ہونے کے پس پردہ یہی فلسفہ تھاکہ بھارت کسی بھی وقت تر نوالے کی طرح کشمیراوراسلامیان کشمیرکوکھاجائے گاتواسی فکروفلسفے کے تحت انہوں نے بھارتی ناجائزقبضے اوراسکے جارحانہ تسلط کے خلاف ایک کمزور عسکری جدوجہدشروع کی۔بلاشبہ قابض بھارت کی حربی اورفوجی برتری کے مقابلے میں یہ کمزورعسکریت تھی کسی بھی طورپراس کابھارت کے ساتھ حربی تقابل نہیںہوسکتاتھالیکن اس جدوجہدکااصل اوربنیادی فلسفہ یہ تھا کہ کشمیرکا میدان کارزارگرم ہونے کے ساتھ ہی افواج پاکستان عین اسی طرح کشمیرمیں داخل ہوکرمجاہدین کشمیرکی مددکے لئے پہنچے گی جس طرح بھارتی سفاک فوج مکتی باہنی کی مددکے لئے مشرقی پاکستان میںداخل ہوئی تھی اور90ہزار پاکستانی فوجیوں کوسرنڈرکرواکرمشرقی پاکستان کو’’بنگلہ دیش‘‘ بناکردم لیا ۔افواج پاکستان کوکشمیرمیں مجاہدین کی مددکرنے کے لئے داخل اس لئے نہیں ہوناتھاکہ خطے میںکوئی ’’کشمیردیش ‘‘بنایاجائے گابلکہ اس لئے کہ ریاست جموںوکشمیرکومملکت خدادادکے ساتھ ملایاجائے گااوراس دوران لاکھوں بھارتی فوجیوں کوذلت کے ساتھ سرنڈرکروایاجائے گااوراس طرح ایک تیرسے دوشکارہوسکتے تھے لیکن افسوس صد افسوس ایسانہ ہوسکا۔ پاکستان سے کشمیرتک دونوں فریق کے قدم نہ ڈگمگائیں اور دلوں میں ایمان و یقین کی شمع روشن رہے تو عزیمت کی کہانیاں اس نسل کے لیے قندیلیں روشن کرتی ہیں جسے ورثہ میں تحریک منتقل کرنا مقصود و مطلوب ہو۔ پاکستان سے کشمیرتک دونوں فریق کی بیاض ِعمل تابناک داستانوں سے عبارت ہو تو یہ بھی کامیابی کا ایک روشن پہلو ہوتا ہے۔ لیکن اگر نقطہ نظر یہ ٹھراکہ ُاسے بھی چھوڑو اور اسے بھی چھوڑ دو تو باقی جو بچ جاتا ہے وہ مایوسی کہلاتی ہے اور مایوسی کے سائے میں جاری رہنے والی تحریک کسی بھی صورت میں اپنے اجزائے ترکیبی برقرار نہیں رکھ سکتی۔ کشمیر کے المیوں میں سے ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ کراچی سے کشمیرتک پاکستانی عوام کی امیدوں کے علیٰ الرغم پاکستان کی کوئی بھی حکومت ان امیدوں پرکبھی نہیں اتری اورکشمیرحاصل کرنے اورکشمیری بھائیوں کوبھارتی غلامی سے نکالنے کے لئے ٹھوس بنیادوںپریکسو کبھی نظرنہیں آئی۔ڈول پیٹناالگ بات ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی حکومتوں کی جانب روزوال سے بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دیں۔ دور سے نظرڈالنے پر ایک ایسی کہکشاں نظر آرہی ہے کہ یوں محسوس ہورہاہے کہ سب چمک دمک رہے ہیں۔ لیکن قریب پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظر کا فریب اور صریحاً سراب ہے۔ پاکستان کی سابق اورموجودہ حکومتوں کاتحریک آزادی کشمیرکے تئیں ڈھیلاپڑجاناسوچ اوراپروچ کی بیماری ہے اور جب سوچ اوراپروچ کو ہی مرض لاحق ہو تو منزل کی جانب بڑھتے ہوئے قدم خودبخودرک جاتے ہیں بلکہ ٹانگیں جام ہوجاتی ہیں۔ خالی خولی بیان بازی سے کشمیرکی تحریک کامیاب نہیںہوسکتی اس تحریک کوکامیابی سے ہمکنار کرناہے تو مضبوطی سے اصول پسندی کا دامن تھام لینا پڑے گا اوراصول پسندی یہ ہے کہ پاکستان اپنی شہہ رگ کوپنجہ ہنود سے زورباز سے چھڑادے۔ یکجہتی کی مالا جپناکوئی معنی نہیں رکھتا اگرکسی کوسمجھ نہیں آتاتو نتائج ہمارے سامنے ہیں،کہ 72برس کے بعدبھی کشمیرنہ صرف بھارت کے پاس ہے بلکہ اس نے اب اسے پوری طرح ہضم کرنے کااقدام بھی کرلیاہے اورپاکستان کے حکمران دیکھتے ہی رہ گئے۔ ارباب پاکستان کو اپنی افتاد طبع کے برعکس ہر حال میں تحریک آزادی کشمیر کے تقاضوں اور مطالبوں پر عمل پیرا ہونا چاہئے تب جا کر ہی بھارت کی رعونت پر خاک ڈالی جا سکتی ہے۔ اور یہ بات علیٰ التحقیق تسلیم شدہ ہے کہ اگر ارباب پاکستان ہندوبھارت کی وارداتوںجو تحریک آزادی کشمیر پر بہر نوع مہلک اور مضر اثرات مرّتب کر رہی ہیں کے سامنے اورہر اس( Issue) کے خلاف سینہ تان کر کھڑے نہیں ہو جاتے تو پھرجھک جانااورشکست سے دو چار ہونا ان کا مقدر بن جاتا ہے۔نوازشریف ،زرداری ، پرویز مشرف اورعمران خان کی کوئی کشمیر پالیسی ہی نہ تھی ۔پرویزمشرف کے پیکر خاکی نے تو کشمیر میں جاری جدّوجہد کی ایسی پیوند کاری کی نا کام کوشش کی جو کسی بھی طرح اور کسی بھی حال میں اصل خاکے کے ساتھ کوئی میل نہیںکھاتی اوریہ کشمیریوں کے جذبات و احساسات اورانکی قربانیوں کے بالکل علیٰ الرغم ہے۔ ہوا کے رخ پر چلنے والوں ، ہلکی سی آندھی پر لرزہ بر اندام ہونے والوں اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں سے کبھی یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ کشتی کو کنارہ دے سکیں بلکہ دریائوں کی روانی سے لڑنے اور اسکے بہائو کو پھیر دینے کی ہمت اور ہوا کا رخ بدل دینے کا عزم رکھنے والے ہی مصائب اور مشکلات میںسفینے کو بھنور سے نکال کر کنارہ دیتے ہیں بقول اقبال’’ دریائوں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان‘‘ ارباب پاکستان کا تحریک آزادی کشمیر کے ساتھ اپنی نسبت جتانے کے باوجود ان کے حوصلوں کا بانکپن صاف دکھائی دے رہا ہے جو کسی المیے سے کم نہیں ہے۔ مصلحت کیشی کے کسی کمزور لمحے کو دہلیز کے اندر قدم نہ دھرنے دینا ہی در اصل ہمت مرداں کہلاتی ہے۔ جب کشمیرتنازعے کااہم قانونی فریق یااس مسئلے کے وابستگان مصلحت کیشی سے مبرا ہوں تو انہیں یقین کر لینا چاہیے کہ وہ اپنا حق ادا کر رہے ہیں اور تحریک کے بنیادی موقف پر ڈٹ جانے سے مثبت اور بوقلمونی اثرات مرتب ہو جاتے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں سب سے نازک موقع وہ ہوتا ہے کہ جب وہ کسی بڑی کامیابی یا نا کامی سے دور چار ہوتی ہیں۔ اس وقت نفس پر قابو رکھنا اور ضبط سے کام لینا اگرچہ بہت مشکل ہوتا ہے لیکن یہی وہ موقع ہوتا ہے کہ جب قوموں میں سنجیدگی متانت ، وقار اور (Character )کی مضبوطی پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے حکومت پاکستان کی اپنی شہہ رگ کے حوالے سے دل سوزی اور بے کلی کا حجم اور گہرائی اور وسعت بلا حساب ہونی چاہیے۔بڑے مقصد اور نصب العین کی تکمیل کے لیے صبر کی اہمیت محتاج بیان نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لیے صبر و استقلال لازمی اسباب ہیں امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دین پر ابھارنے اور قائم رکھنے والے تصّورات و اعمال پر جمے رہنا اور خواہشات نفس کی پیروی نہ کرنا صبر ہے جو شخص ہوائے نفس پر غالب آجائے اور وسوسوں کو زیر کرلے وہ صابر ہے۔ جبکہ سید سلیمان ندوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اپنے نفس کو اضطراب اور گھبراہٹ سے روکنا اور دل کی مضبوطی ، یا مردی اور ثابت قدمی ہی در اصل صبر کہلاتا ہے۔ ارباب پاکستان کویہ یقین پختہ کرلیناچاہئے کہ کشمیر کی تحریکِ مزاحمت مختلف الجہات اور اپنی حدت اور شدت کے باعث زیادہ اثر آفریں اور مضبوط ہے اور اس میں عوامی شرکت، ردّعمل اور جوش ولولہ اور جذبے کا عنصر بڑے وسیع پیمانے پر شامل ہے اس کے باوجود بھارت نہایت بے رحمانہ اور ظالمانہ طریقے سے اس تحریک کو تہس نہس کرنے پر تلا ہوا ہے۔ جس سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ ماضی کی طرح بھارت ہمیشہ کی طرح آج بھی حقائق کو جھٹلا اور ملت کشمیر کے مطالبے اور آواز کو بڑی بے توقیری کے ساتھ ٹھکرا رہا ہے لیکن حقائق ، حقائق ہوتے ہیں اور قدیم بھارتی ادب میں لکھا ہے کہ ’’ جب حقائق بولتے ہیں تو دیوتا بھی خاموش ہو جاتے ہیں۔‘‘ حقائق یہ ہیں کہ جب تک مسئلے کے اس روشن پہلوکو صرف نظر کیا جاتا رہے گا اور جب تک ملّتِ کشمیر کے فلسفہ حیات اور نقطہ نظر کو تسلیم نہیں کیا جائیگا خطے میں بد قسمتی خیمے گاڑے موجود رہے گی۔ تحریک آزادی کشمیر کو آج نہیں تو کل ضرور ثمر بار ہونا ہے طیب کلمہ پر استوار جدوّجہد خزاں موسموں کو جھیل کر بالآخر برگ و بار لا کے رہتی ہے۔کشمیری مسلمانوں کاآزادی کا خواب شرمندہ تعبیر ضرور ہوگا۔لیکن بھارتی تیوربتاتے ہیں کہ اس کے لیے آزمائشوں کا ایک دراز سلسلہ ابھی باقی ہے کہ بھارت نواز مزید ایکسپوز ہوں لیکن ایک سچی تحریک نا کام کیسے ہو سکتی ہے۔ ملت کشمیر کو در پیش سخت اور بڑے چیلنج کی چارہ گری کا نسخہ یہی ہے کہ وہ اپنے موقف پر سختی کیساتھ عمل پیرا ہو۔منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے ملت کشمیر بہر حال یکسوئی اور ایک عظیم ماہیت قلب کی ضرورت ہے زندہ قوموں کا یہی شیوہ رہا ہے۔